• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کےموروثی چیئرپرسن اور ٹوئٹوں کے شہزادے بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے ناراض کارکنوں اور جیالوں سے معافی مانگی ہے اور اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ان سے (یعنی پارٹی قیادت و حکومت سے)غلطیاں ہوئی ہیں اورانہیں معاف کردیا جائے۔ نہ فقط یہ بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ناراض کارکن جو ناراض بیٹھے ہیں یا دیگر پارٹیوں میں شمولیت کرچکے ہیں یا شمولیت کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ پارٹی میں واپس آجائيں ،انہوں نے جیالوں سے کہا ہے کہ ان سے ناراضگی کی وجہ سے نقصان جمہوریت کو نہ پہنچنے پائے۔ بھئی، اب جیالے پیپلزپارٹی میں کہاں؟ شاید خوردبین اٹھا کر تلاش کرنا پڑیں گے۔ کبھی یہی پارٹی سروں کے چراغ جلاتے جیالوں سے ہری بھری تھی جن کے خون سے نہ فقط پارٹی پر جمہوریت اور جمہوری جدوجہد بھی لہلہاتی تھی۔ وہ پارٹی بینظیر بھٹو کے ساتھ دفن ہوگئی یہ حقیقت ہے۔ خون دینے والے مجنوں راہ میں مار دئیے گئے اب چوری کھانے والے مجنوئوں سے یہ لیلائے وطن کے عارض گلنار بنے ہیں۔ اب جس پارٹی میں ڈاکٹر صفدر اور ناہید خان جیسے لوگ نہیں پر میاں منظور وٹو پنجاب کے صدر ہوں وہ پارٹی جیالوں کی پارٹی کیسے کہلائے گی! اب صرف پی پی پی کے اس پرانے عجائب گھر میں ڈھونڈنے سے بھی سید قائم علی شاہ ہی ملتے ہیں۔اب بھٹو فیکٹر پارٹی سے مکمل طور پر دفن ہوچکا یہ زرداری فیکٹرکا دور دورہ ہے۔ یہ بھٹوئوں کی پارٹی نہیں زرداریوں کی پارٹی ہے جس میں بچے کچھے کارکن رعایا اور بلاول بھٹو زرداری کرائون پرنس ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ آج کی پیپلزپارٹی ایوب خان کے دنوں کی کنونشن مسلم لیگ کی یاد دلاتی ہے یا یحییٰ خان کے دنوں کی کونسل مسلم لیگ کی جو سندھ تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔ اگرچہ سندھ بیسڈ پارٹی ہونا کوئی عیب نہیں لیکن یہ پارٹی شوق سے نہیں حالات نے اسے سندھ بیسڈ پارٹی میں تبدیل کردیا ہے۔ پارٹی سندھ میں زرداری فیکٹر کے ساتھ دوسری بار حکومت میں ہے اور اس کے حکومت میں ہونے سے زیادہ سے زیادہ نقصان بھی سندھ کا ہوا ہے۔ اب یہ پارٹی ٹخنوں سے بھی اوپر گندگی کے ڈھیروں سے بھرے سندھ کے موہن جوڈارو بنے بڑے چھوٹے شہروں ،ٹوٹے پھوٹے روڈ رستوں جو سر شام ڈاکو راج کے خوف سے ویران ہوجاتے ہیں، وڈیروں کے اوطاق بنے اسکولوں، بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کے ساتھ وڈیروں کے رحم و کرم پر چھوڑی ہوئی پارٹی ہے۔ سیاسی یتیمی کو اگر سینگ ہوتے تو وہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور نام نہاد لیڈروں کے سروں پر نظر آتے۔ سندھ اور پنجاب کے انفراسٹرکچر اورگورننس میں فرق آپ صرف سندھ کی سرحد سے کموں شہید کراس کر کے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اس کیلئے تو نہ پی پی پی حکمرانوں کو نہ کسی جنرل نے منع کیا ہے نہ نواز شریف نے۔
