• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیڈر بیمار ہے اور اس کے اعصاب جواب دیتے جارہے ہیں۔ بائیس اگست کو پاکستان اور ڈی جی رینجرز، میجر جنرل بلال اکبر کے بارے میںجو بیہودہ کلامی کی گئی، اس کی اور کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی۔ جنرل صاحب کو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ الطاف حسین کو اُن سے اور پاکستان سے ایک جتنی نفرت ہے ۔ وہ ہرزہ سرائی اعصاب چٹخنے،بس نہ چلنے پر غصے اور اشتعال کے درجہ کھو لائو تک پہنچ کر بے بسی کی شکل اختیار کرنے کا برملا اظہار تھا۔ لندن صرف پرسکون ہی نہیں تقویت آفرین مقام بھی تھا کیونکہ وہاں بیٹھے ہوئے لیڈر کی جنبش ِ مژگان کراچی میں تشدد کا طوفان برپا کرسکتی تھی، اور حکمرانی کرنے والے سیاست دان اس ریموٹ کنٹرول آفت کو لگام دینے سے قاصر، الطاف حسین کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگ جاتے۔ سب جان کی امان پاتے کہ اسی میں خیر تھی ۔ اس دوران آزادی اظہار کے داعی، میڈیا ہائوسز بھی دانائی اور احتیاط کا دامن تھامنا بہتر سمجھتے۔ لفظ ’’ایم کیو ایم ‘‘ کو کسی منفی تبصرے کے لئے استعمال کا کوئی تصوربھی موجود نہ تھا۔
کیا شان و شوکت کے دن تھے اس لیڈر کے جب اُس کی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ یا اشارہ بھی پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی اور کمرشل شہر میں قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ اور یہ شہر پاکستان کی واحد بندرگاہ تھا۔ جب وہ تقریر کرتا، یا جو بھی بے سروپا ہانکتا، ریاست کے چوتھے ستون کے تمام بلاکس دیگر پروگرامز روک کر گھنٹو ں جاری رہنے والی سمع خراشی نشرکرنے پر مجبور ہوتے ۔ اُن تقریروں میں مسخرہ پن بھی ہوتا، گانے بھی گائے جاتے، دھمکیاں بھی دی جاتیں، معقولیت کے سوا سب کچھ ہوتا لیکن آزادی اظہار کے جانباز یہ سب کچھ دکھانے پر مجبور ، کیونکہ نہ دکھانے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی۔
ایم کیوایم، اس کا مسلح ونگ اور سیکٹر کمانڈرز، جو شہر کو اپنی گرفت میں رکھتے، سزا دینا جانتے تھے ۔ کوئی فوجی حکومت بھی کراچی پر اتنا کڑا تسلط قائم نہیں کرسکتی تھی جتنا ایم کیو ایم نے کررکھاتھا۔ اسے درحقیقت خوف کی حکمرانی کہا جاسکتا ہے ۔ اور ہر اشتعال انگیزی کے بعد سیاست دان اور حکومت مزید گھٹنے ٹیکتے ہوئے اُنہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے۔ اسلام کے عظیم قلعے میں دو نوگو ایریاز تھے، ایک تحریک ِ طالبان پاکستان کے مقدس جہادیوں کا فاٹا جہاں پاکستان کی ریاستی عملداری کا شائبہ تک نہ تھا، اور دوسرا کراچی جہاں ایم کیو ایم کا راج تھا۔ ٹی ٹی پی کے امیر کم از کم جسمانی طور پر اپنی امارت میں موجود تھے لیکن ایم کیو ایم کا امیر کراچی سے بہت دور، لندن میںبیٹھ کر اپنی سلطنت چلا رہا تھا۔ جیسے گلوبلائزیشن کے دور میں بزنس کے اثاثے سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں، اسی طرح ایم کیو ایم کے لئے جغرافیائی حدود بے معنی تھیں۔
لیکن یہ تب کی بات ہے۔ جیسے ہی جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے، فاٹا اور کراچی میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ فاٹا میں ایک بھرپور فوجی آپریشن، جو اس سے پہلے فوجی قیادت کرنے سے گریز کررہی تھی، شروع کیا گیا، جبکہ کراچی میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری رینجرز کو سونپی گئی ۔ آج ، دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ابھی باقی، لیکن اس کی جڑوں کو ہلا دیا گیا ہے ۔ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات ابھی ہوں گے لیکن اس کا لیول اب وہ نہیں جو کبھی تھا۔ ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں بھتہ خوری ایک صنعت کا درجہ رکھتاتھا ۔ ابھی بھی بھتہ خوری کسی حد تک ہوگی لیکن اتنی نہیں جتنی دوسال پہلے تک تھی۔ اب صورت ِحال کہیں بہتر ، اس کے شہری نسبتاً سکون کا سانس لے رہے ہیں۔ اب وہ اور باقی قوم بھی اس کے لیڈر کی دھمکی آمیز طویل تقریریں سننے کی مشقت سے بچ گئی ہے ۔ اس میں کورٹ آرڈر نے بھی عوام کو ریلیف فراہم کیا جب الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ۔
