• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میکسم گورکی کا قول ہے:’’اگر مقدس حق دنیا کی متجس نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے تو رحمت ہو اس دیوانے پر جو انسانی دماغ پہ یہ سنہرا خواب طاری کر دے۔‘‘
اور انسانوں کا شاید سب سے زیادہ مقدس حق ان کی عزت نفس کے حق کا تسلیم کیا جانا ہے ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ نے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کو اسلام آباد کے دھرنوں کی جائے پیدائش قرار دیا ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو، اسلم بیگ اس قصے میں حب الوطنی کا فرض ادا کرتے ہوئے ستوئووں کی پوٹلی اٹھائیں، قوم کو قریہ قریہ آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل کھڑے ہوں۔ پاکستانی عوام مگر اس جائے پیدائش کی دھماکہ خیزی میں مبتلا نہیں، انہیں اسلام آباد میںموجود ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان جیسے دو دیوانوں سے زیادہ غرض ہے، ان کے سبب انہیں پاکستان کے آئین میں موجود ان کی عزت نفس کے مقدس حق سے ایک بار پھر برسوں کے وقفے سے حیرت انگیز عجلت کے ساتھ آگاہی کی نعمت نصیب ہوئی، یہ نعمت ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بی بی کی شہادت کے بعد ان سے چھین لی گئی تھی، اب تو پاکستان کی مائوں کے رحم میں قدرت جن بچوں کی روحیں انسانی چہرے میں منتقل کرنے جا رہی ہے، انہیں بھی 1973کا آئین اور ان کے مقدس حقوق کے الفاظ ازبر ہو گئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار پر سرفراز کئے جانے اور بی بی کے مرتبۂ شہادت پر فائز ہونے کے بعد اس ’’آئین‘‘ اور اس ’’مقدس حق‘‘ کی یاد تک لوگوں سے اپنے باپ کی وراثت سمجھ کر ہتھیا لی گئی تھی!
ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ کو یاد دہانی کرائی جا سکتی ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے جونیجو حکومت کی برطرفی پر اس وقت کی حکومت کو ’’واضح رہے سڑک کے ادھر ہم بیٹھے ہیں‘‘، کا سندیسہ بھیجا تھا۔ مزید انہیں ضیاءالحق کے فرزند ارجمند کا یہ کہنا بھی یقیناً بھولا نہیں ہو گا ’’میرا والد زندہ ہوتا تو میں دیکھتا، جونیجو حکومت کیسے بحال کی جاتی ہے۔‘‘ یہ وہ قومی سپوت ہیںجنہوں نے اپنے دور وزارت میں ایک بار اسلام آباد میں نواب زادہ نصراللہ خان کا کروڑوں کا محل تعمیر کرا دیا تھا۔ واقعات زمین کی چھاتی پہ موجود ہوتے ہیں، انہیں آپ ضرور اکھاڑیں پھر ان کے آئینے میں اپنے چہرہ کا تعین کرنے پہ بھی تیار رہیں۔ ریٹائرڈ جرنیل نے پاکستان میں جمہوریت کے خلاف سازش کی تھیوری میں ایران کی امریکہ سے ہم آہنگی کا ناقابل تصور نظریہ بھی پیش کیا جس سے ان کے ذہنی مرکز کے اِدھر اُدھر ہونے احساس جاگزیں ہوتا ہے، پاکستان کے خلاف امریکہ اور ایران کا سازشی استعمال ایسی ہی غیر معروضی اپروچ ہے، بلکہ مکمل طور پر غیر قدرتی!
ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار سے معانقے کے 35برس بعد تاریخ ایک بار پھر زندگی کے دریچوں سے اپنی سنہری کرنوں سمیت طلوع ہوتی دکھائی دیتی ہے، اب پنجاب کا عام آدمی پنجاب کی سڑکوں پہ، عوام کے ٹیکسوں سے لاکھوں روپوں کا پٹرول بھروا کر، لاپرواہی اور اکڑ کے ساتھ فراٹے بھرتے موٹر سائیکل سوار پولیس محافظ کے دستوں سے یہ پوچھنے پر پوری طرح تیار ہو بیٹھا ہے۔ ’’تم نے مجھے روک کر، بلا کسی عزت و احترام کے گالی کیوں دی؟ دھکا کیوں دیا؟ ٹھُڈا کیوںمارا؟ میرے گریبان پہ ہاتھ کیوں ڈالا؟‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں یہی سوال مزدور نے سرمایہ دار سے پوچھا تھا ’’تم نے مجھے کس لئے ملازمت سے برطرف کیا؟ مطلوبہ قانونی مدت کا نوٹس کیوں نہیں دیا؟ اپنے غنڈوں سے مجھے بے توقیر کیوں کروایا؟
اسلام آباد کے دھرنے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سے درآمد کئے گئے، آپ اس سازش کے منکشف ہونے پہ فی الفور پاکستانی قوم کے سامنے اپنی حب الوطنی کا ’’شاہی مینارہ‘‘،تعمیر کرنا شروع کر دیں، ہاں! عام آدمی تو پہلے میکسم گورکی کے اس قول پہ سر دُھنے گا کہ ’’اگر مقدس حق دنیا کی متجس نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے تو رحمت ہو اس دیوانے پہ جو انسانی دماغ پہ یہ سنہرا خواب طاری کر دے‘‘ اور دیوانوں کی حیثیت سے اس کو صرف ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان ہی نظر آئیں گے! ذوالفقار علی بھٹو نے 37برس قبل پاکستان کے عام آدمی کی اسی عزت نفس کے آدرش کا پیغام دیا تھا، اس کی صحیح معنوں میں جانشین صاحبزادی بے نظیر بھٹو شہید نے لوگوںکی زندگیوں کے لئے اپنے باپ کے اس سربرآوردہ پیغام کی روایت کا علم بلند کر کے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنے لہو سے اپنی گواہی ثبت کی، چنانچہ ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کو معلوم ہو، یہ جو سیلاب کے پانیوں میں گھری خوار و زبوں بوڑھی عورتوں نے مصیبت کی ان جان لیوا گھڑیوں میں سب کچھ فراموش کر کے، بے ساختہ بلاول کی بلائیں لیں، اس کا ماتھا چوما، وہ ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار سے بہنے والے خون کو اپنے احترام اور دعائوں کا صدقہ دیا تھا، بھٹو کے اس یقین پہ اپنے وچن کو دہرایا تھا:۔’’ہر غریب کی چھت سے ٹپکنے والا پانی تمہاری امانت ہے، آ، اسے ہماری امانت بنا کے ہمیں لوٹا دے‘‘
بلاول کے آنے پر ان کا واری صدقے ہونا اپنے اس عہد کی پاسداری تھی جو اس دھرتی کے غریب باسیوں نے اس جھولتے رسے سے باندھ رکھا ہے!
ہمیں کیونکر بھولے جب بھٹو نے عباس اطہر کی زبانی کہا تھا:
سارے ملک، گہنگاروں کے میرےہیں
ساری قومیں، مجبوروں کی میری ہیں
جتنے نام ہیں، گمنامی کے میرے ہیں
میں بے بس ہوں
سارے رسّے
اس کے ہاتھ میں پکڑے ہیں
جس نے صبح کا تین دفعہ انکار کیا
اور ساری گردنیں میری ہیں
تاریکی کے تخت پہ، جس نے
رسہ گلے میں باندھ کے بھی
اقرار کیا ہے
میرا کوئی نام نہیں ہے
میں نے پھانسی کے تختے پر جنم لیا ہے
رات نے میری گواہی دی ہے
صبح نے میری صفائی دی ہے!
لیکن کیا بلاول کا مطالعہ یا بلاول کے اتالیق اسے ذوالفقار علی بھٹو کے اس نظریاتی اثاثے کا ادراک فراہم کر رہے ہیں؟ کوئی اسے بتائے گا، وہ یاقوت سے تراشہ یونانی دیوتا نہیں نہ پاکستان کے فرزند کسی کے چرنوں میں جھکنے کے عادی، اسے جن عوام کے کندھوں کے اوپر سےجھانکنے کی سعادت میسر ہو رہی ہے وہ اُسی نظریاتی اثاثے کی نایاب متاع کا نتیجہ ہے، بلاول تو پاکستان میں سینکڑوں ہوں گے، تمہیں قدرت نے عوام کی امانت کا تاج پہنایا ہے، اس کی حرمت کی برقراری کوئی پھولوں کی سیج نہیں! لگتا ہے اس کا اپنا مطالعہ یا اس کے اتالیق عوام کو نوڈیرو کی شہادت گاہوں کے محافظ و رکھوالے نہیں ہمیشہ کے لئے بھوکی ننگی غلامی پسند مجاوری کے ہاتھوں میں سجا کر، ان کی عقیدتوں اور قربانیوں کے معاملے اپنی سودا کاریوں یا فریب کاریوں سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہے، بلاول نے پاکستان پیپلز پارٹی کو مکمل لیفٹ کی پارٹی بنانے کا مبارک خواب دیکھا اور دکھایا ہے، گڈ! کوشش کریں گے اسے لیفٹ کی پارٹی کے لئے سجاد ظہر سے ذوالفقار علی بھٹو تک کی کہانی سنائیں!
