• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ان سطور کے ذریعے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری سے مخاطب ہوں ، جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کے انتہائی نازک دور میں پاکستان پیپلز پارٹی جیسی مقبول سیاسی جماعت کی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں ۔ حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ انہیں اپنی عظیم والدہ کی طرح نوعمری میں ہی اتنی بڑی ذمہ داریاں سنبھالنا پڑی ہیں ۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے جن حالات میں پارٹی کی بنیاد رکھی تھی،آج وہ حالات نہیں ہیں۔ صرف حالات ہی نہیں بلکہ عہد بھی تبدیل ہو چکے ہیں ۔ مجھے شہید بھٹو کے اس خط کے الفاظ یاد آ رہے ہیں ، جو انہوں نے21 جون 1978ء کو کال کوٹھڑی سے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کی سالگرہ کے موقع پر تحریر کیا تھا ۔ شہید بھٹو لکھتے ہیں کہ ’’ ہر نسل کا اپنا مرکزی مسئلہ ہوا کرتا ہے کہ آیا جنگ کو ختم کرنا ہے ، نسلی نا انصافی کو مٹانا ہے یا محنت کشوں کی حالت کو بہتر بنانا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کو فرد کے وقار کی فکر ہے اور وہ ضرورت سے زائد اختیار اور طاقت کی حد بندی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو اپنے شہریوں سے براہ راست اور دیانت داری کے ساتھ بات کرے امکانات تو بہت زیادہ ہیں ، داو پر بھی بہت کچھ لگا ہوا ہے۔ آنے والی نسل کے لئے ’’ ٹینی سن ‘‘ کا مایوس کن لیکن ایک طرح سے پیغمبرانہ پیغام چھوڑتا ہوں کہ ’’ ارے 50 سال کی عمر میں میں کیسا ہو جاؤں گا ، اگر قدرت نے مجھے زندہ رکھا جبکہ اس 25 سال کی عمر میں ہی میں دنیا کو اس قدر تلخ پاتا ہوں ۔ ‘‘ یقیناً آج حالات نہ صرف بدل گئے ہیں بلکہ بہت زیادہ تلخ بھی ہو گئے ہیں ۔ ایک عہد وہ تھا ، جب 1967ء میں شہید بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس وقت دنیا دو نظریاتی بلاکوں میں تقسیم تھی۔ سوشلسٹ اور سرمایہ درانہ بلاک میں ٹکراؤ تھا ۔ ایشیاء ، افریقہ اورلاطینی امریکہ میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں ۔ تیسری دنیا اور غیر وابستہ ممالک میں ایک زبردست تحریک ابھررہی تھی دنیا میں بہت بڑی اور قد آورسیاسی شخصیات موجود تھیں ۔ 1965ء کی جنگ کے بعد پاک بھارت تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے تھے ۔ پاکستان میں قیادت کا بہت بڑا خلاء تھا ۔ پورے ملک میں کوئی لبرل، جمہوری ، نظریاتی اور محب وطن سیاسی جماعت موجود نہیں تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو انتہائی ذہین ، وسیع المطالعہ اور بڑی بصیرت والے سیاست دان تھے ۔ انہیں آٹھ دس سال تک ریاستی اور حکومتی امور کا بھی تجربہ تھا ۔ اس دور کی عوامی سیاست پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ آزادی موہوم ‘‘ لکھ کر نہ صرف آزادی کے فلسفہ کو واضح کیا بلکہ تاریخ کے تسلسل میں پاکستان کے معروضی حالات کی تشریح بھی کی ۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کے ذریعے ایک راستہ نکالا اور اس سیاسی جماعت کو صرف تین سال کے عرصے میں ایک بڑی ملک گیر سیاسی جماعت بنا لیا ۔ انہوں نے اس وقت ہر صوبے ، ہر زبان، ہر مذہب، ہر طبقے اور ہر حلقے کے قابل اور مقبول لوگوں کو اس پارٹی میں اکٹھا کیا ۔ یہ نظریاتی سیاست کا دور تھا لہٰذا پیپلز پارٹی کو انتہائی پرجوش کارکن مل گئے ۔ پیپلز پارٹی نے 1970 ء کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں ۔ پاکستان دولخت ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کو ترقی اور مستقبل کی سیاست کا ایک وژن دیا اور تیسری دنیا کے ملکوں میں اسے ایک رہنمایانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنایا ۔ دنیا بھر کی ترقی پسند،بائیں بازو، قوم پرست اور کمیونسٹ تحریکوں کو بھی تقویت دی۔ اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرکے عالم اسلام کی رہنمائی کے راستے کھولے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد ڈالی لیکن یہ بات کچھ قوتوں کو برداشت نہیں ہوئی اور ان کے خلاف سازش کر کے ان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور انہیں شہید کردیا گیا۔
