• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیصلہ ایک ہفتہ میں ہونا تھا۔ سو جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ ویسا ہی ہوا۔ گزشتہ دنوں جب دھرنوں کے حوالہ سے مرکزی سرکار غور و فکر کر رہی تھی دوسری طرف کپتان سول نافرمانی کا بھاشن دے چکے تھے اس وقت کابینہ کا اجلاس ہوا۔ ایجنڈے سے ہٹ کر وزیروں اور مشیروں نے شور مچایا کہ بجلی کے بلوں نے عوام کا ناطقہ بند کر دیا ہے عوام بددل اور پریشان ہیں اس وقت صرف عوام ہی نہیں خواص بھی پریشان تھے اوپر سے سرکار کی مشینری عوام کی بے بسی پر سرد مہری کا اظہار کر رہی تھی کہ بجلی کے بلوں میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا ہے اور سب کا یہی کہنا تھا کہ بجلی آتی نہیں بل آ جاتا ہے۔ اوپر سے موسم اور سرکار کا مزاج بدلتا نظر نہیں آتا۔ ایسے میں یہ جعلی خود ساختہ بجلی کے بل بے چارے عوام اپنے بجٹ میں کیسے فٹ کریں اور اب خبروں میں یہ بات بھی آ چکی ہے کہ بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیاں اصول اور قوائد کو نظر انداز کر کے من مانی کر رہی ہیں پھر وہ اس بجلی بھتہ کی وصولی کے لئے سرکار کو بھی استعمال کر رہی ہیں گزشتہ دنوں جب کابینہ میں یہ معاملہ اٹھایا گیا تو اندازہ ہوا کہ وزیراعظم کو ایسے عوامی مسائل کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔جبکہ بجلی کے بلوں کا مسئلہ میڈیا میں کافی عرصہ سے زیر بحث ہے۔ بجلی کے ٹیرف پر بڑے وزیر صاحب اور چھوٹے وزیر صاحب کبھی بھی نہیں بولے صرف اس بات پر زور تھا کہ بجلی چوری پر کنٹرول کر رہے ہیں جب کابینہ نے وزیراعظم سے اس معاملہ پر رہنمائی چاہی تو وزیراعظم نواز شریف نے کمال مہربانی سے فوری طور پر ایک کمیٹی بنا دی اور درخواست کی کہ کمیٹی ایک ہفتہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل تفصیلات اور صورتحال سے آگاہ کرے کہ بجلی کے بلوں میں گھپلا کب سے ہو رہا ہے یا یہ صرف عوام کا رونا ہے اس سلسلہ میں داد رسائی تو دور کی بات لگتی ہے اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دھرنوں سے عوام اتنے متاثر اور پریشان نہیں۔ مگر سرکار کے زیر سایہ کام کرنے والی خود پسند سرکاری افسر شاہی کا قصور زیادہ ہے یہ ان کا کام تھا کہ ایسے معاملات پر سرکار کے مفاد میں معاملہ فہمی کرتے اور شکایات کرنے والے لوگوں کی داد رسائی کی جاتی۔ ان کے خیال میں یہ لوگ کپتان کے دھرنے اور بھاشن سے متاثر ہو کر رونا پیٹنا کر رہے ہیں۔ اس اعلیٰ نوکر شاہی کو اندازہ نہیں کہ بجلی کا بل نہ دینے کی صورت میں بجلی یک جنبش قلم کاٹی جا سکتی ہے اور عدالت بھی ان کی مدد نہیں کر سکتی۔
کاش ہماری جمہوری سرکار عوام کے مصائب کا احساس کر سکتی کہ وہ کس مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اب بھی لوگ آس اور امید لگا کر بیٹھے ہیں کہ ہماری معصوم سرکار اور وزیراعظم صاحب بہادر بجلی کے بلوں پر عوام کو شاد کرنے کے لئے انصاف کریں گے اور قانون پر عملدرآمد ہو گا۔ دوسری طرف ہمارے وزیر خزانہ کے حالیہ دنوں میں بھی سکھ کا سپنا نہیں دکھاتے ان کو ایک دفعہ پھر ڈالر کی فکر لگ گئی ہے۔ ڈالر ہمارے مہربان اور قدر دان امریکہ کا ہے اور پریشانی ہمارے قابل فکر وزیر خزانہ کو ہے اب تو امریکہ بھی ہمارے بے بس عوام کی خبر نہیں رکھتا۔ وہ سارے معاملات اشرافیہ سے وزیراعظم اور اعلیٰ عسکری حلقوں سے اپنے سفیر کے ذریعے طے کرتا رہتا ہے۔ اس کو تو اپنے ڈالر اور اپنی عالمی حیثیت کی فکر لگی ہے۔ تو وزیر خزانہ ایسا کیوں نہیں سوچتے! پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ایک مدت کے بعد منعقد ہوا جس کا خرچہ عوام کے ٹیکسوں سے پورا کیا جائے گا وہ اتنے دن سے موج میلا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی اپنی بولیاں بول کر اپنا معاوضہ حلال کرتے نظر آتے تھے۔ اتنے خرچے کے باوجود وہ عوام کو کوئی اچھی خبر نہیں دے سکے۔ عوامی مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان کے آپس کے جھگڑے اور فساد ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہے جب کسی سیاسی اور سماجی جنگ میں طوالت آ جائے اور کوئی بھی فریق کسی بھی فیصلہ پر متفق نہ ہوں تو ایسے میں حکمت عملی بدل کر معاملہ فہمی کی جاتی ہے۔ ہماری مشترکہ اسمبلی حکمت عملی کے نتیجہ میں تقسیم ہوتی نظر آئی ہے۔ معاملہ دھرنوں سے شروع ہوا پھر جرگوں کے ذریعہ بات چیت کا آغاز ہوا۔ مگر عوام کو کوئی اچھی خبر کسی بھی فریق کی طرف سے نہیں ملی۔ اسمبلی میں اپنے پرانے سب اکٹھے ہو گئے۔ یار لوگو عوام کے مفاد میں کوئی اچھی قانون سازی کر لو۔ احتساب کے لئے کوئی نیا قانون ہی بنا لو۔ نچلی عدالتوں کے لئے اصول ہی طے کر لو۔ عوام کے حق اور اصول کو ہی طے کر لو۔ ٹیکسوں کے لئے عوام کو بھروسے میں لے لو۔ مگر وہ تو یہ بھی نہیں طے کر سکے کہ دھاندلی کی تعریف کیا ہے۔ الزام تراشی کی سزا کیا ہے۔ جھوٹ بولنے پر قانون کیسے لاگو ہو سکتا ہے۔ جو لوگ سرکار کا پیسہ ہضم کر چکے ہیں ان کے خلاف کارروائی ممکن بنائی جا سکے۔ کیونکہ یہ سب شرافیہ کی مرضی سے طے ہوسکتے تھے اس لئے ان پر توجہ ہی نہ کی گئی اور تو اور ایمپائر کا بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کونسا نامعلوم ایمپائر ہے جو اس سیاسی کھیل کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بجلی کے بل والا معاملہ اتنی آسانی سے حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہماری نوکر شاہی کوئی نہ کوئی ایسی دلیل لے آئے گی کہ جناب جو لوگ یا ادارے ہم کو قرض دے رہے ہیں ان کے مفاد میں ایسے فیصلے کرنے ضروری ہیں جن کے نتیجہ میں بلوں میں جعل سازی کی گئی اور عوام کی جیب کو کاٹنے کا پروگرام بنایا گیا۔ اب سرکاری جیب تراش کو تو پکڑ نہیں سکتے اور نہ سزا دے سکتے ہیں اور نہ ہی وہ رقم واپس لے سکتے ہیں جو عوام سے جعل سازی کے ذریعے وصول کی جا چکی ہے۔ خیر یہ معاملہ ہمارے وزیراعظم کے زیر غور ہے شاید عوام کی قسمت بدل جائے اور عوام کی سنی جائے۔ بجلی کے بلوں پر کارروائی کر کے دھرنے والوں کو کسی حد تک پسپا کیا جا سکتا ہے۔
ادھر مشترکہ اسمبلی کا اجلاس صبر اور شکر کرتے ہوئے ختم ہوا۔ ایک نیا موضوع شروع ہو گیا ہے وہ ہے مزید صوبوں کی تلاش اور تعمیر نو ۔ بھائی الطاف حسین عرصہ دراز سے امور حکومت کے لئے کارکردگی کے تناظر میں انتظامی یونٹوں کی تشکیل کی بات کرتے رہے ہیں۔ پھر ہماری اسمبلیوں میں بھی صوبوں کے سلسلہ میں قرار دادیں موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی والے سندھ کے معاملہ پر یکسوئی رکھتے ہیں۔ ان کے نومولود لیڈر نے حالیہ دنوں میں سوشل نیٹ ورک پر ایک دعویٰ داغ دیا کہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر سندھ کی تقسیم منظور نہیں۔ نوجوان کا خیال اور سوچ تو اچھی نظر آتی ہے۔ مگر اب دنیا میں جینے اور رہنے کے لئے تقسیم اور ریفرنڈم کا فارمولہ چل رہا ہے۔ اس کے بغیر کسی کا گزارا بھی نہیں ہے۔ اس وقت ملک کی بیشتر آبادی والا علاقہ سیلاب کی زد میں ہے۔ جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے وہ زیادہ تر عام اور حقیر لوگوں کی جائے پناہ تھی۔ اس سیلاب سے ان کی زندگی میں انقلاب تو آنے سے رہا ہاں تبدیلی ضرور آ سکتی ہے اب سرکار کا کام ہے کہ ان کی زندگی آسان بنائی جا سکے۔ ان کے لئے حالیہ گیس، بجلی کے بلوں میں رعایت دی جائے۔ اب وی آئی پی لوگوں پر عوام خاصی توجہ دے رہے ہیں ایک غریب سابقہ وزیر پر تو جنتا نے کمال ہی کر دیا یہ عام جنتا نہیں تھی۔ یہ ہوائی مسافر تھے جو بے ضابطگی پر بگڑ گئے۔ وزیر موصوف اور رکن اسمبلی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ایسا اس لئے ہوا کہ یہ تمام لوگ صاحب حیثیت بھی تھے اگر بے چارے تارکین وطن مسافر ہوتے تو حسب دستور خوار ہی رہتے۔ خیر یہ ملک اب زیادہ عرصہ وی آئی پی نہیں چلا سکتے۔ دھرنے والوں کے چلن ایسے نہیں کہ وہ اس میچ کو اپنے مطابق کھیل سکیں۔ اگر ان کا ایمپائر ان کے ساتھ سنجیدہ ہوا تو دھرنا چلتا رہے گا۔ وزیراعظم صاحب امریکہ سے دھرنے والوں کے لئے سفارش لا سکتے ہیں اس کا انتظار ہے خشک پتے ہیں کہ جھڑتے ہی نہیں شاخوں سے…
تازہ ترین