وہ آج کی پیپلز پارٹی کا فی الحال سن لیں، یہ جماعت ان لوگوں کے نرغے میں ہے جنہوں نے گزشتہ عہد اقتدار کی مسند ملنے کے بعد، تھری پیس سوٹ پہن کر اور بیوٹی پارلرز میں گھنٹوں صرف کر کے حلف اٹھائے، ابھی بی بی کی شہادت کو شاید تین ماہ بھی نہیں گزرے تھے،پھر اکثر نے دہاڑیوں کے بازار سجائے اور ’’کارپٹ بیگرز‘‘ کہلائے! پنجاب ہی نہیں، بلاول سندھ کی فکر کرے، کوئی سیلاب پورا شہر ڈبونے کو ہے، عمران نے سندھ کے ہاریوں تک بھٹو کے نام کی لے پہنچائی ہے، کسی اتالیق کی دانش تلے دب کر نہ رہنا، وقت بدل چکا ہے، ابھی وقت کو قابو کیا جا سکتا ہے، اک ذرا سی غلطی سے یہ وقت بھی نکل جائے گا! ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ اقتدار کی مرکزیت سے پیدا شدہ فرعونیت کا راستہ مہیا کرنے کے مفہوم میں سندھ نہ دیسو، پنجاب نہ دیسو، بلوچستان نہ دیسو، کے پی کے نہ دیسو کے نعرے بلند کرتا، اس کے نعروں میں اقتدار کی مرکزیت سے پیدا شدہ فرعونیت کے توڑ کے بجائے اس کی چوکیداری کے اعلان کی گونج سنائی دیتی، کیا خود بلاول کو یا اس کے اتالیق کسی خود فراموشی کے عالم میں ہیں، انہیں معلوم نہیں ہے صوبوں کے قیام کا مطالبہ ریاست کی سائنس کا اظہار ہے، اس میں ملک توڑنے کی بجائے پیش بند جہاد کے انداز میں گلے اور سینے کا پورا زور لگانا کم از کم کامن سینس نام کی کسی شے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور وقت یہ ہے جس نے گدھا گاڑی کے سندھی محنت کش کا یہ سوال محفوظ کرایا ہے، ’’میں تو اپنے راستے پر جا رہا تھا، یہ وزیر اعلیٰ 35گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ یہاں کیا لینے آیا ہے؟ اس فوج کے بغیر سیلابپُرسا نہیں ہو سکتا تھا‘‘
عزیز من! داستان طویل ہے، لکھوں گا بھی سنائوں گا بھی، انشاء اللہ!
اور اب بھائی وجاہت مسعود! انہوں نے کہا سیاسی شعور کے لئے معیشت کو کیوں بھول جاتے ہو؟ خدا کی قسم! نہیں بھولا! آپ کے ہم رکاب اور آپ کے پروانوں میں ہوں۔ میں تو ان لوگوں کے ہاتھوں پاکستانیوں کی بے عزتی پر نوحہ خواں تھا۔ برادر! یہ ہیلی کاپٹروں پہ بیٹھ کے اتوار بازاروں کا جائزہ لیتے رہے، ایک اڑ کر ساہیوال چلا گیا، یہ اس طرح اپنی ’’حکمرانی‘‘کی ’’آوارہ گردیوں‘‘ سے لطف اندوز ہو رہے تھے، اور ہم خود داروں کے بزرگوں کی ہڈیاں بھی غصے سے ان کی قبروں میںکڑکڑا رہی تھیں، میں تو ان کے ہاتھوں اپنی عزت نفس کے جنازے پر بین کر رہا تھا، معیشت کا پہلو تو سوالیہ نشان ہی نہیں! اور یہ پاکستان پیپلز پارٹی!
جس مشترکہ اجلاس پر انہوں نے چھ کروڑ خرچ کئے، بُلے لوٹے، اس جماعت نے وہاں عوام کے دکھوں کی کوئی ایک بات بھی کی، جو بھی ’’گاڈ فادر‘‘ ہے کیا وہ لوگوں کو اپنے جدی غلام سمجھ بیٹھا ہے؟ ہم پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے اسے بتائیں گے، ذوالفقار علی بھٹو کا کھا رہے ہو! عوام کی بات کرو! نہ کی تو عوام ہی تم سے پارٹی واگزار کرا لیں گے!
تازہ ترین