دوسرا عہد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا ہے ۔ انہوں نے اپنے عظیم باپ کی شہادت کے بعد انتہائی نا مساعد حالات میں پارٹی کی قیادت سنبھالی ۔ یہ سرد جنگ کا آخری زمانہ تھا ۔ دنیا نیو ورلڈ آرڈر کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ نظریاتی سیاست آہستہ آہستہ معدوم ہورہی تھی۔ مارکیٹ اکانومی رائج ہورہی تھی ۔ بھارت جیسےملکوں میں بھی سوشلسٹ اکانومی کی بجائے مکسڈ اور مارکیٹ اکانومی جنم لے رہی تھی ۔ ایران انقلاب کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کے خلاف امریکہ اور اس کے حواری پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کرنے کے لئے تمام انتظامات کر چکے تھے ۔ جنرل ضیاء الحق نے تمام سیاسی جماعتوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف کھڑا کردیا تھا ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے والد سے زیادہ تلخ حالات کا سامنا تھا ۔ انہوں نے اپنے والد سے زیادہ جدوجہد کی ۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ہر وہ عذاب جھیلا ، جس کا کوئی تصور کر سکتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اپنے باپ کی طرح آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ اوروسیع المطالعہ تھیں اور ان کی تربیت بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر نے کی تھی ۔ حالات زیادہ خراب ہونے کے باوجود انہیں ورثے میں مضبوط اور نظریاتی پارٹی ملی ، جسے وہ بہت آگے لے کرگئیں ۔ انہوں نے پرانی قیادت اور نئی قیادت کو ساتھ ملایا اوران میں جنریشن گیپ پیدا نہیں ہونے دیا ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سیاست میں اس ’’ پولرائزیشن ‘‘ کو تبدیل کردیا ، جو آمروں نے پیدا کیا تھا ۔ انہوں نے تحریک بحالی جمہوری (اایم آر ڈی ) میں اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو بھی ساتھ ملالیا اور وہ سیاسی پولرائزیشن تبدیل کردی جو پیپلز پارٹی اورپیپلز پارٹی مخالف قوتوں کے مابین ٹکراؤ کے سبب پیدا ہوئی تھی اور جسے مذہبی دائیں بازو اور لبرل بائیں بازو کے مابین ٹکراؤ سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔ وہ پولرائزیشن تبدیل ہو کر جمہوری اور غیرجمہوری قوتوں کے مابین تقسیم کی شکل اختیار کرگئی تھی ۔ ایم آر ڈی کی تشکیل کے زمانے میں ، میں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ ایم آر ڈی بنا کر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے مفاہمت کا جو فلسفہ دیا تھا ، وہ ان کی شہادت تک ایک ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ کے طور پر چلتارہا۔
اس فلسفے نے نہ صرف پیپلز پارٹی کے لئے مخالفانہ ماحول کو کسی حد تک ختم کیا بلکہ جمہوریت کے لئے ایک راستہ بھی بنایا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جدوجہد ، بصیرت ، علم اوربین الاقوامی حالات کے تناظر میں کی گئی کوششوں کے باعث دو دفعہ اقتدار حاصل کیا لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں قبول نہیں کیا اوران کی حکومتوں کو برطرف کردیا۔ محترمہ نے طویل عرصہ جلا وطنی میں بھی گزارا ۔ اس دوران دنیا مکمل طور پر ’’ یونی پولر ورلڈ ‘‘ میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ دہشت گردی ، تشدد اور جارحیت کی وجہ سے پرامن سیاسی جدوجہد بہت مشکل ہو گئی تھی ۔ اسی دوران ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے وقت شہادت کا ’’سانحہ عظیم ‘‘ رونما ہوا ۔ ان کی شہادت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے ، وہ بہت مشکل سے ہی پر ہو گا۔
تازہ ترین