• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ نشست تقریباً ہر ہفتے ہوتی ہے چند صاحب ذوق، صاحب فکر سید سرفراز شاہ کی گفتگو سے مستفید ہوتے ہوئے حالات حاضرہ پر اپنی رائے بھی دیتے۔ اس دفعہ اس گفتگو میں ایک سابق جنرل اور سابق گورنر اعظم خاں کا تذکرہ ہوا۔ سید سرفراز شاہ صاحب سے ان کی پرانی رفاقت تھی۔ جنرل اعظم خاں ایک دبنگ فوجی تھے اور ان لائن آف ڈیوٹی میں وہ ہر وقت مصروف رہتے تھے ان کو جب مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا گیا تو صوبے کے معاملات امن و امان کے حوالہ سے خاصے تشویش ناک تھے۔ پھر ایک مغربی پاکستان کے فوجی کو گورنر جنرل لگانے کا فیصلہ ہوا۔ شروع شروع میں سب کو شک تھا کہ اعظم خاں وہاں جا کر کیا کریں گے۔ ان کی گورنری کے زمانہ میں ہی سیلاب اور طوفان سے صوبہ دوچار ہو گیابہت بڑی آبادی متاثر ہوئی۔ اس مشکل وقت میں اعظم خاں نے پورے صوبے کے ہنگامی بنیادوں پر دورے شروع کئے۔ ان دوروں کے دوران وہ ایک متاثر علاقہ میں گئے وہاں پر ہر طرف پانی تھا صرف سرکاری ڈاک بنگلہ اونچی جگہ کی وجہ سے کچھ محفوظ تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک درخت پر متاثرین پناہ لئے ہوئے تھے۔ جب جنرل اعظم وہاںگئے اور ان متاثرین سے رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ سب بھوکے پیاسے ہیں اور کوئی سرکاری امداد نہیں ملی۔ ڈاک بنگلہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے براجمان تھے۔ جنرل اعظم نے ان کو نکالا اور اپنے ساتھ سیلاب کے پانی میں لے گئے اور لوگوں کی امداد شروع کی مقامی آبادی کو ایک فوجی جنرل کے کردار پر حیرانی تھی ان ہی دنوں وہ ایک دور دراز کے علاقہ میں گئے اور مقامی آبادی سے ان کے مسائل معلوم کئے اور ان کو شکایت ملی کہ شروع میں محدود پیمانہ پر امداد تقسیم ہوئی اور اس کے بعد مقامی انتظامیہ کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ ان کو خوراک کی ضرورت تھی مقامی افسر شاہی کا کہنا تھا کہ وہ مزید امداد کا بندوبست نہیں کر سکتے۔ جنرل اعظم نے معلوم کیا کہ اس علاقہ میں کتنی امداد آئی تھی تو معلوم ہوا کہ خاصی امداد آئی تھی۔ پھر کسی نے اطلاع دی کہ قریب ہی ایک جگہ وہ امداد ذخیرہ کی گئی ہے۔ جنرل اعظم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا اور جا کر دیکھا کہ خاصی امداد وہاں پر تھی وہاں پر جلسہ کا اہتمام کیا گیا اور مقامی لوگوں کو کہا گیا کہ سب امداد آپ لوگوں کی ہے اور آپ سب اس کو آپس میں تقسیم کر لیں۔ بنگالی جنتا کے لئے تو جنرل اعظم ایک اوتار بن گئے تھے۔ جنرل اعظم لوگوں کے درمیان ذات پات مذہب کا فرق نہ رکھتے اور ان کی مکمل مدد کی کوشش کرتے۔ مغربی پاکستان کے صاحب اقتدار جنرل اعظم کے کردار سے پریشان تھے پھر مغربی پاکستان میں سیاسی لوگوں نے ایک نیا نعرہ لگانا شروع کر دیا وہ نعرہ تھا۔
پاکستان کے تین خدا
اعظم ناظم اور ظفر اللہ
