• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عوام اور پاکستان کی تقدیر بدل دینے اور انقلاب لے آنے کے دعوے کرنے والے فسادیوں نے اِس وقت دارالحکومت کا گھیراؤ کیا جب چین کے صدر ژی جن پنگ پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کرنے کے لیے اسلام آباد آنے والے تھے۔ بجلی کے کارخانوں اور خنجراب سے گوادر تک اقتصادی راہداری کی تعمیر کے لیے دونوں دوست ممالک کے درمیان مذاکرات جاری تھے اور معاہدے طے پا گئے تھے اور اُن کا اعلان ہونا تھا ، مگر چینی صدر کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا اور وہ بھارت ، سری لنکا اور مالدیپ کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ کپتان اور علامہ صاحب نے اپنی ناعاقبت اندیشی اور اقتدار کی ہوس میں اپنے ملک سے جو کچھ کیا ، شاید کسی دشمن کو بھی ایسی واردات کا حوصلہ نہ ہوتا۔اِس خطے کی تقدیر بدل دینے کا جو موقع دستیاب تھا ، وہ اِس وقت ضائع ہو گیا ہے ، مگر ہمیں یقین ہے کہ حالات کے معمول پر آتے ہی چین پاکستان کے اندر اقتصادی انقلاب برپا کرنے کے لیے کوئی لمحہ ضائع اور ایشیا میں طاقت کا توازن قائم رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا۔ وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر حیرت انگیز برق رفتاری سے اُبھرتاجا رہا ہے اور اُسے معلوم ہے کہ اِس پورے خطے میں پاکستان کی کیا اسٹرٹیجک اہمیت ہے۔
چھ عشروں میں چینی صدر نے 17ستمبر سے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا اور اِس دوران اور اِس سے قبل چند ایسے واقعات رونما ہوئے جو گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتے ہیں ، کیونکہ اُن کا تعلق آنے والے زمانوں سے بھی ہے۔ یہ بات حیرت انگیز تھی کہ صدر ژی کا استقبال بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے بجائے گجرات ریاست کے دارالحکومت احمد آباد میں کیا گیا۔ یہ وہی ریاست ہے جس کے وزیراعلیٰ نریندر مودی تیرہ سال رہے اور اُنہوں نے کارپوریٹ سیکٹر کے تعاون سے اِس علاقے میں زبردست اقتصادی ترقی کا اہتمام کیا تھا اور اِس کی بنیاد پر اُن کی پارٹی بی جے پی نے قومی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی اور دس سال بعد اپنی حکومت قائم کی۔ اُنہوں نے احمد آباد میں چینی صدر کا پُرجوش استقبال کیا۔ صدر ژی نہرو کوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے اور اُن کی اہلیہ بھی بھارتی ملبوسات زیب تن کیے ہوئے تھیں۔ دریائے سراہتی کے کنارے جھولے لگے ہوئے تھے جن میں دونوں ممالک کی قیادت نے جھولے جھولے اور بڑی اپنائیت ، قربت اور سرشاری کا مظاہرہ کیا۔ گجرات میں مہاتما گاندھی نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے 1915ء سے 1930ء تک چرخے کے استعمال کو عام کیا۔ اُنہوں نے انگریزی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اپنے ہم وطنوں کو سوت کاٹنے اور اُن سے کھدر کے کپڑے بنانے اور اُنہیں پہننے کی تحریک سالہا سال جاری رکھی تھی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے چرخے کا تحفہ چینی صدر کو پیش کیا۔ اُنہوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ یہ پورا علاقہ جدید تہذیب کا مرکز رہا ہے اور اشوک کے کتبے یہاں دریافت ہوئے ہیں۔ احمد آباد شہر میں چین اور بھارت کے درمیان پانچ سالہ تجارت اور اقتصادی تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوئے جن کے مطابق چین کی طرف سے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ہوا۔ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دنیا کے دو بڑے ممالک جو ایک تہائی آبادی پر مشتمل ہیں ، وہ دوستی کے عظیم رشتوں میں منسلک ہو رہے ہیں اور یوں ایک دوررس تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔
بلاشبہ نریندر مودی اپنے آپ کو ایک انتہائی چالاک سیاست دان ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر بہت بڑا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماہ کے دوران جاپان ، چین اور امریکہ کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اُن کی اصل غرض و غایت سیکورٹی کونسل کی مستقبل رکنیت حاصل کرنا ہے۔ امریکی صدر اوباما اور سیکرٹری خارجہ جان کیری بھارت کی باقاعدہ حمایت کر چکے ہیں ، مگر معاملہ اِس قدر سادہ اور سہل نہیں۔ صدر ژی کے دورۂ بھارت نے بعض ایسے پہلو بے نقاب کر دیے ہیں جو علاقائی اور عالمی سطح پر بڑی اہمیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل چین اور بھارت کے درمیان اعتماد کا شدید بحران دکھائی دیتا ہے۔ یہ عجب اتفاق تھا کہ ایک طرف صدر ژی احمد آباد پہنچ رہے تھے ، تو اِسی روز بھارت کے صدر پرناب مکھر جی ویت نام کے تین روزہ دورے سے واپس آئے تھے۔ اُنہوںنے چین کے جنوب میں واقع سمندر میں تیل و گیس نکالنے کا معاہدہ کیا ہے۔ سمندر کے اِس حصے پر چین اپنی ملکیت کا دعویدار ہے اور وہ یہاں سے کسی بھی ملک یا ممالک کو تیل یا گیس نکالنے کی اجازت نہیں دیتا ، چنانچہ اُس نے ویت نام اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کو نامنظور کر دیا ہے اور اِس کی حاکمیت کے اندر مداخلت قرار دیا ہے۔ غورطلب امر یہ ہے کہ بھارتی صدر نے چینی صدر کے دورۂ بھارت سے متصل یہ ’’کارنامہ‘‘ کیوں سرانجام دیا۔ غالباً اِس کا مقصد چین کو یہ احساس دلانا تھا کہ بھارت اِس کی دیوار تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دورۂ بھارت کے دوران تبت کے سرگرم لوگوں نے اُس وقت مظاہرہ کیا جب دونوں راہنما حیدر آباد ہاؤس دہلی میں مذاکرات کر رہے تھے۔ تبت کا قضیہ بہت پرانا ہے اور اِس کی تاریخ بڑی پُراسرار ہے۔ چین میں جب کمیونسٹ انقلاب آیا تو اُس نے تبت پر اپنا حق جما لیا اور اِس پر قبضہ کر لیا۔ وہاں دلائی لامہ ایک زبردست روحانی طاقت کی حیثیت رکھتا تھا ، کیونکہ اِس کے لاکھوں پیروکار تھے۔ امریکی سی آئی اے نے دلائی لامہ کو مالی اور فوجی امداد فراہم کی اور اِس نے 1959ء میں چین کے خلاف بغاوت کر دی جو کچل دی گئی اور دلائی لامہ نے فرار ہو کر بھارت میں پناہ لی۔ صدر ژی کے دورے کے موقع پر بھارتی اخبارات نے تبت کے مہاجرین کو مظاہروں پر اُکسایا اور یوں سفارتی سطح پر بڑی بدمزگی پیدا ہوئی اور اِن مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا۔ غالباً مہمان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچانا اور اُسے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بہت بڑے مسئلے کے طور پر پیش کرنا اور اِسے دباؤ میں رکھنا تھا۔
سب سے اہم واقعہ لداخ کے پہاڑوں پر پیش آیا۔ اِس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان تین ہزار میل لمبی سرحد واقع ہے اور چین جو موا کے علاقے پر اپنی حاکمیت کا دعویدار ہے۔ صدر ژی کے دورے کے روز بھارت نے شور مچانا شروع کر دیا کہ چینی قیادت نے اپنے جرنیلوں کو علاقائی جنگ جیتنے کا مشن سونپ دیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے ان تمام افواہوں کی تردید کی ، مگر مودی نے صدر ژی کے ساتھ سربراہ ملاقات میں سرحدی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ چینی سویلین انجینئر ایک سڑک تعمیر کرنے کی غرض سے اِس علاقے میں کام کر رہے تھے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ بھارتی اخبارات و جرائد نے چینی صدر کے دورے پر بہت کم اداریے لکھے ہیں۔ اِس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چند ہفتے پہلے وزیراعظم نریندر مودی جاپان کے دورے پر گئے، تو اُنہوں نے کہا کہ ہمارے اردگرد ایسے ممالک ہیں جو اٹھارویں صدی کے توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں۔ اِس بیان پر چین کی طرف سے شدید برہمی کا اظہار ہوا تھا۔ بھارت کے اسٹرٹیجک اور معروف مصنف راجیو شرما نے اِس دورے کو نتائج کے اعتبار سے کم مایہ قرار دیا ہے اور اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ بھارتی جنتا کی سوچ یہ ہے کہ چین دراصل بھارت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بنگلہ دیش ، سری لنکا ، نیپال ، مالدیپ اور پاکستان کو تیار کر رہا ہے۔بداعتمادی کی یہ وسیع اور گہری خلیج ناقابلِ عبور معلوم ہوتی ہے۔
تازہ ترین