• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں نئے صوبے کا مطالبہ پرانے سندھیوں کیلئے ایسا ہے جیسےکسی ماں کیلئے اسکے بچے کو دو لخت کرنے کی دھمکی۔ لیکن اسکے باوجود اس مطالبے کی باز گشت رہ رہ کربرسوں اور عشروں سے سنی جاتی رہی ہے اور اب سندھ کو اپنی ماں کہنے کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایک بار پھر ایسی مانگ دہراکر سندھ کے خاموش پانیوں میں ایک سونامی کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ مانا کہ نئے سندھیوں ( یا اردو بولنے والے سندھیوں) کیساتھ زیادتیوں اور نا انصافیوں کے سلسلے اور تاریخ اپنی جگہ لیکن ان کی تلافی کیلئے ان کے پہلے سے ہی نازک آشیانے کو کاٹ دینا یا تقسیم در تقسیم انہیں مزید نسل در نسل ابتلائوں میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ صوبہ تو سندھیوں کی طرح اردو بولنے والےسندھیوں کے پیروں تلے ایک دھرتی کی صورت میں گزشتہ اڑسٹھ برسوں سے ہے جس کی مٹی سے سندھیوں کی طرح ان کا جینا مرنا بھی ہے۔ پھر اس کے باوجود اب تک نہ غریب و نادار پرانے سندھیوں کی زندگیوں میں کوئی خوشحالی و ترقی لاسکا ہے تو نئے سندھیوں کی زندگی میں کون سی تبدیلی لا سکے گا۔ اصل چيز نظام کی تبدیلی اور اسٹیٹس کو سے جان چھڑانے کی ہے۔ جس کے ذریعے گزشتہ اڑسٹھ سال سے سندھ کا سندھی ہوکہ اردو بولنے والا سندھی یا کوئی اورکمیونٹی نیم غلامی اور نو آبادیات کی سی زندگیاں گزاررہے ہیں۔ کبھی وڈیرے اور مڈل کلاس سیاسی گینگسٹر ان پرسندھیت کے نام پر راج کرتے ہیں، تو کبھی شہری وڈیرے اور ہتھیار بند ٹولے مہاجریت کے نام پر، تو کبھی ملا اور جنرل اسلام ، پاکستان کے نام پر تو کبھی سول ڈکٹیٹر نوسر باز سیاستدان جمہوریت اور سوشلزم کے نام پر۔ اور پھر اسی اسٹیٹس کو اور نظام کہنہ کو بچانے کے واسطے سندھیوں اور اردو بولنے والے سندھیوں کو لڑایا جاتارہا ہے کہ ان کے درمیان ہونے والی خونریزیاں شاید جنوبی ایشیا میں نسلی قتل غارتگری کے حوالوں سے سابقہ مشرقی یورپ اور روس کے بعد سب سے بڑی خونریزیاں کہلائیں، پھر بھی تاریخ کا معجزہ یہ ہے کہ پانچ ہزار سالہ سندھ نہ تقسیم ہوسکا نہ تابع۔ بالکل اس طرح جس طرح سب سے بڑے سندھی شاعر شیخ ایاز نے کہا تھا:آئے گئے سکندر سہون مگر وہیں ہے۔کئی ساسانی، تورانی، یونانی ، عرب، مغل، ترخان، انگریز، دیسی آقا آئے لیکن سندھ اور سندھ کے لوگ وہیں اسی جگہ ہیں۔ اس مٹی اور سندھو کے پانی میں شاید ہی ایسی تاثیر ہے۔ جیسے شمال پاکستان کے لوگ کراچی کیلئے کہتے ہیں کہ اس کے سمندر کے پانی میں شاید کچھ ایسی چيز ہے جو ایک دفعہ وہاں جاتا ہے اس کا ہو کررہ جاتا ہے۔
