• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے
رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے
دھند ہے بکھرائو ہے، دھول ہے اندھیائو ہے
خود سے لگا چل میاں، شہر بگولوں کا ہے
شہر کے موجودہ حالات دیکھ کر جون ایلیا کے مندرجہ بالا اشعار یاد آئے سوچا قارئین کی نذر کردوں۔گزشتہ دو ہفتوں کی غیرحاضری میری لندن اور امریکہ کے سفر کی وجہ سے ہوئی۔ لندن میں آج کل موسم بہت ہی حسین ہے۔ میرے سات روزہ قیام کے دوران صرف ایک روز ہلکی سی بارش ہوئی ۔ باقی ایام میں سورج نکلا ہوا تھا۔ لندن کے لوگ بارش کو bad weather یعنی خراب موسم کہتے ہیں اور دھوپ کو sunny day کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ معاملہ الٹ ہے ہم بارش کے موسم کو خوشگوار اور ابر رحمت کہتے ہیں اور چلچلاتی دھوپ سے گھبراتے ہیں۔ خیر بارش سے پاکستان میں آنے والے سیلابوں کی طرح دھیان چلاگیا۔ اب کے برس بھی سیلاب نے پنجاب اور ملک کے دوسرے حصوں میں جو تباہی مچائی ہے وہ انتہائی ہولناک ہے۔ اگرچہ حکومت نے اپنے تمام تو وسائل سیلاب زدگان کی فلاح و بہبود پر لگادیئے مگر قدرتی آفت اتنی بڑی تھی کہ انسان کے بس سے باہر تھی۔ فصلیں تباہ ہوگئیں۔گھر برباد ہوگئے۔ سیاست دانوں کے اثاثے تو کبھی ظاہر نہیں ہوتے مگر سیلاب نے غریبوں کے سارے اثاثے ظاہرکردیئے۔ وہ اپنا تمام اسباب سر پر رکھے یا چارپائی پر رکھ کر گہرے پانیوں کو عبور کرتے دکھائی دیئے ان کی بے سروسامانی قابل دید تھی۔ لندن میں رہنے والے لوگ جیو پر سیلاب کے مناظر اوراس کی تباہ کاریوںکا آنکھوں دیکھا حال کیمرے کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اور پنجاب اور کشمیر میں رہنے والے اپنے عزیزواقارب کے لئے خاصے پریشان تھے ان کا سوال یہ تھا کہ پاکستان میں پانی اس قدر تباہی تقریباً ہر سال پھیلاتا ہے تو پھر ہم اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم کیوں نہیں بناتے۔ اگر ایک بڑا ڈیم منظور نہیں تو پھر چھوٹے چھوٹے 100ڈیم کیوں نہیں بنالیتے۔کالا باغ ڈیم ، بھاشا ڈیم سب سیاست اور سیاسی مفادات اور مصلحتوں کی نذر ہوگئے۔ عوام کی قسمت میں پچھلے 67سال سے ہر سال برسات کے موسم میں پانی میں ڈوبنا اور پانی کی قسمت میں ضائع ہونا لکھا ہے۔ سیاستدانوں کو اگر دھرنوں سے فرصت ملے تو کبھی قوم کی فلاح کے لئے بھی کچھ سوچ بچارکرلیں۔ اسمبلی کا مشترکہ اجلاس کئی روز جاری رہا۔ ہر روز اجلاس پر کروڑوں روپے کا خرچ آیا مگر کسی بھی سیاست دان نے سیلاب کے موضوع پر تقریر نہیں کی ۔ ایل پی جی کے کوٹے اور اس طرح کے دوسرے مالیاتی مفاداتی موضوعات تقریروں کا حصہ تھے۔ کوئی الزام لگاتا رہا اورکوئی اپنی صفائیاں پیش کرتا رہا۔ من تو را حاجی بگویم تو مراملا بگو کی مصداق آپس میں مک مکا کی باتیں ہوتی رہیں۔اپنی تعریفوں اوردوسروں کی تذلیل مقررین کا پسندیدہ موضوع تھا۔ قوم کی فلاح ، سیلاب زدگان کی کسمپرسی پر کسی مقرر کی توجہ نہیں تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ اجلاس ہمارے مشورے پر بلایا گیا اور ہم نے قومی اسمبلی اورسینٹ کےممبران کو وزیراعظم کے درشن کروادیئے وگرنہ وہ تو ان کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھتے تھے۔ وفاقی وزیروں کو بھی دو دو ماہ تک شرف ملاقات حاصل نہیں ہوا تھا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کےطفیل پارلیمینٹ کے ممبران نے اپنے وزیراعظم کو قریب سے دیکھ لیا۔ دھرنوں کا بھی کمال ہے آج 44دن ہوگئے ہیں دونوں رہنما اپنے اپنے کنٹینر میں قیام پذیر ہیں جوکہ بذات خود ایک مثال ہے اور عوام یا ورکرز جوکہ تعداد میں اگرچہ محدود ہیں۔گزشتہ 44روز سے گھر سے بے گھر ہیں اور اپنے روزگار پر نہیں جار ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فی الحال ان کا روزگار دھرنوں میں بیٹھنا ہی ہے۔ کھانا پینا مفت ملتا ہے۔ رہائش کھلے آسمان کے نیچے ہے۔ فضا میں بدبو اتنی زیادہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری خیموں کے دورے کے دوران اپنی ناک سے رومال نہیں ہٹا سکے اور ان کے چہرے کے تاثرات سے ان کی بے چینی نمایاں تھی اور بدبو ان کی برداشت سے باہر تھی۔ ایسے حالات میں ورکرز کی استقامت اور دھرنے میں متواتر شرکت قابل ستائش ہے بقول غالب
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو گاڑو کعبے میں برہمن کو
نیویارک میں رانا رمضان اور ظفر نے میری میزبانی کی اور کافی پاکستانی دوستوں کو دعوت پر بلایا جس میں میڈیا سے وابستہ لوگ کافی تھے۔ ان کا ایک ہی سوال تھا کہ ان دھرنوں کا حاصل کیا ہے اور اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اسی دوران جاوید ہاشمی کے انکشافات منظر عام پر آچکے تھے اور نیویارک میں رہنے والے میڈیا کے لوگ لانگ مارچ کی ظاہر ناکامی ، دھرنوں کی طوالت ، اسکرپٹ اور جاوید ہاشمی کی بغاوت پراپنے اپنے تنقیدی جائزے اور بے لاگ تبصرے پیش کررہے تھے۔ مگر کسی نے بھی اس مسئلے کا حل پیش نہیں کیا۔ اپنی باری آنے پر میں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بحث کو مختصر کرتے ہوئے کہا کہ دھرنوں کا ایک مقصد عوام میں سیاسی آگاہی اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی طرف پیش رفت کافی حد تک حاصل ہوگیا ہے۔ خاص طور پر جب ایک سابق وفاقی وزیر کو طیارے میں بیٹھنے سے عوام نے اس بات پر روک دیا کہ انہوں نے دو گھنٹے تاخیر سے آکر عوام یعنی طیارے کے ڈھائی سو مسافروں کو اذیت دی ہے۔ یہ سیاسی جدوجہد کی بہت بڑی کامیابی ہے اور ہماری قومی سوچ میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہاں ہر آدمی وی آئی پی ہے۔ آپ سڑک پر دیکھیں لوگ بارہ بارہ گارڈ لیکر چلتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر ان کو اتنا ہی خطرہ ہے تو گھر سے نکلتے کیوں ہیں۔ یہ سب شوبازی ہے جو ابھی تک ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ دھرنے عید کے بعد بھی جاری رہیں گے۔ دوسرے شہروں میں بھی سیاسی ہلچل مچے گی۔ اور حالات عبوری حکومت یا نیشنل گورنمنٹ کی طرف بڑھیں گے۔ وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ فی الحال لانگ مارچ زوردار نہیں تھا مگر دوبارہ یہ زور پکڑ سکتا ہے اور ملک میں تبدیلی کے امکانات کو روشن کرسکتا ہے۔ آخر میں مرزا غالب کے حسب حال اشعار پیش خدمت ہیں۔
رسوائے دھر گو ہوئے، آوارگی سے تم
بارے، طبیعتوں کے تو چالاک ہوگئے
کہتا ہے کون نالہ بلبل کو بے اثر؟
پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہوگئے
تازہ ترین