• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائد تحریک ناقابل ِ اصلاح ہیں۔ ان کی نہایت بری عادت ہے کہ وہ ہر اُس شخص کو برا بھلا کہنا اور دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں جواُن کی مخالفت کی جسارت کرتا ہے۔تاثر ہے کہ اُن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ سبھی چھوٹے بڑے ایم کیو ایم کے ڈیتھ اسکواڈز سے خائف ہیں۔ نہ میڈیا اُن کی حقیقت منظر ِعام پر لاسکتا ہے ، نہ کوئی گواہ اُن کے خلاف پیش ہوسکتا ہے ۔ ہولناک تشدد ہر کسی کو زبان بند رکھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ درحقیقت پارٹی کے اندر سے بھی کوئی اُن پر تنقید نہیں کرسکتا۔ چنانچہ الطاف حسین کو چیلنج کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
تاہم خوف کی یہ سلطنت اب بکھررہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب الطاف حسین نے خود ایم کیو ایم کو یقینی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ، اورملک بھی الطاف حسین کے خوف، بلیک میلنگ اور دہشت کے خلاف اس سے زیادہ کبھی متحد نہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ ، جو جنرل ضیا، اسلم بیگ، مشرف اور کیانی کے دور میں ایم کیو ایم کا ساتھ دیتی رہی، نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں گہرے خواب سے بیدار ہوکراُس خطرے کا احساس کیا جس کا الطاف حسین کی صورت ریاست اور معاشرے کو سامنا ہے ۔ چنانچہ اس نے اس خطرے کو چیلنج کرتے ہوئے اس پر بہت کڑا ہاتھ ڈالا۔
سابق آرمی چیف، جنرل آصف نواز پہلے افسر تھے جنھوں نے 1991-92 میں ایم کیو ایم پر ضرب لگائی۔ آپریشن کی شدت سے بچنے کے لئے الطاف حسین فرار ہوکر برطانیہ میں چلے گئے ۔ اس کے بعد 1994 میں بے نظیر بھٹو نے جنرل نصیر اﷲ بابر کی قیادت میں رینجرز کو ایم کیوایم کے خلاف متحرک کیاکیونکہ محترمہ الطاف حسین کی بلیک میلنگ اور ہلاکت خیزی سے تنگ آچکی تھیں۔ نواز شریف صاحب نے الطاف حسین کے ساتھ چلنے کی کوشش کی لیکن بہت جلد پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ۔ تاہم یہ جنرل مشرف تھے جنھوں نے سابق فوجی افسروں کے کئے ہوئے تمام کام پر پانی پھیر دیااور اپنی طالع آزمائی کو سہارا دینے کے لئے الطاف حسین کے ہاتھ سیاسی طور پر مضبوط کئے۔ یہ وہ دور تھا جب الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مشرف دور سے بھرپور فائدہ اٹھایا اورطاقت کے بے دریغ استعمال سے کراچی اور حیدر آباد میں اپنی جڑیں انتہائی مضبوط کرلیں۔ان علاقوں میں ان کا کوئی حریف باقی نہ رہا۔ ایم کیو ایم کی عسکری طاقت نے جلاوطن الطاف حسین کو لارڈ بنادیا۔ پاکستان اور دنیا میں کہیں بھی اُن کی مخالفت کرنے والے پر تشدد موت کا شکارہونے لگے ۔ سندھ کی پی پی پی اُن کی مسلح طاقت کے سامنے یرغمال بن گئی۔ ’’مشرق کاہیرا‘‘کراچی ملکی قانون سے باہرہوتاگیا۔ وہاں صرف سیکٹر کمانڈروں کا راج تھا۔
