• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پھر صدمہ ہوا، حیدرآباد جانا پڑا، اسے دیکھ کر دکھ ہوا۔ سندھ کا دوسرا بڑا شہر، کبھی کہتے تھے سندھ کا پیرس ہے۔ آج یوں لگتا ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ یا تو یہاںخاک اڑتی ہے، یا سڑکیں ،گلیاں گندے پانی سے بھری ہوئی ہیں، اور یہ سڑکیں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں، ادھڑی ہوئی ہیں۔ کبھی بہت اچھے باغ تھے، اب ان کی جگہ خاک اڑاتے میدان ہیں، جس کو موقع ملا اس نے قبضہ کر لیا۔ ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلتے تو سامنے ہی میر باغ تھا، ہرا بھرا۔ پانی اچھالتے فوارے، ارد گرد سیمنٹ کی بنچیں۔ بڑے بڑے پتوں والے بڑ کے درخت، اور پہلی دفعہ یہاں انگور کی بیل دیکھی۔ بڑی محنت سے باغ کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ حیدرآباد کی سہانی شامیں، اور میر باغ، زندگی حسین تھی، اب ماضی کی طرف دیکھیں تو اور بھی حسین۔ پہلے میدان بنا ،اب وہاںخدمت خلق فائونڈیشن کا ایک اسپتال قائم ہے ۔ہریالی کے نام پہ ایک پودا بھی نظر نہیں آتا۔ یا پریم پارک، ٹھنڈی سڑک کے ایک سرے پر۔ کیا نام رکھا تھا رکھنے والوں نے، پریم پارک۔ ایک ہوٹل اندر تھی۔ شام وہاں بھی اچھی گزرتی تھی۔ پھر وہاں دکانیں بن گئیں۔ اور ادھر آفندی باغ تھا، جہاں ایک کنواں بھی تھا، صبح وہاں پیلو سے ایک شاخ توڑ کے مسواک کرتے، اور اگر موسم ہوتا تو پکے پکے پیلو بھی کھاتے۔ اب وہاں اس کا نام و نشان نہیں، کسی نے پلاٹ بنا کر بیچ دیئے ہیں۔ ذرا ہی دور مکھی باغ تھا۔ امتحانات کی تیاری کے لئے ماموں کے ساتھ درختوں کے سائے میں کورس کی کتابیں پڑھتے، سائے لمبے ہوتے جاتے، ہم بھی کھسکتے جاتے، پھر سورج ڈھلنے لگتا ، ہم گھر کی راہ لیتے۔ اب وہاں مکان بن گئے ہیں، کچے پکے، چھوٹے بڑے۔ جس کے ہاتھ لگا قبضہ کرلیا۔سارا باغ ان لوگوں نے تباہ کردیا۔ سارا شہر ہی ان لوگوں نے تباہ کردیا۔
کیا شہر تھا، عالم میں انتخاب کہیں تو بھی کوئی مبالغے کا الزام نہیں لگا سکتا۔ کیسے کیسے گوہرآبدار اس نے پیدا کئے، کتنے بڑے لوگ اس نے پروان چڑھائے۔ شہر کیا تھا، ایک ادارہ تھا۔ تعلیم کے میدان میں، شعر و ادب کے میدان میں، فنونِ لطیفہ کے شعبے میں، ہر شعبے میں۔ دردِ دل رکھنے والوں نے ااسکول اور کالج قائم کئے، نوجوانوں کو اچھی اور سستی تعلیم فراہم کی۔ایس کے رحیم ہائی ااسکول، سٹی کالج،کامرس کالج، اور بھی بہت سے۔ کچھ ہوٹل تھے جہاں ہر شام پڑھے لکھے شہری، دانشور، ادیب، شاعر جمع ہوتے تھے۔ یہ مکتب تھے جہاں نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بڑے لوگوں کی صحبت سے فیضیاب ہوتی۔ باہر سے آنے والوں کے لئے شہر اور شہریوں کے دامن ہمیشہ وا رہتے تھا۔ میٹرک سے پہلے رات دیر تک گھرسے باہر رہنا سخت منع تھا۔ جعفری انسٹیٹیوٹ سلطان ہوٹل کے قریب ہی تھا، کلاسیں ختم ہونے کے بعد تھوڑی بہت دیر وہاں جایا جا سکتا تھا۔ قدیر غوثی اور قاصد عزیز کی معیت میں وہاں جاتے، شروع شروع میں حیران ہو کر ان بڑے لوگوں کو دیکھتے، قابل اجمیری، حمایت علی شاعر، استاد اختر انصاری اکبر آبادی، محسن بھوپالی وہاں کے مستقل بیٹھنے والے تھے۔ ڈاکٹر کلیم الدین احمد اور کئی دوسرے لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔ محمد علی، ان کے بڑے بھائی ارشاد علی بھی ان محفلوں میں شریک رہتے تھے۔ فلموں اور ڈراموں کا شوق ارشاد کو زیادہ تھا، محمد علی ریڈیوپاکستان حیدرآباد سے پروگرام کیا کرتے تھے۔ قسمت انہیں زیڈ اے بخاری اور پھر فضل احمد کریم فضلی کے پاس لے گئی، وہ اسٹار بن گئے، ان میں صلاحیت تھی، بہت مقبول فلمی ہیرو رہے۔ محمد علی کا انتقال ہوگیا۔ انہیں سلطان ہوٹل کے برے دن نہیں دیکھنے پڑے۔
قاصد عزیز بہت اچھے شاعر تھے۔ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھے۔ کیاعجیب کام ان دنوں ہوتا تھا، لوگوں کے تلفظ ٹھیک کیا کرتے تھے۔ اب تو کوئی پوچھتا نہیں کہ حَکومت ختم ہوگئی، یا حُکومت چل رہی ہے۔ بعد میں پروڈیوسر ہو گئے۔ ایم اے بھی کیا۔ اردو پر انہیں اتنا عبور تھا کہ سب ہی لوگ ان سے رجوع کرتے اور انہیں حرفِ آخر سمجھتے، جو وہ تھے بھی۔ حمایت علی شاعر سے ان کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ رات دیر گئے بھی ا نہیں چھوڑنے ان کے ساتھ لطیف آباد نمبر سات میں ان کے گھر تک جاتے۔ جاتے تانگے میں اور اکثر پیدل واپس آتے۔ یہ ایک معمول تھا، جس میں کم ہی خلل پڑتا۔ لوگوں کا خیال رکھنا ان کی عادت ِثانیہ تھی۔ طاہر رضوی کے لئے سگریٹ کے کئی پیکٹ خریدتے اور جہاں کہیں بھی ہوتے انہیں پہنچاتے۔ خود سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ قدیر غوثی نے اسی زمانے میں افسانے لکھنے شروع کئے تھے۔ ان ادیب اور شاعروں کی صحبت کا فیض تھا کہ اب تک افسانے لکھ رہے ہیں، اور ادبی رسالوں میں چھپ بھی رہے ہیں۔ ایک مجموعہ بھی ان کا شائع ہو چکا ہے۔ دوسرے کی تیاری ہے۔ سلطان ہوٹل کے زمانے سے لے کر، اورینٹ ہوٹل اور پھر بہت بعد میں اپنی حالیہ بیماری سے ذرا پہلے ، کیفے فردوس تک، وہی میزبان ہوتے تھے، ہمیشہ۔ ان دنوں زیادہ تر گھر پر رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا، ان کے والد ایک دواخانے کے شریک تھے، بعد میں انہوں نے اپنا دواخانہ الگ کرلیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد قدیر غوثی ایک حکیم کے ساتھ کام کرنے لگے۔ پیدل ایک طویل فاصلہ طے کر کے حکیم صاحب کے مطب جاتے، دن میں دو مرتبہ۔ اور شام کو نہا دھو کر فردوس ہوٹل آجاتے، جہاں ایک ایک کرکے ان کے ساتھی جمع ہوتے جاتے۔ چائے آتی، بات چیت ہوتی رہتی، ادب، شاعری اور لازمی جز، سیاست۔ ہم کراچی سے جاتے تو ہماری رات کا بیشتر حصہ ان ہی کے ساتھ بسر ہوتا۔ ان کے ساتھیوں میں سب ہی ہوتے، ادیب بھی، شاعر بھی ، اور دوسرے بھی۔ ایک دوست امین قریشی کو کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا، وہ ہر ماہ درجنوں کتابیں خریدتے۔قاصد عزیز اور قدیر غوثی رشتہ میں میرے چچا لگتے ہیں۔ قدیر کے ساتھ تعلق بہت دیرینہ ہے۔ بچپن سے ہی ان کے گھر آنا جانا بہت رہا۔ رشتے داری کے علاوہ ایک اور وجہ بھی تھی۔ ان کے والد، جنہیں ہم سب، ابّا سمیت، غفور چچا کہا کرتے تھے، پڑھنے کے بہت شوقین تھے۔ ان کے گھر اُس زمانے میں، ہندوستان سے ماہنامہ آستانہ، بیسویں صدی، اور پاکستان کے تقریباً سارے ہی چھوٹے بڑے رسالہ آتے تھے۔ بچوں کی کتابیں بھی بہت۔ جب بھی نیا سیٹ آتا، بس اسی کے ہو رہتے۔ گھر والوں کو بھی پتہ ہوتا کہاں ہیں۔جب تک ساری کتابیں ختم نہ ہو جاتیں، گھر واپسی نہیں ہوتی تھی۔ قدیر کی اب تک یہی عادت ہے۔ اچھی کتاب ان کے ہاتھ لگی تو تذکرہ تو ہوگا ہی، کتاب پڑھنے کو بھی دینگے ، واپس کم ہی مانگتے ہیں۔
یہ جو کچھ لکھا جا رہا ہے، یادیں کم ہیں، دکھ زیادہ ہے۔ شہر کو دیکھا تو ٹیس اٹھی، یادوں نے ہجوم کرلیا۔ اسی شہر میںپہلی بار پاک و ہند مشاعرے سنے۔ مرزا عابدعباس ان مشاعروں کے روحِ رواں تھے۔ اطہر عباس، ظفر عباس، مظہر عباس اور اظہر عباس ان ہی کے بیٹے ہیں۔ مرزا صاحب یہ مشاعرے گورنمنٹ ہائی اسکول کے میدان میں کرواتے تھے، ہر سال تقریباً۔ سارے بڑے شاعر شریک ہوتے، کون تھا جو نہیں آتا تھا۔ فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، ماہرالقادری، جگرمرادآبادی، اور ہندوستا ن پاکستان کے تقریباً سارے ہی نامی گرامی شعراء شریک ہوتے۔ ہر سال اسکول کا میدان سجتا۔ خوب رونق رہتی، بہت ہجوم ہوتا، لگتا تھا سارا شہر ہی امڈ آتا تھا۔ داخلہ کارڈ کے ذریعہ، وہ کہاں آسانی سے ملتے۔ مشاعرہ مگر کبھی چھوڑا نہیں۔ اب اس اسکول کے آس پاس دکانیں بنا دی گئی ہیں۔ اور یہ دکانیں اس پابندی کے باوجود بنی ہیں کہ تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں دکانیں نہیں بنائی جا سکتیں۔ میدان کے نام پہ اب وہاں ، اس اسکول میں، کچھ نہیں بچا۔ پاک و ہند مشاعرہ تو کجا، اب تو وہاں ایک شعری نشست بھی شاید نہیں ہو سکتی۔ یوں بھی اب شعر و شاعری سے کس کو رغبت ہے۔ لوٹ مار کا ایک سلسہ جاری ہے، اسی میں مال ہے اور اسی مال میں عزّت۔
تازہ ترین