• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کی لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتی صورتحال واقعی چونکا دینے والی ہے خاموشیوں کے اند ر طوفان ہیں اور طوفانوں کے اندر موت کا سکوت ملاحظہ کیا جا سکتا ہے گزشتہ دو تین دہائیوں پر محیط اس جوار بھاٹا میں تازہ تلاطم 22اگست کو اس وقت آیا جب لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے بانی رہنما الطاف حسین نے کراچی میں تحریک کے بھوک ہڑتالی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے ریاست پاکستان کے خلاف وہ کچھ کہہ دیا جسے کوئی بھی محب وطن پاکستانی برداشت نہیں کرسکتا اس پر رد عمل ہونا تھا سو ہوا ہم سب کا گمان تھا کہ الطاف حسین حسبِ عادت اس پر معافی مانگ لیں گے سو انہوں نے مانگ بھی لی لیکن سوال پیدا ہوا کہ اتنی بڑی حماقت کو کیا قوم معاف کر بھی سکتی ہے یا نہیں ؟ معافی کی اگر کوئی صورت ہو سکتی تھی تو محض اتنی کہ آئندہ سے ایسی نیچ حرکت کا اعادہ نہیں ہو گا نیز انہیں پارٹی میں اپنی موجودہ حیثیت سے فوری دستبردار ہونا پڑے گا کیا وہ اس کیلئے تیا ر ہو سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں جو لوگ اُن کی نیچر کو جانتے ہیں انہیں اس حوالے سے کسی ثبوت کی ضرورت ہے نہ کوئی اشتباہ۔ آج وقت نے الطاف بھائی کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ان کے پاس اس نوع کے بہت سے آپشن ختم ہو چکے ہیں کراچی کے بے تاج بادشاہ یا ان داتا کی جو حیثیت انہیں برسوں سے حاصل تھی اب وہ ان سے چھن چکی ہے اب وہ کراچی کے ایک متنازع لیڈر کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے اس سب کے باوجود اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کراچی میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں مہاجرین ایسے موجود ہیں جن کے دلوں سے الطاف حسین کی تصویر فی الحال کھرچی نہ جاسکے گی کراچی کے امن کو یہی چیز تہہ و بالا کیے رکھے گی۔
اپنی انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ہمارا مشورہ ہے کہ کوئی بھی بڑا اقدام کرنے سے پہلے اردو بولنے والے عام مہاجروں کو بالفعل یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ آپ لوگ تنہا یا لاوارث نہیں ہیں حکومت آپ کی ہے اور آپ کیلئے ہے الطاف حسین نے سوائے جھوٹے وعدوں یا دکھوں کے آپ کو کچھ نہیں دیا جبکہ ہم آپ کے آنسو پونچھنے اور مسکراہٹیں بانٹنے آئے ہیں کراچی کو روایتی طور پر روشنیوں کا شہر ہی نہیں بنا رہے بلکہ آپ کے مسائل اور محرومیوں کو حل بھی کر رہے ہیں اور لولی پاپ کی بجائے انہیں ایسے ہوتا ہوا نظر بھی آئے اگر لاہور ترقی کرتا ہوا دکھائی دے سکتا ہے تو کراچی کیوں نہیں جو وطن عزیز کیامعاشی حب ہے ۔
خود الطاف حسین کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اگر انہوں نے خوف ، دہشت، جبر اور اپنی ذاتی ڈکٹیٹرشپ کو مزید جاری رکھنے پر اصرار کیا تو بیچارے کراچی کے ساتھ جو ہو گی سو ہو گی خود ان کے اپنے ہاتھ بھی کچھ نہیں رہے گا ۔ اس وقت بہت سے لوگ جو خواستہ یا بادلِ نخواستہ آپ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں موقع پاتے ہی آپ پر تین حروف بھیجنے میں دیر نہیں لگائیں گے ۔
ان دنوں کراچی میں ایم کیو ایم کی جو شخصیت خبروں میں نمایاں تر ہے وہ ڈاکٹر فاروق ستار ہیں ان کے کاندھوں پر بلاشبہ بھاری ذمہ داریاں ہیں اور وہ یقینا دو طرفہ الجھنوں کا شکار ہیں اُن پر ایک طرف اگر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے کہ کھلے بندوں مائنس الطاف متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے بلاچو ں و چرا ںوہ سب کچھ کریں جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے اور اردو بولنے والے ایم کیو ایم کے حماتیوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑ کر رکھیں۔جبکہ دوسری طرف لندن سے ہر صبح اُن کی جو درگت بنتی ہے ہر شام اُس کی شدت و حدت بڑھ جاتی ہے نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والی صورتحال ہے اس پر ایم کیو ایم کے کارکنان و وابستگان کی مختلف النوع آوازیں دن بھر ان کا پیچھا کرتی ہیں اس مخلص اور معصوم انسان کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی جس کے سامنے ایک طرف اگر تخت بچھا ہے تو دوسری طرف تختہ بھی دکھائی دے رہا ہے ہماری دعائیں فاروق ستار بھائی کے ساتھ ہیں خدا انہیں اس بھاری آزمائش میں کامیاب و سرخرو کرے اُن کے سامنے اصل چیلنج آنے والے دنوں میں یہی رہے گا کہ وہ اپنے اردو بولنے والے مہاجر بھائیوں کا اعتماد کس حد تک حاصل کر پاتے ہیں متحدہ کو کیسے متحدرکھ پاتے ہیں حالات یہ چغلی کھا رہے ہیں کہ ان کے خلاف جلد الٹی سیدھی آوازیں اٹھنے والی ہیں یوں وہ الطاف بھائی کا بوجھ زیادہ دن اٹھا نہیں پائیں گے وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سبک سر ہو کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ ہنوز کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم چھائی ہوئی ہے اور ایم کیوایم نام ہے الطاف حسین کا اور مملکت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں ایم کیو ایم تو قبول ہے مگر مائنس الطاف حسین کے ساتھ ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بانی تحریک مائنس کیسے ہوتے ہیں ؟


.
تازہ ترین