• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
کیا شہر تھا اور کیا اس کے تعلیمی ادارے تھے ، کتنی محنت اور کتنی محبت سے وہاں تعلیم دی جاتی تھی۔ ایک طرف اسلامیہ ماڈرن ہائی اسکول قائم ہوا قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد، دوسری طرف گورنمنٹ کالج تھا۔ اسکول کے بانی مرحوم حاذق علی صاحب تھے ۔ ہیرا باد میں ، میروں کے ایک قبے کے قریب، چٹائیاں کھڑی کر کے ـ’ـکلاسیں ‘ بنادی گئی تھیں۔ کالج ورثہ میں ملا تھا۔ قیام ِ پاکستان سے پہلے کچھ مخیر ہندو خاندانوں نے پھلیلی نہر کے کنارے زمین خرید کر یہ کالج قائم کیا تھا۔ شروع میں ڈی جے کالج تھا، پھر نیشنل کالج ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد گورنمنٹ کالج ہو گیا۔ 66 ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا یہ کالج حیدرآباد کے نئے باسیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا اولین ذریعہ تھا۔ سٹی کالج بعد میں قائم ہوا اور اسے قائم کرنے والوں کا مطمع نظر دن میں کام کرنے والے، لوئر مڈل کلاس کے بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ اسلامیہ ماڈرن ہائی اسکول کافی عرصہ تک چلتا رہا۔ چٹائی کی دیواریں کب تک ساتھ دیتیں، ان کی جگہ اینٹوں کی دیوار یں تعمیر ہو گئیں۔ تعلیم ابھی کاروبار نہیں بنی تھی۔ مقصد پیسہ کمانا نہیں تعلیم دینا تھا۔ سرکاری اداروں پر کون توجہ دیتا ہے، گورنمنٹ کالج بتدریج زوال کا شکار ہو تا گیا۔اب بھی حالت خراب ہی ہے۔
میٹرک پاس کر کے گھر سے نکلے تو شہر میں ایک ہی آدمی کا چرچا تھا، ہر طرف، نایاب حسین، نایاب حسین۔ سارے ہی پڑھے لکھے حلقوں میں ان کے بارے میں گفتگو ہوتی۔ وہ بہت اچھی انگریزی جانتے ہیں، بہت اچھا لکھتے ہیں، بہت اچھا پڑھاتے ہیں۔ ایک انگریزی شاعر کی نظم پڑھانے بچوں کو قبرستان لے گئے۔ ایک دیو مالائی سی شخصیت، ایک Legend ۔ ایک تصوراتی ہیولہ ان کا ذہن میں بن گیا تھا، جیسا کہ ہوتا ہے۔ انڈس ٹائمز میں ایک دن رشید نیاز نے کہا نایاب حسین آئے ہیں۔ بڑے شوق سے انہیں دیکھنے نیوز روم گیا ، وہاں کوئی ’گوہر نایاب‘ نظر نہیں آیایعنی ایسا کوئی نہیں تھا جو ہمارے تصور کی شبیہ جیسا اگر نہیںتو اس سے سے ملتا جلتا ہوتا ۔ بعد میں رشید نیاز نے ان سے ملایا۔ بہت صدمہ ہوا۔ اچھا یہ ہیں نایاب حسین۔ ایسے ہوتے ہیں نایاب حسین، دل میں سوچا۔ ایک غیر متاثر کن شخصیت، نسبتاً چھوٹا قد، بال اڑنے لگے تھے۔ تھوڑا سا اچک کر چلتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان سے قربت ہوئی۔ بہت متاثر کیا۔ انڈس ٹائمز میں ان کا ساتھ رہا، پھر عرب نیوز، جدہ میں۔ شہر میں بہت سے صحافیوں کو وہ خبریں لکھ کر دیتے تھے۔ ایک بڑے انگریزی اخبار کے نامہ نگار، لوگ انہیں استاد کہتے تھے، ان کی خبریں ایک عرصے تک نایاب صاحب لکھتے رہے۔ انہوں نے خود شاید کبھی ایک لائن بھی نہیں لکھی، لکھنا آتا ہی نہیں تھا۔ بعد میں آنے والے بھی ’فیضیاب‘ ہوتے رہے۔ بعض ان کی لکھی ہوئی خبر اپنی کہہ کر دکھاتے۔ اتنے عرصے نایاب صاحب کی تحریر دیکھی تھی کہ فوراً پہچان سکتا تھا۔ بہت خوبصورت لکھتے تھے، صاف ستھرا۔ نایاب صاحب بعد میں اپنی ایک شاگرد کے ساتھ سوئیڈن چلے گئے، دل سے مجبور ہو کر گئے تھے، وہاںدل نے ساتھ چھوڑدیا، عین اس وقت بند ہو گیا جب انہیں آپریشن کے لئے اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے نمایاں شاگردوں میں نایاب حسین کا نام بہت نمایاں تھا۔ شروع میں وہ وہاں پڑھاتے بھی تھے۔اُس وقت ابھی انہوں نے صرف انٹر پاس کیا تھا۔ بی اے میں پڑھتے تھے اور انٹر کی کلاسیں لیتے تھے۔ یونیورسٹی نے اعتراض کیا۔ کالج کے پرنسپل ایک انگریز تھے، ڈاکٹر ڈوارٹ۔ انہوں نے یونیورسٹی کا اعتراض مسترد کر دیا۔ نایاب حسین وہاں پڑھاتے رہے۔ تنخواہ، کہا جاتا ہے، ڈاکٹر ڈوارٹ اپنی جیب سے دیتے تھے۔
حکومت کا یہ ایک ہی کالج تھا۔ شہر کے سارے ہی بچے میٹرک کرکے وہاں جاتے تھے۔ اولین ترجیح اسے ہی حاصل تھی۔ پھلیلی نہر دریائے سندھ سے پانی لے کر بہت بڑے علاقے کو سیراب کرتی ہے۔ اس کے کنارے کالج، بنانے والوں کے ذوقِ لطیف کا پتہ چلتا ہے۔ بڑے لوگوں نے یہاں تعلیم حاصل کی۔ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر، اور ان دنوں آئی بی اے کے سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین اسی سے فیض یافتہ ہیں۔ اور بھی بہت لوگ یہاں تعلیم حاصل کرتے رہے، جن کے بعد میں بڑے نام ہوئے ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر انوار صدیقی بھی اسی کالج کے طالب ِ علم تھے۔ تعلیم حاصل کرکے تعلیم دینے لگے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، اور بھی کئی جگہ اہم عہدوں پر۔ ایک بار حیدرآباد آئے، ان کے برادرِ بزرگ، اور ہمارے الطاف بھائی وہاںرہتے تھے۔ اپنی مادرِ علمی دیکھنے گئے اور رو پڑے۔ نصیر سلیمی کا کہنا ہے، زاروقطار۔ وہ جو ایک بہت متاثر کن کالج تھا، بری حالت میں تھا، بھینسیں بندھی ہوئی تھیں، عمارت کا حال برا تھا۔ کئی برس پہلے کی بات ہے۔ اب بھی یہی حال ہے۔ کوئی دیکھ بھال اس اتنے اہم کالج کی نہیں ہے۔ تعلیم کا کیا حال ہو گا، اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ پچھلے برس اس وقت کے وزیرِاعظم، راجہ پرویز اشرف یہاں تشریف لائے، انہوں نے بھی اسی کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ سامعین نے اصرار کیا، کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے۔ پچاس برس گزرگئے، سندھ کا دوسرا بڑا شہر یونیورسٹی سے محروم ہے۔ کافی عرصہ تو کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ طویل فاصلہ طے کرکے بچے بچیاں جامشورو میں نیو کیمپس جاتے رہے، اب بھی جاتے ہیں۔ پھر یہ احساس ہوا کہ اس شہر میں بھی یونیورسٹی ہو نی چاہئے، نحیف سی کچھ آوازیں اٹھیں۔ مگر کون سنتا ہے فغانِ درویش۔ حاضرین کے اصرار پر وزیرِاعظم پرویز اشرف اپنی مادرِ علمی کو یونیورسٹی کا درجہ دینا چاہتے تھے۔ ابھی وہ یہ اعلان کرنے ہی والے تھے کہ سندھ کے وزیر ِ تعلیم نے ان کے کان میں کچھ کہا۔ وزیرِاعظم نے اپنا اعلان روک لیا۔ وزیرِتعلیم نے بعد میں برملا اعلان کیا، حیدرآباد میں یونیورسٹی ان کی لاش پر ہی بن سکتی ہے۔ اور وہ جو واں نہیں پہ واں سے نکالے ہوئے تو ہیں، انہوں نے بھی کبھی پلٹ کر اس مادرِعلمی کو نہیں پوچھا۔
