اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں وہاں کے عوام نے برطانوی سلطنت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ عوام بڑی مارکیٹ کے فوائد سے آگاہ ہیں اوراس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی بحران جاری ہے اور اس میں مزید اضافہ بیس انتظامی یونٹوں کے مطالبے سےہوا ہے۔ مستقبل قریب میں ایسا ہونا نا ممکن نظر آتا ہے کیونکہ لسانی سیاق و سباق کی وجہ سے یہ مسئلہ نہایت پیچیدہ ہے۔ ان حالات میں صائب یہی نظر آتا ہے کہ لوکل باڈیز کے انتخابات منعقدکرائے جائیں اوراختیارات کو نچلی سطح تک پھیلا دیا جائے۔
یورپ میں دو عظیم جنگوں کے بعد قومیتوں کی بنیادوں پر بہت سے ملک تخلیق ہوئے اور انہوں نے ترقی کی منازل طے کیں۔ لیکن آخر کار ان ملکوں میں اتحاد کی تحریک پیدا ہوئی اور یورپی یونین وجود میں آئی۔ اب یورپین یونین ایک طرح سے سیاسی اکائی بن چکی ہے۔ ان ملکوں کی ایک کرنسی یورو بھی معرض وجود میں آئی اور ان کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک جانے کے لئے ویزہ درکار نہیں ہے۔ یورپی یونین کی اپنی پارلیمنٹ ہے جس میں یورپ کے ہرملک سے نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔ یورپی یونین کے قیام کا بنیادی مقصد ایک بڑی منڈی کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ہر ملک اور قومیت کے باشندے معاشی مفادات حاصل کر سکیں۔ گویا کہ موجودہ گلوبلائزیشن کے زمانے میں ملک اور علاقائی طاقتیں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں اورعلاقائی معاشی اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔اگرچہ مختلف قومیتوں کو ایک بڑی اکائی میں رہنے کے بہت سے فوائد ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ قومیتوں کے درمیان اتحاد خود مختاری کی بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ یعنی اگر کسی قومیت کو ایک ملک میں رہتے ہوئے تعصبات کا سامنا ہو اور اس کا استحصال ہورہا ہو تو اسے علیحدگی کا حق ہونا چاہئے۔ برطانیہ میں اسی اصول کی بنیاد پراسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کرایا گیا۔ اگر مشرقی بنگال کی جائز شکایتوں کو دور کرکے وہاں بھی ریفرنڈم کروایا جاتا تو شاید ملک دو لخت نہ ہوتا۔ اگر مشرقی پاکستان کے مسلمان بنگالیوں کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جاتا اوران کو برابری کی بنیاد پرکار سرکار میں حصہ دیا جاتا تو ان کو علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت تھی۔
آج کے پاکستان میں بلوچوں کے علاوہ دوسری ساری قومیتیں ایک اکائی میں رہنے کے مثبت پہلووں سے آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اسمبلی میں تمام پارٹیاں پاکستان کے اتحاد کے بارے میں متفق ہیں۔ پشتون عوام جانتے ہیں کہ ان کو پاکستان کی بڑی مارکیٹ میں رہ کر بہتر معاشی مواقع میسر ہیں۔ ان کے کاروبار پورے پنجاب اور سندھ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی لئے خیبر پختونخوا کی سیاسی پارٹیاں پشتون قومیت کی بنیادوں پرعلیحدگی کا نعرہ نہیں لگاتیں۔ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی سالوں میں جب پختون علاقوں کی معیشت کا باقی ملک سے اتصال نہیں ہوا تھا تو اس علاقے میں علیحدگی پسندی (پشتونستان کا قیام) کے کچھ رجحانات دیکھنے میں آتے تھے، لیکن جونہی اس علاقے کے لوگوں نے روزگار اور کاروباروں کے لئے پنجاب ، کراچی اور دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کی پاکستان کی اکائی پر ان کا اعتماد بڑھتا گیا۔ بد قسمتی سے ابھی تک بلوچ عوام پاکستان کی معیشت میں ضم ہوئے ہیں نہ ہی وہ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں لہٰذا ان کے ایک بہت بڑے حصے میں علیحدگی پسندی کے شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ بلوچ عوام کو پاکستان کی معیشت میں جائز حقوق دئیے جائیں اور ان کی باقی ملک کی صنعت و تجارت میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اگرچہ قومیتی یا لسانی بنیادوں پر پاکستان کو تقسیم کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں ہے لیکن ایک پارٹی کی طرف سے ملک کو بیس یونٹوں میں بانٹنے کی بات کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں چار صوبوں کی بجائے بیس صوبے بنادئیے جائیں ۔ اگرچہ اس تجویز کو سامنے لانے والی پارٹی نے لسانی کی بجائے انتظامی یونٹوں پر زوردیا ہے لیکن پاکستان کے مخصوص حالات میں تقسیم کا عمل انتہائی پیچیدہ ہے۔ سندھی اپنے صوبے کو کسی بھی طرح سے تقسیم کرنے کے مخالف ہیں ۔ ہزارہ اور سرائیکی صوبوں کی بھی کافی مخالفت پائی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں انتخابات جیت لیتی،لیکن ایسا نہیں ہوا جس کا مطلب ہے کہ اس علاقے کے عوام مزید یونٹوں کے حق میں نہیں ہیں۔
پاکستان میں بنیادی مسئلہ یہ نہیں کہ اس کے صوبے بہت بڑے بڑے ہیں اور اس وجہ سے ان کی انتظامی کارکردگی خراب ہے۔ اس وقت حکومتی کارکردگی کے خلاف سب سے زیادہ شور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہے: عمران خان اور علامہ طاہر القادری پنجاب کے عوام کی بےچینی اور مایوسی کی نمائندگی کررہے ہیں۔ لیکن اس صوبے میں مزید یونٹ بنانے کا کوئی عوامی مطالبہ نہیں ہے۔ غالباًعوام کو اس بات کا احساس ہے کہ صوبے کو مزید یونٹوں میں تقسیم کرنے میں مسئلے کا حل نہیں ہے۔ البتہ زیادہ ترعوام اور دانشور اس بارے میں متفق ہیں کہ مرکز اورصوبوں کے پاس اختیارات کے مرتکز ہونے کی وجہ سے حکومتی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس کا اصل لوکل گورنمنٹ کو بااختیار بنانا ہے۔
امریکہ کی بہت سی ریاستیں(صوبے) کئی ملکوں سے بھی بڑی ہیں۔ مثلاًکیلیفورنیا کی ریاست رقبے اور بجٹ کے اعتبار سے دنیا کے اکثر ممالک سے بھی بڑی ہے۔ اس کے باوجود یہ ریاست امریکہ کی بہت ہی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہے۔ امریکہ میں بڑی چھوٹی ریاستوں کا مسئلہ اس لئے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اول تو عوام کی اکثر ضرورتیں نجی شعبہ پوری کرتا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، پانی نجی شعبہ فراہم کرتا ہے لہٰذا عوام کاان تمام ضرورتوں کے لئے حکومت سے کوئی لین دین نہیں ہے۔ دوم حکومت کی فراہم کردہ سہولتیں(پولیس وغیرہ)مقامی سطح کی سرکاری تنظیموں کے دائرہ کار میں ہوتی ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے گاؤں سے لے کر نیویارک جیسے بڑے شہر تک مقامی انتظامیہ منتخب ہوتی ہے جومختلف سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔
پاکستان میں اختیارات تب تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ہاتھ میں رہیں گے جب تک بہت بڑے بڑے معاشی یونٹوں پر ان کی اجارہ داری ہے۔ اگر بجلی، گیس، پٹرول وغیرہ پر مرکزی حکومت کی اجارہ داری ہوگی تو بیس کی بجائے چالیس یونٹوں میں ملک کو تقسیم کرنے سے بھی حکومتی کارکردگی میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کا حل تب ہی ہوگا جب ان معاشی اکائیوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو پختہ اور با اختیار بنایا جائے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں قوانین اور ضوابط مرتب کریں جن کے تحت مقامی حکومتیں اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔ اگر کراچی یا لاہور کو نیویارک یا شکاگو جیسی مقامی حکومتوں کے ذریعے چلایا جائے تو مزید یونٹ قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ پاکستان میں پہلے ہی صوبوں کے تحت کمشنریوں، ضلعوں،تحصیلوں اور یونین کونسلوں کا نظام موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو فعال بنایا جائے جوکہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات سے ہی ممکن ہے۔ مزید برآں جس طرح اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بہت سے اختیارات صوبوں کو سونپ دئیے گئے ہیں اسی طرح قانون سازی سے صوبائی حکومتوں کے اختیارات لوکل باڈیز کو دئیے جائیں۔