• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی ایشیائی خطے کی معاشی ترقی اور عوامی بھلائی مقصود ہوتی تو سارک کے آٹھ ملک کبھی کے ایشین ٹائیگرز میں شامل ہو چکے ہوتے۔اعلانات تو معاشی یونین بننے کے ہوتے ہیں لیکن خطے میں تو پوں کا رخ تباہی کی ضمانت دیتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں باہمی تعاون کی انجمن تو بننے سے رہی آئندہ باہمی تباہی کی انجمن بننے کے آثار صاف دکھائی پڑتے ہیں۔ باہمی ناچاقی، دوطرفہ تنازعات اور سہ طرفہ جاری تباہ کن کرائے کی جنگیں (PROXY WARS) خوفناک منظر پیش کر رہی ہیں۔ جیسے یہ کیا کم ہے، علاقائی ممالک اندرونی شورشوں اور عوام کی ناراضی سے جمہوری طور پر نپٹنے کی بجائے ایک دوسرے پر بیرونی مداخلت (جو یقیناً بڑھی ہے) کا الزام دھر کر سلگتے مسئلوں پر جبر کا تیل ڈال کر بغاوتوںکی آگ بھڑکانے کے کام کو سلامتی کا فریضہ سمجھے ہوئے ہیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ نے سرینگر میں مظاہرین سے جمہوری طور پر نمٹنے کیلئے چھروں والی بندوق کے بجائے مرچوں والی بندوق کے استعمال کا ’’مژدہ‘‘ سنایا ہے اور اس عزم کے ساتھ کہ اس سے جمہوریہ کو مرچیں لگنے والی نہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام آباد کو بھارت کی اس انسان کش پالیسی پر اعتراض تو ضرور ہونا ہی چاہئے کیونکہ ہماری جمہوریت میں کسی کسر کی گنجائش کہاں اور جب کراچی یا کوئٹہ میں غیر ملکی ایما پر ویسے ہی نعرے پلٹ کر لگتے ہیں جیسے سرینگر میں سننے میں آتے ہیں تو بھارت کی بھی جمہوری رگ حمیت تو جواباً بھڑکنی ہی ہے کہ وہ دنیا کی بڑی جمہوریہ تو ہے ہی لیکن ایک آنکھ اور خونی جبڑے لئے۔ کچھ ایسا ہی کابل اور اسلام آباد کے مابین چل رہا ہے۔ وہاں کے دہشت گرد یہاں قومی آزادی کے حریت پسند اور یہاں کے بھگوڑے وہاں سے جوابی وار کے کرائے کے قاتل۔ افغانستان، پاکستان اور بھارت کی جاری چپقلش نے ایسا طوفانی خلفشار پیدا کیا ہے کہ لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم کسی کی چونچ کسی کی دُم ،اور یوں ہمارے اپنے ہاتھوں جنوبی ایشیا کو معاشی و سماجی ترقی کا گہوارہ بنانے کا خواب سلامتی کے متحارب پہلوانوں کے دنگل میں کہیں گم گما جائے گا ہی نہیں بلکہ گم ہو گیا ہے۔ پھر نومبر میں سارک کی چوٹی کی ملاقات اگر ہوئی بھی تو اس سے کیا خاک نکلنا ہے کہ منہ پرمعاشی یونین اور بغل میں چھری ہے۔ بھارت اور پاکستان کے ہاتھوں سارک کی تدفین کی رسوم تو عرصے سے جاری ہیں تو اس پر کوئی کتنی اشکباری کرے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں لگتا کہ جیسے اسلام آباد ہی میں 2004 میں منعقد ہونے والے سارک سمٹ میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی آمد پر جنرل مشرف بندوق چھوڑ کے بات چیت پر راضی ہوگئے تھے۔