یہ ہے وہ علاج، بلکہ جراحت، جو موصوف کے اعصاب پر گراں گزرا ہے ۔ بھتہ خوری سے ہونے والی بے پناہ آمدن ختم، ٹارگٹ کلرز یا تو حراست میں ، یا مفرور، اور الطاف حسین تقریریں کرکے اپنا نشہ پورا کرنے اور کراچی ، بلکہ پوری قوم کے میڈیا کو یرغمال بنانے کا شوق پورا کرنے سے قاصر۔ اب ان کی فاصلاتی سلطنت حملے کی زد میں، قریبی وفادارفرار، اور ٹی وی چینلزبھی اپنے حوصلے بحال کرتے ہوئے ، رینجرز آپریشن کا شکریہ ، ان کی آواز اور تصویر کو آف کرنے کے قابل۔ ایک نفسیاتی فسطائی( جو خود کو انتہائی اہم سمجھنے کے مرض میں مبتلا ہو) کو سب سے زیادہ محبت اپنے آپ سے ہوتی ہے ، چنانچہ جب وہ اپنی آواز نہیں سن سکتا، جب تعریف کرتے ہوئے ہجوم کی آواز اُس کے کانوں تک نہیں پہنچتی تو یہ اذیت اُس کے لئے موت سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے ۔ نوازشریف اپنے باورچیوں کے بغیر کیا ہوں گے؟ وہ ہرگز نہیں جانتے ہوں گے کہ ’پس چہ باید کرد‘؟ چوہدری نثار علی خان پنجاب ہائوس اسلام آباد اور ہفتہ وار طویل پریس کانفرنسوں، جو اُن کے مصروف ہونے کا بھرم قائم رکھتی ہیں، کے بغیر کیا کریں گے؟ایک مے نوش کی شام نصف لبریز خوشبودار گلاس کے بغیر کیا ہے؟اسی طرح الطاف حسین اپنی تقریروں کے بغیر کچھ نہیں۔
ایم کیو ایم پر رینجرزکے کریک ڈائون نے اس پر جسمانی طور پر ضرب لگائی، ہائی کورٹ نے روحانی اذیت کا سامان کرتے ہوئے تقریروں پر قدغن لگادی۔ یہ بات بھائی کو برداشت نہ تھی۔ بائیس اگست کو اپنے وفاداروں سے پوچھا کہ جو چینل اُن کی تقریروں کو نہیں دکھاتے، اُنہیں بند کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے لئے نفرت کا لاوا بہہ نکلا۔تو پھر جس ملک نے شکاگو میں ایک ٹیکسی چلانے والے کو عظمت کی بلندیوں پر بٹھا دیا تھا، نے بھی سوچ لیا کہ بس بہت ہوگئی، اب خون چوسنے والوں کو آب حیات کی فراہمی بند۔ غصے سے تلملاتے ہوئے پہلے رینجرز اور فوج کے خلاف زہر اگلا، اور پھر ٹی وی چینلوں میں توڑ پھوڑ کرکے غصہ نکالا۔ یہ را کی کوئی سازش نہ تھی، یہ وہ سچائی تھی جوبر ملا، بے ساختہ پن کی طرح، پوری ایمانداری سے ظاہر ہوجاتی ہے ۔ یہی تھا الطاف حسین، نہ کم نہ زیادہ۔ آپ اسے علامتی طور پر الطاف حسین کا آرمی پبلک اسکول پر حملہ کہہ لیں۔ جس طرح اے پی ایس پر حملے نے ہمارے سیاست دانوں پر دہشت گردوں کی اصلیت عیاں کردی، اسی طرح اس حملے کے بعد قوم الطاف حسین کو خوش کرنے کی بار بار زحمت سے نکل آئی۔ اب وہ سامنے کھڑا تھا، تمام غلاف اتار کر اور کوئی سیاست دان، رحمان ملک سمیت، بھی اُسے خوش کرنے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔
یہاں، اس مرحلے پر ایک امتیاز کرنا ہوگا۔ الطاف حسین ایم کیو ایم کا بانی ضرور ہے لیکن آج کی ایم کیو ایم ایک حقیقت اور الطاف حسین سے کہیں بڑی ہے ۔ اپنے مسائل کے باوجود یہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔ اسے لاکھوں شہریوں کی سیاسی اور جذباتی حمایت حاصل ہے ۔ چنانچہ اسے الطاف حسین کے آئینے میں نہیں دیکھنا چاہئے ۔یہاں ہمیں اپنے سیکورٹی اداروں کی میچورٹی کو بھی سراہنا ہوگا کہ الطاف حسین کی زہرفشانی کے باوجود وسیم اختر کے کراچی کے میئر کے انتخاب میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی ۔ اُنھوں نے شفاف طریقے سے الیکشن جیتا ہے ، چنانچہ اُنہیں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے ۔کبھی عشرت العباد بھی اپنے باس کی قابل ِ اعتماد آواز تھے ، اب وہ سندھ کے طویل ترین عرصہ سے گورنر ہیں۔ اسی طرح وسیم اختر اور فاروق ستار بھی الطاف حسین کی چھتری تلے پروان چڑھے ہیں ، لیکن ضروری ہے کہ اب وہ اس سائے سے الگ ہوکر اپنی شناخت بنائیں۔ لندن تنظیم کی گرفت ضرور ختم ہوگی۔ اب اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے ۔ ایک بات، بہت زیادہ برہم ہونے کی ضرورت نہیں۔ الطاف حسین نے اپنے پائوں پر کلہاڑا مارتے ہوئے پاکستان کی خدمت کردی ہے، جو کہ کراچی کی خوف کے سائے سے آزادی ہے ۔ اگر اُس کی تقریروں پر پابندی برقراررہی تو اسے ماضی کاحصہ سمجھیں۔ بہت شافی جراحت ہوگئی ہے ۔


.
تازہ ترین