میں پہلے ہی اپنے گزشتہ کالم میں عرض کر چکا کہ سندھی اپنے صوبے کو ایک انتظامی وفاقی یونٹ سے زیادہ مادر وطن کا درجہ دیتے ہیں۔ نیز انگریزوں کے چارلس نیپئر کے ہاتھوں فتح ہونے سے قبل سندھ ایک علیحدہ ملک کی سی حیثیت رکھتا تھا (سندھ کو میں مونث کہتا ہوں) جسے انگریز حکمرانوں نے انتظامی طرح بمبئی صوبے میں شامل کرلیا تھا۔ سندھی بزرگ سیاستدانوں نے جسے پھر سے ایک آزاد خودمختار صوبہ تسلیم کروانے اور بمبئی کے تسلط سے آزاد کروانے کے لئے نصف صدی تک حیرت انگيز طور پر بمبئی لیجسلیٹو اسمبلی کے اندر چاہے بمبئی ایل اے کے باہر مسلسل جدجہد کی۔ آخر کار انیس سو پینتیس۔ چھتیس میں سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت دلوائی۔ سندھ کی بمبئی سے آزادی کی جدوجہد میں سرشاہنواز بھٹو، محمد ایوب کھوڑو، رئيس غلام محمد بھرگڑی، شیخ عبد المجید سندھی کے نام ہمیشہ سنہری حروف میں آئیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ کھوڑو صاحب کے ون یونٹ میں کردار کے حوالے سے سندھ کی تاریخ میں ولن کی حیثیت سے نام آتا رہے گا۔
وگرنہ یہ کھوڑو تھے جو سندھ کے ایک سخت گیر چیف منسٹر کی حیثیت سے تقسیم کے وقت سندھ کے قدیم باشندوں کی جانوں اور املاک پر حملوں کے دوران خود ہاتھ میں پستول لئے نکل پڑے تھے اور پھر کراچی کی سندھ سے وفاقی انتظامیہ میں دینے کے خلاف اپنی نہ فقط اپنی وزارت اعلی قربان کی پرایک عرصے تک عتاب کا بھی شکار رہے تھے۔ پھر اسی کھوڑو سے پاکستان کے اصلی تے وڈے چوہدریوں نے سندھ پر ون یونٹ کا لعنتی نظام مسلط کرنے کا کام لے کر تاریخ میں اکثر سندھیوں کی نظر میں ہمیشہ مطعون و ملعون ٹھہرادیا۔اس پر مجھے کئی سیاسی منچلوں کی مذاق میں کہی بات یاد آتی ہے کہ سندھ کی آزادی کے دفاع کی جنگ محض چھ گھنٹے (فروری انیس سو بیالیس میں سندھ پر انگریزوں کے حملے خلاف تالپوروں کی فوج کی مزاحمت) اور سندھ کی سیاسی مزاحمت محض تین دن (بے نظیر بھٹو کے قتل کے خلاف) چلی تھی۔ لیکن تالپوروں کی فوج کے جنرل ہوش محمد شیدی کا میدان جنگ میں بلند کیا ہوا نعرہ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ (مرجائیں گے سندھ نہ دیں گے) تاریخ کے کارزار میں آج تک زندہ ہے جسے اب ٹوئٹوں کے بادشاہ بلاول بھٹو اپنے اباّ کا سیاسی الو سیدھے کرنے کو بلند کرتے رہتے ہیں یا ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں۔ ون یونٹ کے خلاف سندھی دانشور، طلبہ، سیاسی کارکن اور عام متوسط طبقہ یا عام لوگ ایک طویل جدوجہد میں رہے اور اسے تڑوا کرہی دم لیا۔ لیکن یہ عجیب افسوسناک بات ہے کہ نئے سندھیوں نے سوائے درجن بھر لوگوں کو چھوڑ کر اسلام آباد یا مرکزی حکومت سے ہی اپنے اتحاد میں اپنی عافیت سمجھی۔