کیونکہ جنرل اعظم کو مشرقی پاکستان کے لوگ پوجنے لگ گئے تھے اور جب ان کو واپس بلایا گیا تو لوگ ان کے لئے دیوانہ وار باہر نکل آئے جناب سرفراز شاہ نے ایک قصہ سنایا وہاں ایک سرکاری افسر شمس الرحمٰن تھے ایک میٹنگ میں جب جنرل اعظم تقریر کر چکے تو کمشنر شمس الرحمٰن نے سوال کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگے کہ ’’میں سوچتا ہوں‘‘ کہ جنرل اعظم نے مداخلت کی اور فرمایا ’’تم کیوں سوچتے ہو‘‘ کمشنر صاحب بہادر کی سیٹی گم ہو گئی اور نوکر شاہی کا زرخیز دماغ خاکی شاہی کے سامنے بے بس ہو گیا۔ خیر پاکستان کی افواج میں قابل اور فاضل جنرلوں کی ایک پوری پلٹن ہے۔ وہ کیا سوچتے ہیں اور کیوں سوچتے ہیں۔ اس پُر آشوب دور میں ان کا کیا کردار ہے وہ عسکری حلقوں کے لئے سابقہ اور حاضر فوجی جوانوں کے لئے معمہ ہی ہے۔
جب گورنر حضرات کی بات چل ہی نکلی ہے تو آج کل صوبہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کا بہت ذکر ہو رہا ہے۔ جب مسلم لیگ نواز کی مرکز میں سرکار بنی تو اندازہ تھا کہ صوبے کا گورنر کوئی ایسی شخصیت ہو گی جو صوبے دار بہادر کے لئے قابل قبول ہو۔ چوہدری سرور کے بارے میں کہا گیا کہ یہ پیپلز پارٹی اور زرداری گروپ میں بہت رسوخ رکھتے ہیں اور جب میاں برادران لندن میں جلا وطنی کا چلہ کاٹ رہے تھے تو چوہدری سرور کی نوازشات سے بھی مستفید ہوتے رہے۔ پنجاب کی گورنری کے لئے کئی لوگوں کا نام آتا رہا۔ ان میں سابقہ نوکر شاہی کے اعلیٰ افسر سابق جج، سابق جنرل مگر جب چوہدری سرور کا نام آیا تو وہ سب کے لئے قابل قبول تھا کیونکہ دوستوں کی طرف سے آیا تھا چوہدری سرور گورنر پنجاب ملکہ برطانیہ کی اعلیٰ رعایا میں شمار ہوتے ہیں۔ آج کل وقتی طور پر وہ ملکہ برطانیہ کی رعایا میں شامل نہیں۔ انہوں نے پوری ایمان داری سے صوبے کی گورنری کرنے کی کوشش کی۔ مگر چند دن پہلے ہی ان کا ایک فرمان سامنے آیا کہ وہ صوبے کے انتظامی معاملات سے بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ یہ بیان اس وقت آیا جب صوبہ پنجاب میں سیاسی طور پر ایک طوفان کی سی کیفیت ہے پھر سیلاب کی وجہ سے صوبے بھر کی نوکر شاہی مصروف نظر آتی ہے۔ دوسری طرف سیلاب کا زور تو جلد ہی ٹوٹ گیا۔ مگر امداد دینے کا شور ابھی تک گونج رہا ہے۔ ایسے میں نوکر شاہی کے مزے ہوں گے امداد کی تقسیم ان کی ذمہ داری ہو گی اور اس افسر شاہی کی نگرانی کے لئے کوئی بھی ادارہ نہیں ہے۔ صوبے دار پنجاب اس وقت سیاست ریاضیت اور عبادت میں کچھ ایسے مصروف ہیں کہ ان کو کوئی خبر نہیں ہے کہ صوبے کے دیگر معاملات کیسے چل رہے ہیں۔ ہر جگہ وہ اکیلے ہی نظر آتے ہیں ان کی کابینہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے اور کیوں کر رہی ہے وہ بھی ایک علیحدہ داستان امیر حمزہ ہے جب صوبے کو ترقی سے ہم کنار کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی بھرمار ہو۔ مگر بُرا ہو اس سیاست کا جو ترقی اور جمہوریت کو اکٹھا چلنے نہیں دیتی۔ ان حالات میں گورنر سرور صوبے کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ مگر ان کو صوبے کی انتظامی مشینری معاملہ فہمی کرنے نہیں دیتی ۔
