• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی افریقہ کے دارلحکومت جوہانسبرگ کو کئی حوالوں سے خصوصی اہمیت حاصل ہے،جوہانسبرگ کے نواح میں ہی ایک ایسی گلی بھی ہے جسے دو نوبل انعام یافتہ نیلسن منڈیلا اور ڈیسمن ٹو ٹو جیسےگوہر نایاب کا مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ڈیسمن ٹو ٹو سے ملاقات میںمیرے ایک قریبی دوست نےتہذیبوں کے ٹکرائو اور کشمیر میں بھارت کے کردار کے حوالے سے پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہونے پر بحث کی تو ڈیسمن ٹوٹو کا کہنا تھا کہ نہ تو سارے مسلمان دہشت گرد ہیں اور نہ ہی سارے مسیحی۔کشمیریوں کابطور مسلمان پاکستان پر سب سے زیادہ حق ہے۔ بھارت کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ کشمیر پر اپنا حق جتائے۔اللہ پاک نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو انبیاء کرام بھیجے ان کا سلسلہ سیدنا آدم سے شروع ہوکر جناب نبی آخر الزماں محمد ﷺتک ہے۔اسی دین حنیف کی تکمیل سیدنا ابراہیم ،سیدنا موسی اور سیدنا عیسی سے ہوتی ہوئی اسلام تک دیکھی جاسکتی ہے۔مسلمانوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں،ان سے محبت کرتے ہیں۔جناب مسیح کا یہ فرمان کہ اگر کوئی تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال اس کے سامنے کردو۔اسلام کی حقانیت کی اولین تصدیق کرنے والوں میں ورقہ بن نوفل شامل ہیں۔جو دین مسیح پر تھے ۔مسلمانوں کی اولین ہجرتوں میں ہجرت حبشہ کا ذکر آئے گاتو حبشہ کے شاہ نجاشی کا تذکرہ ضرور ہوگا۔جس کے دربار میں سیدنا جعفر طیارنے سورت مریم کاحوالہ دیا۔کلام پاک کی سورت روم ایرانی اور رومن قوتوں کی معرکہ آرائی کے تناظر میں فتح کی بشارت دیتی ہے ۔اس لئے کہ کفار مکہ اپنے آپ کو اہل ایران سے قرابت کا حق دار سمجھتے تھے۔اور مسلمانوں اور عیسایوں کو ایک ہی سلسلے کڑی سمجھتے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے مسجد نبوی میں عیسائی وفد کو قیام پذیر ہونے کا شرف بخشا اور حضرت عمر ؓ نے بیت المقدس میں کلیسا میں عیسائی اکابرین اور دیگر غیر مسلموں کو اطمینان دلایا تھاکہ آپ سب کے مذہبی مقامات کی حفاظت اہل اسلام کے ذمے ہے۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی،عظیم افریقی رہنما ڈیسمن ٹوٹو کا خیال وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں ہونے والی تقریر سے آ گیا ۔میاں نوازشریف جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن کے تیسر ے روز تقریر کرنے روسٹرم پر تشریف لائے توذوالفقار علی بھٹو کی فصیح و بلیغ تقریر کے الفاظ میرے ذہن میں گونجنے لگے۔وزیراعظم نوازشریف سے اس قسم کی تقریر کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ بھارت سے خوشگوار تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم کا موقف لچک دار رہا ہے۔پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا کہ نوازشریف نے شائستہ مگر جاندار انداز میں عسکری سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام عالم کے سامنے اپنا واضح موقف پیش کیا۔وزیر اعظم کی تقریر اس بات کا عکس تھی کہ فوج اور حکومت اب واقعی تناؤ کم کرکے ایک صفحے پر منتقل ہوچکے ہیں۔میاں نوازشریف اور فوج کے درمیان جن چند معاملات پر اختلافات تھے اور حالات سنگین نوعیت تک پہنچ چکے تھے ان میں اولین مسئلہ بھارت سے تعلقات کے حوالے سے تھا۔نوازشریف کی خواہش رہی ہے کہ بھارت سے بطور ہمسایہ ملک خوشگوار تعلقات استوار ہونے چاہیںاور ماضی میں وہ کشمیر کے معاملے میں دو ٹوک موقف سے اس لئے بھی اجتناب کرتے نظر آئے کہ ہمسایہ ملک سے تعلقات پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔میاں نواشریف اور ان کے رفقا کی سوچ رہی ہے کہ بھارت سے خوشگوار تعلقات قائم کرکے ہی مسئلہ کشمیر کو حل کیا جاسکتا ہے مگر عسکری قیادت کا موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرکے ہی بھارت سے خوشگوار تعلقات مستحکم کیے جاسکتے ہیں ۔بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے مگر موجودہ ملکی حالات اور مسلم لیگ ن جس صورتحال سے نبرد آزما ہے ان میں میاں نوازشریف کی حکمت عملی درست قدم ہے۔