نئےاور پرانے سندھیوں کو لڑانے کیلئے کیا کیا نہ جتن اور سازشیں کی گئیں، دونوں طرف ان کے جھوٹے ہمدرد اور ان کے حقوق کے چیمپئن پیدا کئے گئے۔ میانی کے میدان میں انگریزوں کے ہاتھوں بہادری سے لڑنے والے ہوش محمد شیدی کی قبر کو سندھ کے ایک بیوروکریٹ اور نام نہاد سندھی نواز نے اسے پکے قلعے کے اندر گنوایا تاکہ دو آبادیوں کے بیچ تنائو برقراررہے۔ ہوشو کی قبر کا سنگ لحد پکے قلعے میں راتوں رات نصب کروادیا گیا۔ جلوس اور لانگ مارچ نکلوائے گئے۔ دوسری طرف کراچی صوبہ تحریک یا اردو پردیش کے نعرے بھی رکھ رکھ کر بلند ہوتے رہے۔ کبھی اس کے چیمپئن شپ کا قرعہ امیر حیدر کاظمی کے نام نکلا تو کبھی کسی اور کے نام۔ کبھی سندھی زبان کا بل بے وقت کی راگنی کے طور پر بھٹو کے اقتدار کو دوام دینے کو پیش کیا گیا تو کبھی ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ جیسی نظموں سے سندھ میں آگ لگا دی گئی اور اس سے دس سر والے سندھ کے وڈیرے حکمران نئی سندھی قوم پرستی لے کر میدان میں اترے۔ اب وہ دس سروں والے وڈیرے کہاں کھڑے ہیں! پی ایم ایل این میں۔ وہ بھی جو کبھی بڑے سندھو دیشی بنتے تھے۔اب یہ کھلا راز ہے کہ بھٹو نے اگر سندھی- اردو جھگڑوں سے اپنی حکمرانی کے پانچ سال نکالے تو ضیاء الحق نے اپنی آمریت کے گیارہ سال۔ باقی سب تاریخ ہے۔
لیکن اس تنائو سے سندھی اور اردو بولنے والوں کی نسلیں تباہ ہوگئيں۔ جنازے اٹھے۔ یہاں تک کہ اسپتال اور قبرستان تک تقسیم ہوئے۔ محرم اور مجلسیں بھی۔ اب تقسیم کو رہ کیا گیا ہے! شادیاں ٹوٹیں طلاقیں بھی ہوئيں۔ ہتھیاروں کی اور لینڈ مافیائیں خوشحال ہوئيں نئی دولت مند ترین سیاسی مافیائیں وجود میں آئیں۔ جائیں جاکر جائزہ لیں کہ سندھ میں لسانی فسادوں سے پہلے ان لیڈروں کے پاس کیا تھا اور اب کیا کیا املاک اور بنک بیلنس ہیں۔ ’’اب میں وہ گھڑی باندھتا ہوں جو نواز شریف باندھتا ہے اب وہ چشمہ پہنتا ہوں جو آصف زراری پہنتا ہے‘‘ کسی قوم پرست سندھی لیڈر نے اپنے بچپن کے دوست سے کہا۔
کوئی ہوسڑی کے گائوں میں رہنے والے شبراتی سے پوچھے کہ محراب پور کے رمضانی سے کہ جھمپیر کی علی کالونی کے شبر رضوی سے کہ ایک رات گھر سے دور کراچی میں اسے کیسے لگتی ہے! ہوسڑی کی ہوائيں، محراب پور اور جھڈو کی راتیں اور جھمپیر کی شامیں کیا ہیں۔ کیا یہ اب سب تقسیم ہوسکتا ہے۔ کیا اب اس عمر میں اور ہجرتیں ہوسکتی ہیں، کیا ایک قاسم آباد کافی نہیں۔ سندھیوں کا حال تو حضرت علیؓ کے پاس اس عورت جیسا ہے جو بچے کی حقیقی ماں تھی۔ لیکن پھر وہی بات کہ سندھ کی تقسیم کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی سوائے سندھیوں اور اردو بولنے والے سندھیوں کے آپس میں اتحاد اور بھائی اور بہن چارے کے۔
تازہ ترین