وہ پارٹی جس نے لاہور میں تقریباً نصف صدی قبل ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر کے ڈرائنگ روم سے اپنے سفر کی شروعات کی تھی، جس نے لیاری سے لیکر لالہ موسی تک اور پارہ چـنار سے پشین تک ، یہاں تک کہ مظفر آباد سے لیکر مظفر گڑھ تک، کھیتوں ،کھلیانوں، پہاڑوں، میدانوں، سندھ کے صحرائے تھر چاہے سیرائکی وسیب ہو کہ اس سمیت ڈیرہ اسماعیل خان، ایک پرشور دریائے سندھ کی طرح بہہ نکلی تھی۔ اصل میں یہ اس پارٹی کا مانسرور سے بحیرہ عرب یعنی سندھ ساگر تک کا سفر تھا، جس پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں نے ضیاء آمریت سے مشرف آمریت تک داستان دارو رسن رقم کی ، جو کہ واقعی کل تک کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے کی صحیح ترجمہ بنی ہوئی تھی، جو کہ ووٹوں کی مشین بھی تھی ، جس میں لینڈ کروز والے سے لیکر گدھا گاڑی بان تک سبھی طبقوں کے لوگ شامل تھے، لیکن جو کہ اپنے جوہر میں فطری طور اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی تھی ۔ حقیقت میں یہ سیاسی طور ایک لاطبقاتی لاقومیتی پارٹی تھی۔ ایک غیر نظریاتی پارٹی جو کہ ہیرو ورشپ اور بھٹو ازم پر یقین رکھتی تھی (تاریخ کی مضحکہ خيزی یا ستم ظریفی کہئے کہ اس پارٹی میں ٹکا خان بھی تھا تو جام ساقی بھی تھا ) آج صرف سندھ کےموٹے تازے بوسیدہ بدبودار وڈیروں کی پارٹی کیسے بنی؟ ادی اور ادا کی پارٹی کیسے بنی؟ کیا یہ پارٹی ایسے بنی جیسے پوڑھو خان زرداری بٹھو اسٹیٹس کا انچارج بنا تھا!
اس پارٹی کے جیالے کیا تھے کیا ہوئے؟ جیالے جنھیں میں نے اپنے سروں کے چراغ جلاتے جیالے کہا تھا ، جیالے اس پاکستان میں سنیما کے بھرپور دنوں میں کھڑکی توڑ ہائوس فل کے دن تھرڈ میں آگے کی سیٹ پر فلم دیکھنے والے ان شوقین فلم بینوں کی طرح تھے جوکھڑکی تک پہنچنے میں ہنٹر والے گیٹ کیپروں کے ہنٹروں کی پروا نہیں کرتے تھے ۔ جیالے بھی بینظیر کی پیجارو کو چھونے کے شوق میں لیاری کے ساتھی جیالوں کی فلائنگ لاتوں اور ٹکر کی پروا نہیں کرتے تھے، جو بینظیر بھٹو کی گاڑی کے تپتے مڈگارڈوں کو ننگے ہاتھوں سے تھامے رکھتے تھے۔ جو اپنے بچوں کے نام ذوالفقار اور بینظیر رکھا کرتے، جو پھانسی گھاٹوں میں اپنی آخری ملاقات والے دن اپنی بینظیر نامی بچی کے سر پر سگریٹ کے پاکٹ کی پنی سے تاج بناتے اور پھر بـچی کے سر پر رکھ کر اپنی زندگی کی آخری رات میں پو پھٹنے سے بھی پہلے جئے بھٹو کہتے پھانسی کے تختے پر جھول جاتے(شاہدہ جبین کے اکلوتے بھائی عثمان غنی نے بھی یہی کیا تھا۔ بلاول، شاہدہ جبین سے بھی معافی لوگے!)۔ جن کے نزدیک پارٹی میں صرف بھٹو فیملی ہیرو باقی سارے زیرو تھے۔ بھٹو فیملی سے بھی مراد صرف بینظیر بھٹو ہوا کرتی۔ یہ لوگ پھر وہ جیالے کارکن تھے کہ جیالے لیڈر اس وقت قربانیاں دے رہے تھے جب انہیں کیا ملک میں کسی کو بھی شاید ہی یقین تھا کہ موت کی طرح منڈلاتا ہوا ضیاء کوئی ان کے سروں سے ہٹے گا یا یہ پارٹی کبھی اقتدار میں آئے گی۔ اور نہ یہ بھی وہم گمان میں تھا کہ اس پارٹی کے وارث زرداری ہوں گے۔ یقیناً جیالے کارکنوں اور جیالے لیڈروں کی ایسی قربانیاں ملک میں جمہوریت کیلئے تھیں (اٹھارہ اکتوبر اور ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بھی لیاری سے لیکر لالہ موسی کے جیالوں نے وہی اپنے سروں کے چراغ روشن کئے ) جس سے اب کچھ لوگ پس پردہ ریڈ زون میں کرکٹروں کے ذریعے فٹ بال کھیل رہے ہیں کہ تمام اسلام آباد اب ایک فٹبال اسٹیڈیم لگتا ہے۔ جیالوں کو ان پس پردہ جمہوریت کے ساتھ فٹ بال کھلائے جانے والے کرکٹروں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑا ہے اور معافی لینا پڑی ہے۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ناقابل تلافی نقصان ہو چکا۔ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ جان نثار پارٹی سے کب کے جا چکے۔ ناہید خان اور ڈاکٹر صفدر کا پتہ نہیں کہ ان جیسے سینکڑوں اب کیا رحمٰن ملک کی جگہ پھر آکر بھر سکتے ہیں۔ وٹو بن سکتے ہیں۔ کیا بڑی بوا (بڑی پھوپھی )کو پارٹی کے معاملات سے ہٹایا جاسکتا ہے،کیا جو پارٹی کے جنم سے لیکر آج تک نہیں ہوئے وہ پارٹی کے اندر انتخابات ہوسکتے ہیں؟ کیا اندرونی جمہوریت یا انر ڈیموکریسی پارٹی کے اندر قائم کی جاسکتی ہے۔ کیا جعلی وصیت نامے کے نتیجے میں قائم کی ہوئی سلطنت کا خاتمہ ممکن ہے۔ کیا اس قدیمی مصر لگتی پارٹی کے عجائب گھر میں اہرام کی طرح رکھے ہوئے سندھ پر مسلط کئے ہوئے نااہل اور کرپٹ حکمران، وزیر و مشیر ہٹائے جا سکتے ہیں ؟ سب سے بڑی بات کیا سندھ کے لوگوں سے بھی معافی مانگی جاسکتی ہے جن کو دو مرتبہ ڈبویا گیا ، جن کے بچوں کا مستقبل بند اور غیر حاضر اسکولوں سے تاریک کردیا گیا ہے۔ نوکریاں بیچ دی گئی ہیں۔ سندھ کو ایک سیاسی غلاموں کی منڈی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ حکومت کو ایک بڑے نیلام گھر میں جہاں ہر کام کی بولی ہے۔ جیالوں سے معافی اپنی جگہ لیکن کیا سندھ کو لوگوں کو اس دفعہ معاف کیا جا سکتا ہے! کہ ا ن پر بھٹو کے نام پر آخر نا اہل و ناکام حکمرانی کب تک! باقی ان کو ڈیسوں ڈیسوں سے کچـھ نہیں ملنے والا۔ کیا بلاول بھٹو اور ان کے ابا حضور و پھوپھی جان محض سونیا گاندھی بن سکتے ہیں؟ کیا جیالے اب اپنی زبان کھول سکتے ہیں کہ گر بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔کیا پھر اس امید اور آس میں سانس پھونکی جا سکتی ہے جو پنجاب میں حالیہ سیلاب کی متاثر اور گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبی ہوئی ان غریب عورتوں کی کھردرے ہاتھوں اور بینائی کھوتی آنکھوں میں لحظوں کو ایکٹر ہی سہی بلاول کیلئے دکھائی دی ۔ جو دہشت گردی کی ماری ہوئی چارسدہ کی عورتوں کی آنکھوں میں بینظیر کیلئے دکھائی دی تھی۔ شاید کبھی نہیں
محبت کھو رہی ہے اپنی بینائی
کسی سے کہدو کہ یوسف کا پیرہن لائے
تازہ ترین