جناب وزیر اعظم کو بروقت اس با ت کا ادراک ہوچکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے کر کسی بھی سیاسی حکومت کا قائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ویسے یہ اس ملک اور اس کے باسیوںکی بدقسمتی ہے کہ ہم آج بھی سویلین بالادستی کو ترس رہے ہیں۔قومیں اور تہذیبیں بالکل انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ابن خلدون اور شپینگلر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں،یہ جنم لیتی ہیں ،پروان چڑھ کر جوان ہوتی ہیں ،پھر زوال کا شکار ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔رومن ،یونانی اور مصر کی تہذیبوں کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد ہمیشہ چند اصولوں ،ضابطوں اور اخلاقی قدروں پر ہوتی ہے۔ ان کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب یہ اخلاقی قدریں کمزور پڑ جاتی ہیں اور سوسائٹی میں تضادات نمودار ہوجاتے ہیں۔اور یہی اس کے نیست و نابود ہونے کا سبب بنتے ہیں۔فوج او ر حکومت میں تضادات کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔اچھا ہوا کہ تدبر کا مظاہر کرتے ہوئے جلد ان اختلافات کو حل کرلیا گیا ۔
میاں نوازشریف کی تقریر کا دوسرا حصہ جوہری اثاثہ جات کے حوالے سے تھا ،جو موجودہ حالات کے تناظر میں انتہائی اہمیت رکھتا تھا۔کراچی میں نیول ڈاکیارڈ حملے کے بعد پوری دنیا پاکستان کے جوہری اثاثہ جات کی سیکورٹی کے حوالے سے سوالیہ نشان لگا چکی تھی مگر سربراہ حکومت ہونے کی حیثیت سے وزیراعظم نے بھرپور انداز میں جوہری اثاثوں کے حوالے سے پاکستان کے موقف کا جاندار دفاع کیا۔نیول ڈاکیارڈ پر حملہ ہو یا جی ایچ کیو کو تباہ کرنے کی کوشش۔اس سب کے باوجود پاکستان کے جوہری اثاثہ جات انتہائی محفوظ ہیں۔حساس معاملہ ہونے کی وجہ سے صرف اتنا گوش گزار کروں گا کہ جنرل(ر) پرویز مشرف سے بہت غلطیاں سرزد ہوئی ہیں مگر جوہری اثاثہ جات کے حوالے سے ایس پی جی(Stratedegic Plans Division)کا قیام ایک بہترین اقدام تھا۔جس کے بعد دنیا کی تمام طاقتور قوتیں چاہیں بھی تو جوہری ہتھیاروں تک پہنچ کر انہیں مذموم مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتی ہیں۔تو بات ہورہی تھی میاں نوازشریف کی تقریر کے حوالے سے،گزشتہ دنوں جناب وزیراعظم کو ایک عاجزانہ مشورہ دیا تھا کہ آپ جذبات کے بجائے حکمت سے کام لیں ۔حالیہ اقوام متحدہ کی تقریر میں واضح دکھائی دیا کہ میاں نوازشریف نے حکمت اور تدبر کا مظاہر کیا ۔فواد حسن فواد اور امریکہ میں پاکستان کے ملٹری اتاشی بریگیڈئیر عبداللہ ڈوگر نے نازک حالات میں ایک اچھی تقریر تیار کی۔وزیراعظم کی حالیہ تقریر پر بھارتی و دیگر بین الاقوامی میڈیا بھی حیران نظر آیا کہ آخر یہ تقریر تیار کس نے کی ہے۔صد شکر آج ہچکیاں لیتی ہوئی جمہوریت مستحکم ہوتی ہوئی معلوم ہورہی ہے۔جمہوریت کا بوریا بسترا لپیٹنے کی خواہش رکھنے والے افراد کے ہوش حواس اڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔کئی نام نہاد ترجمان پاگلوں کی طرح ٹکریں مار رہے ہیں۔مگرحالیہ حالات سے میاں نواشریف کو یہ ضرور سیکھنا ہوگا کہ اگر قانون کی حکمرانی اور سویلین اداروں کی بالادستی کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پہلے جمہوری اقدار اس قدر مضبوط کریں کہ جب آپ طاقتور ہاتھوں کو قانون کے کٹہرے میں لارہے ہو ںتو کوئی آپ پر انگلی نہ اٹھا سکے۔آپ کے عرشے کو دیمک نے گزشتہ ستاسٹھ سالوں میں انتہائی کمزور کردیا ہے۔آپ کی اولین ذمہ داری ہے کہ پہلے اس عرشے کو مضبوط و مستحکم کریں۔ترکی کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ترکی کے حکمرانوں نے پہلے جی ڈی پی کو 4سے 10تک پہنچایا پھر قانون توڑنے والوںجرنیلوں کا احتساب شروع کیا۔اس ملک کی عوام تو ابھی تک بنیادی ضروریات سے ہی محروم ہیں ۔بے روزگاری اتنی ہے کہ لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ان حالات میں وہ کہاں آپ کا ساتھ دیں گے۔انہیں اس سے کیا سروکار کہ سویلین بالادستی ہو یا فوجی آمریت۔عوام کے لئیے جمہوری دور حکومت میں ایسے اقدامات کریں کہ وہ خود کہنے پر مجبور ہوں کہ سویلین حکمرانی ہی بہترین طرز حکومت ہے۔
تازہ ترین