پوچھتے بھی تو کیا کر لیتے۔ سندھ یونیورسٹی کا وہ حصہ جو بعد میں اولڈ کیمپس کہلایا، ایک حسین جگہ تھی۔ عمارت کے اعتبار سے بھی اور یہاں کے معلموں اور متعلموں کے حوالے سے بھی۔ کیسے کیسے درخشاں ستارے یہاں دمکتے تھے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان، شعبہ ٔاردو کے سربراہ تھے، ایک بڑی روحانی شخصیت کے طور پر بھی جانے گئے، عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑ کر گئے۔ شعبۂ انگریزی میں ڈاکٹر احسن فاروقی تھے، اردو کے بڑے ادیب، ناول نگار، نقاد، خاکہ نگار۔ بعض بڑے تیکھے خاکہ انہوں نے لکھے، ایڈیٹ یا جینیئس ، ڈاکٹر بدلو۔ لوگوں کو اندازہ تھا کن کے بارے میں لکھے گئے۔ پروفیسر جلیل احمد خان، ڈاکٹر اشرف۔ بھگوان داس بھی تھے۔ ان سے حمایت الاسلام ہائی اسکول میں بھی پڑھا اور پھر سندھ یونیورسٹی میں بھی۔ ڈاکٹر احسن فاروقی بعد میں سکھر چلے گئے، جلیل صاحب اور اشرف صاحب جدہ۔ یونیورسٹی جامشورو لے جائی جا چکی تھی۔ اولڈ کیمپس میں چند ہی شعبے رہ گئے تھے۔ وہ بھی آہستہ آہستہ منتقل کردئیے گئے۔ یونیورسٹی میں اس کے ملازمین کی رہائش بھی تھی، ایک بڑا سا میدان بھی۔ مکانات رہنے والوں کو الا ٹ کردئیے گئے، یا ہتھیا لئے گئے۔ خالی زمین پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ کسی نے نہیں سوچاایک درسگاہ کی زمین ہے۔ اس کی آبرو تو نہ لوٹیں۔ اب وہاں ایک اسکول ہے، ماڈل اسکول کے نام سے۔ اس اسکول کے ایک پرنسپل اکرام صاحب تھے۔ وہ پہلے ایک زمانے میں غلام حسین ہدایت اللہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر رہے تھے۔ کیا زمانہ تھا۔ اس اسکول میں پچپن کی دہائی کے ابتدائی زمانے میں دو ڈرامے اسٹیج کئے گئے تھے،محمد بن قاسم اور ظالمۂ شمسہ۔ دونوں آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے تھے، وہی مکالمے، وہی انداز۔ اکرام صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ تھا، بہت عرصہ تک شہر میں ان ڈراموں کی دھوم مچی رہی۔ اسی اسکول نے بعد میں وہ دن دیکھے کہ اس کی دیواریں چٹخ گئی تھیں، عمارت اتنی خطرناک ہو گئی کہ اسکول پکے قلعہ میں ہی ایک دوسری بے سری سی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ کئی برس وہاں رہا۔ اس اسکول کی بحالی میں عزیز دوست علی حسن کا بڑا ہاتھ رہا۔ وہ جب حیدرآباد میں’ اسٹار‘ کے نمائندے ہوئے تو انہوںنے شہر کے مسائل پہ توجہ دی۔ جہاں جہاں خرابیاں دیکھیں انہیں اجاگر کیا۔ ذمہ داروں کا پیچھا کیا اور کما حقہٗ خرابیوں کو دور کرایا۔ ان کی کوششوں سے غلام حسین ہدایت اللہ ہائی اسکول کی مرمت ہوئی اور اسے اصلی حالت میں بحال کیا گیا۔اب تو اس بات کو کئی سال ہو گئے۔ اسکول ہے، چل بھی رہا ہے۔
تازہ ترین