تاہم الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا زوال کچھ عرصہ پہلے آشکارہونا شروع ہوگیا۔ جس طرح 1993 میں عظیم طارق کے قتل نے الطاف حسین کو بلاشرکت ِ غیرے طاقت عطاکردی تھی،لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل نے اُن کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ برطانوی پولیس نے قتل ، منی لانڈرنگ اور پرتشدد کارروائیوں کی تحقیقات شروع کرکے پاکستان میں الطاف حسین کے ناقابل ِ شکست ہونے کے تصور کو زک پہنچائی۔ ادھر پاکستان میں صدر آصف علی زرداری کی ڈیل کرنے کی صلاحیت کے باوجود ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان کھینچا تانی جاری رہی۔ اس کے بعد نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی آمد الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ۔ اس دورمیں اس کی صفوں سے نکل کر اپنی راہیں الگ کرنے والوں کی لائن لگ گئی ۔ اس سے پہلے اس بات کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ مصطفی کمال فرار ہوکر دبئی چلے گئے ۔ اس کے بعد بہت سے دوسرے فرار ہوکر جنوبی افریقہ ، امریکہ یا پاکستان میں ہی کہیں روپوش ہونے لگے ۔ اہم ترین پیش رفت گورنر سندھ، عشرت العباد کا ایم کیو ایم سے تعلق توڑنا تھا۔پھر سید مصطفی کمال واپس آئے اور اپنی الگ پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا۔
یہ تمام پیش رفت بطور ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو زیادہ زک نہ پہنچا سکی، جیسا کہ وسیم اختر کے کراچی کے میئر بننے سے ظاہر ہے ، لیکن ایم کیو ایم کی خوف کی سیاست کے قلعے میں دراڑیں ضرور پڑنے لگیں۔ اس کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوکر الطاف حسین کے اعصاب چٹخ گئے اور اُنہوں نے سرخ لکیر عبور کرلی۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کو مجبور کردیا کہ وہ بھی اُن کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش کریں۔ اور موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ تو طالبان سمیت کسی بھی طاقت سے مرغوب ہونے کے لئے تیار نہیں۔
ابھی الطاف حسین کی ایم کیو ایم میںکوئی مائنس ون نہیں ہوا ، لیکن اس عمل کا آغاز ضرور ہوگیا ہے ۔ فاروق ستار دہائی دے رہے ہیں کہ الطاف حسین اُنہیں اور رابطہ کمیٹی کو اپنے طور پر کراچی میں پائوں رکھنے کا موقع دیں۔ وہ الطاف حسین سے درخواست کررہے ہیں کہ چپ رہیں کیونکہ اُن کے پاکستان مخالف اور راحیل شریف مخالف بیانات کی وجہ سے حالات بے حد خراب ہوچکے ہیں۔ چنانچہ عارضی پسپائی اختیار کرتے ہوئے الطاف حسین نے معذرت کرلی ہے ، جس طرح وہ ماضی میں بارہا کرچکے ہیں۔لیکن اُن کی معافی بے معنی ہے۔ وہ مشتعل اور بے چین ہیں، چنانچہ وہ بہت دیر تک اپنی طبیعت پر جبر نہیں کرپائیں گے ۔ وہ لندن یا کراچی میں طاقت کسی کے ہاتھ نہیں سونپیں گے، چاہے وہ لندن میں گرفتار ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ فاروق ستار کا ڈرامہ اُن کی ذاتی پریشانی کا اظہار ہے کیونکہ اُن کے باس نے اُنہیں سیاسی طور پر ایک مشکل صورت ِحال سے دوچار کردیا ہے ۔ فی الحال الطاف حسین کہیں نہیں گئے ہیں، لیکن اُن کی دہشت، خوف اور بلیک میلنگ کا دور ضرور اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان میں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے پختہ ارادہ کرلیا ہے کہ اب الطاف حسین یا ایم کیو ایم کو ریاست سے بڑاہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایم کیو ایم سیاست میں موجود رہے گی، اور اسے رہنا چاہئے، لیکن خوف و دہشت کی فضااب ضرور صاف ہوگی۔

.
تازہ ترین