اصل ذکر اس محفل کا ہو رہا تھا جو سید سرفراز شاہ کے ہاں جمی تھی۔ پھر حالات حاضرہ کے تناظر میں جمہوریت اور دھرنے کا ذکر بھی آیا۔ سرفراز شاہ صاحب کتاب بھی ہیں اور ان کا فقیر رنگ ان کی گفتگو میں نمایاں ہوتا ہے اور ایسا نقطہ بیان کرتے ہیں کہ سوچنے اور فکر کے کئی در کھل جاتے ہیں۔ جب جمہوریت کی بات شروع ہوئی تو شاہ صاحب کا سوال تھا کہ ’’جمہوریت سے خوشحالی آتی ہےیا خوشحالی سے جمہوریت آتی ہے۔‘‘ اس وقت مشترکہ اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اشرافیہ کے پردھان جمہوریت کو بچانے کے لئے ایک ہو گئے ہیں۔ اگر جمہوریت بچ جاتی ہے تو اسمبلی پانچ سال رہے گی۔ تو کیا ضمانت ہے کہ خوش حالی بھی آ جائے گی اگر کوئی قربان ہو جائے یا کسی کی قربانی ہو جائے تو کیا اس کے بعد خوشحالی کی توقع کی جا سکتی ہے یا پھر جمہوریت کے لئے لوگ کھڑے ہوں گے۔ اور یہ سانپ سیڑھی کا سا کھیل بن جائے گا اس وقت سرکار کو یکسوئی کی ضرورت ہے۔ انقلاب کی ضرورت عوام کو نہیں سرکار کو ہے۔ سرکار ایک ایسا انقلابی پروگرام دے جو خوشحالی کے سفر کو آسان بنا سکے۔ مگر اقتدار میں لوگ سوچنے اور دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ گورنر سرور کی شکایت درست ہے کہ صوبے کے انتظامی معاملات درست نہیں یہ معاملہ صرف ایک صوبے کا نہیں۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں بھی گورنر حضرات مرکز کی نمائندگی کرتے ہیں عوام کی نہیں عوام کی نمائندگی کرنے والے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ ہر جگہ ایک سی دکھائی دیتی ہے۔ صوبے پنجاب میں میٹرو بس کے منصوبہ نے تبدیلی کی نوید دی ہے۔ اب کپتان کے صوبے خیبر پختونخوا میں بھی ایسی جنگلہ بس کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے جو لوگوں کو آسان سفر کی سہولت دے گا اور نوکر شاہی کا بھی دال دلیا چلتا رہے گا جب کہ سندھ میں کراچی کے اندر بھی ایسی بس سروس کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جبکہ صوبہ سندھ کے گورنر صاحب نے تو ایک ریکارڈ قائم کر دیا اتنی طویل گورنری کے باوجود وہ صوبے میں امن و امان کے لئے کوئی مثبت کام نہیں کر سکے۔ یہ بات ہمارے نظام کی ناکامی ہے صوبے کا گورنر اتنے طویل عرصہ کے بعد بے بس ہو تو ایسے نظام پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں کچھ ایسا ہی معاملہ صوبہ بلوچستان میں ہے وہاں بھی گورنر مرکز کا نمائندہ اور مقامی سرداروں کا پسندیدہ ہے۔ جبکہ جمہوریت کے سفر میں عوام کو زیادہ حقوق کی ضرورت ہے اور ایسے میں مقامی حکومتوں کی ضرورت زیادہ ہو گئی ہے۔ اس وقت آئندہ کی منصوبہ بندی کے لئے مردم شماری کی شدت سے ضرورت ہے۔ اس کے بعد یہی ملکی نظام کے لئے ترجیحات کا تعین ہو سکتا ہے۔ اس وقت صوبے کے گورنر صاحبان مرکز کی طرف سے ڈاک خانہ کا کام کر رہے ہیں مگر اب جمہوریت اور نظام کے لئے ان کا کردار بدلنا ہو گا اور گورنر سرور اس کے لئے کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور مرکز کو ان کی مدد کرنی چاہئے۔
تازہ ترین