ماضی کی اچھی مثالیں یاد دلانے میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن تاریخ کے بڑے حادثات سے سبق نہ سیکھنا اسی پرانے جہنم میں دوبارہ کودنے کی نشاندہی ضرور کرتا ہے اور اس میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ برطانوی سامراج توآزادی کے متوالوں کو حق خود ارادیت دینے پہ راضی ہوا جیسی انہوں نے چاہی، گو کہ یہ رجواڑوں کی مقامی ریاستوں کے عوام کو ویسے نہ ملا جیسے کہ باقی ہندوستان والوں کو۔ یہاں تک کہ لاکھوں لوگ اس حق کا استعمال کرتے ہوئے دیارغیر میں اپنی اپنی منشا یا مذہبی فسادات کے باعث جا بسے۔ جب متحدہ قومی موومنٹ والے مقامی پاکستانیوں کو مہاجروں کی پاکستان خلق کرنے کی یاددہانی کراتے ہیں تو احسان فراموشوں کو شرمندہ کرنے کو ۔یوں احساس گناہ میں دبے مقامیوں نے انصارمدینہ کی رسم پہ چلتے انہیں سر کا تاج بنایا تو سب ٹھیک رہا اور جب مقامی جاہل اور گنوار بھی پڑھ لکھ کر میدان میں اتر پڑے تو معمار پاکستان کوبھی تو ان کیلئے جگہ چھوڑنی چاہئے تھی۔ پر ایسا نہ ہوا اور اسلامی بھائی چارے کے راگ کی جگہ ابھر کر آئی ایک نئی ’’مہاجر قوم‘‘ اور اس کے خالق بنے، الطاف بھائی جو اب اپنے اسلاف کی ہجرت کو کوس رہے ہیں اور پاکستان پر ایسے تبرے بھیج رہے ہیں کہ ان کے پرکھے کفن پھاڑ کر ان کا گریبان پکڑسکتے ہیں کہ نانی نے کھسم کیا برا کیا کھسم کو چھوڑا تو اور بھی برا کیا۔ اب ہمارے اردو بولنے والے پاکستانی بھائی جائیں تو کہاں جائیں۔ بھارت واپسی کی گنجائش ہے نہ اس کیلئے کوئی رغبت۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے کوئی پاگل ہی مہاجرین کو خود کشی کی دعوت دے گا۔ پاکستان میں بھی اقلیتوں کے ساتھ کئے جانے والے برے سلوک کی وجہ سے کچھ ہندو بھارت ہجرت کر گئے تھے۔لیکن وہاں ہندو مہا سبھائیوں کے حسن سلوک کے باعث اپنے وطن کو واپس پلٹ آئے۔ بھلا ہو ڈاکٹر فاروق ستار کا یا پھر مصلحت کا کہ پاکستان کی متحدہ قومی موومنٹ اس خودکشی کے راستے سے بظاہر پلٹ آئے جس پرالطاف بھائی گامزن ہیں۔ یقیناً مہاجروں کو واپس دلوں میں بسانے کی ضرورت ہے اور جو ان کا حق بنتا ہے انہیں دیا جانا چاہئے،نہ کہ بحیرہ عرب میں دھکیلنے کی روش اختیار کی جائے لیکن ہم اپنے ہی سروں پر کلہاڑی مارنے کے پرانے ماہر ہیں۔ تصویروں کو پائوں تلے روندنے کا الٹا اثر ہوتا ہے اور مردہ باد یا زندہ باد کے نعروں سے ملک ختم ہونے یا بننے والے نہیں اگر خود ہم اپنے جسم کے حصوں کو کاٹ کر پھینکنے کی جانب مائل نہ ہوں۔ بھارت نے کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے سارے جتن کرلئے لیکن آزادی کی آواز بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔تا ریخ سے سبق نہ سیکھنے کی بات ہے تو ہم کتنے خوش گمان ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے سفاکی کے ساتھ اپنا مشرقی بازو کاٹ کر بھی اپنی پرانی خود کش روایت سے توبہ کرنے والے نہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں دس برس پہلے نواب اکبر بگٹی(جو پہلی قوم پرست جمہوری بلوچ حکومت کے گورکن تھے) کو قتل کیا گیا تھا اور گزشتہ جمعہ کو پورا بلوچستان ان کے غم میں مکمل طور پر بند رہا۔ دس برس ہوچکے ہیں اور ہم پہاڑوں میں چھپے بلوچ مسلح احتجاج کی آئین شکنی سے نمٹ رہے ہیں اور یہ ختم ہونے کو نہیں آرہی اور جمعہ ہی کو کوئٹہ شہر میں جو جلوس نکلا وہ ویسے ہی نعرے لگارہا تھا جیسے سرینگر میں سننے میں آتے ہیں۔ یقیناً کشمیر اور بلوچستان کے مسئلے جدا جدا ہیں لیکن سیاسی مسئلوں کے حل کیلئے آخر حکومتیں بندوق کا سہارا بھی کیوں لیتی ہیں جبکہ وہ جانتی ہیں کہ متحارب ہمسائیہ دار انہیں کمک پہنچانے سے باز نہیں رہیں گے اور انہیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف غیر جمہوری اور انسانیت سوز عمل پر نہ سہی دوسرے غیر انسانی عمل میں جمہوری حقوق کی پامالی کا درد ضرور اٹھے گا۔ ذرا افغانستان اور پاکستان کی تاریخ ہی دیکھ لیجئے افغانستان نے پاکستان کو نہ مانا اور پختونستان اور گرئیٹر بلوچستان کا مُداکھڑا کیا رکھا اورہم نے موقع پایا تو وہاں کے مذہبی منحرفین کو جمع کرکے جوابی کام شروع کردیا۔ سوویت یونین نے مداخلت کی تو ہم امریکہ کی گود میں جا بیٹھے اور جس ڈیورنڈ لائن کے تسلیم کئے جانے کا مطالبہ کرتے رہے تھے اسی کو ہم نے دہائیوں تک پامال کیا اور نام نہاد جہاد کا ایسا فتنہ کھڑا کیا کہ یہ پلٹ کر ہم پر ہی جھپٹ پڑا اور ہمیں جان کے لالے پڑگئے۔ اب ہر دو اطراف ایک دوسرے کےنام نہاد جہادی باغیوں کو سرحد کے آر پار خون و کشت بہانے کے یا تو مواقع فراہم کررہی ہیں یا پھر ضروری کارروائی نہیں کررہیں۔ یہ تو ہونے سے رہا کہ ایک ملک دوسرے ملک کے مطلوب دہشت گردوں کے تو ہاتھ باندھ دے اور دوسرا انہیں کھلی چھٹی دئیے رکھے۔ سلامتی دونوں کی اسی میں ہے کہ ہر دو اطراف متحرک دہشت گردوں پر زمین تنگ کردی جائے لیکن ایسی دانائی کمیاب ہی لگتی ہے حالانکہ جنرل راحیل شریف اس کی بار بار یقین دہانی کراچکے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ باہمی اعتماد تبھی پیدا ہوگا کہ دونوں ملک باہم سلامتی کا معاہدہ کریں اور مل کرہر دو اطراف کے دہشت گردوں پر پل پڑیں۔ اسی میں عوام کی خیر ہے ،گوکہ دہشت کا کاروبار کرنے والے اس پر ہرگز خوش نہ ہوں گے۔ صرف افغانستان ہی نہیں پاکستان کے اندرونی سلامتی کے حالات کا معاملہ بھی کئی محاذوں پر بگڑتا جارہا ہے۔ جی ہاں بیرونی مداخلت ہورہی ہے، وہ تبھی رکے گی جب ہمارے ہاں سے مداخلت بھی نہ ہو اور متعلقہ ملک اپنی اپنی شورشوں سے نمٹنے کیلئے سیاسی اور جمہوری حل تلاش کریں ورنہ ؎
بارود جواب آئے گا، بارود کی بو کا


.
تازہ ترین