• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزاد کشمیر میں انتخابات اور حکومت سازی کا عمل بالآخر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ کم و بیش سب کچھ توقع کے مطابق تھا ما سوائے ایک غیر معمولی ڈویلپمنٹ کے کہ صدر کے طور پر موصوف کا نام سامنے آیا، تو بعض حلقوں کو تعجب بھی ہوا اور مایوسی بھی، کیونکہ وہ خود ایوان صدر پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ پہلا ردعمل مسلم لیگ نون کے اتحادی AJK پیپلز پارٹی کے صدر سردار خالد ابراہیم کی طرف سے سامنے آیا، جو احتجاجاً اتحاد سے نکل گئے جس پر یار لوگوں نے پھبتی اڑائی کہ نون لیگ نے سردار صاحب کو صدر بنانے کا وعدہ تو نہیں کیا تھا، بس ہلکا سا اشارہ دیا تھا کہ صدر ان کا آدمی ہوگا اور مسعود خان سے بڑھ کر ان کا آدمی کون ہوسکتا ہے۔(یاد رہے مسعود خان، سردار خالد ابراہیم کے فرسٹ کزن ہیں)۔ مسعود خان کس کا حسنِ انتخاب ہیں؟ اس حوالے سے بھانت بھانت کے تبصرے بھی سننے میں آئے۔ کسی نے اسے وزیر اعظم نوازشریف کا ماسٹر ا سٹروک کہا، تو کوئی بولا یہ آئیڈیا ان کا ہوہی نہیں سکتا، کسی اور جانب سے آیا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ متعلقہ حکام نے یہ فیصلہ بہت پہلے کرلیا تھا۔ ریاستی انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوتے صدارت کا منصب مسعود خان کو ہی ملنا تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ امور کشمیر کے وفاقی وزیر نے وزیر اعظم نواز شریف کی منظوری کیلئے تین سیاسی ناموں کا ایک پینل تشکیل دے رکھا تھا۔ جو دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ریاستی وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے دعویٰ کیا کہ سابق سفارت کار کا نام انہوں نے تجویز کیا تھا اور وہ کلیتاََ ان کی چوائس ہیں۔ ایک در فطنی یہ بھی چھوڑی گئی کہ اس ضمن میں فارن آفس کے بڑوں سے مشورہ ہرگز نہیں کیا گیا۔ شاید وہ اس پر صاد نہ کرتے۔
حقیقت حال کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ موجودہ حالات میں ایوان صدر کیلئے مسعود خان سے بہتر شخص یقیناً دستیاب نہیں تھا۔ انہیں یہ ذمہ داری اس موقع پر سونپی جارہی ہے جب کشمیر میں آزادی کی تحریک نے پھر سے انگڑائی لی ہے۔1989کی اپ رائزنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہےکہ لوہا پھر سے گرم ہے اور کشمیری ایک بار پھر بھرپور عزم کے ساتھ بھارتی ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک سرفروش برہان وانی کی قابض فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہے اور ظلم و بربریت کا ہر حربہ ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ شہداء کے جنازوں اور احتجاج میں شریک نوجوانوں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں اور قابض فوج نے ستم کی ایک نئی راہ تراشی ہے کہ چھرّے فائرکرکے سینکڑوں کشمیریوں کو بینائی سے محروم کیا جاچکا ہے۔ جو پھر بھی پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اور سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ ایسے میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ عالمی فورسزپر کوئی انکے لئے آواز اٹھانے والا ہو۔ کوئی تو ہو جو بھارتی پروپیگنڈے کی قلعی کھولے اور ان پر ڈھائے جانے والے بے پناہ مظالم کی تصویر عالمی برادری کو دکھائے اور انہیں بتائے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور نہ ہی داخلی معاملہ بلکہ یہ متنازع علاقہ ہے، تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا جس پر سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں۔ جن کے مطابق اسے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طے پانا ہے جو اقوام عالم کو یہ بھی باور کراسکے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت کے نام پر کچلا نہیں جاسکتا بلکہ اصل دہشت گردی تو کشمیریوں کے خلاف طاقت کا استعمال ہے۔جو عالمی برادری کو یاد دلائے کہ دنیا کے آدھے سے زیادہ ممالک نے نو آبادیاتی نظام سے آزادی مسلح جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کی تھی اور اس فہرست میں امریکہ بھی شامل ہے جو یہ نکتہ بھی اٹھاسکے کہ محکوم و مقبوضہ اقوام کے دفاع کے حق کو تو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے اور جو فریب کا یہ پردہ بھی چاک کرے کہ مقبوضہ کشمیر میں گاہے بگاہے ہونے والے انتخابات محض ڈھونگ اور فراڈ ہیں جنکی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔اور جو یہ آواز اٹھاسکے کہ کشمیر بدستور ایک زندہ اور متحرک مسئلہ ہے جسے حل کرانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔
اپنے خصوصی پس منظر کی وجہ سے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے کشمیریوں کی توقعات کا مرکز لا محالہ مسعود خان کی ذات بننے جارہی ہے۔ وہ انکی توقعات پر کس حد تک پورا اترتے ہیں؟ فی الحال کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ مگر ایک بات طے ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو تمام تر جزئیات کے ساتھ پوری طرح سمجھتے ہیں۔ متعلقہ حقائق جس کی ٹپس پر ہیں اور جس نے نیویارک سے لیکر جنیوا تک کے یو این فورمز پر برسوں اس کیس کی بھرپوروکالت کی ہے۔ جسے کشمیر پر کسی قسم کی بریفنگ کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اس حوالے سے متعلقہ شخصیات اور اداروں کو گائیڈکرنے کی پوزیشن میں ہے۔
پچھلے تین ہفتوں میں راقم کو AJK کے ایک بڑے حصے میں گھومنے کا موقع ملا ۔ سیاست کے لوگ مسعود خان کو اون ہی نہیں کرتے، ان سے پیار بھی کرتے ہیں اور ان پر فخر بھی۔ میر پور اور مظفر آباد میں چند پڑھے لکھے لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی، تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ مسعود خان نے کشمیر اور کشمیریوں کا نام روشن کیا ہے۔ مظفر آباد کے ایک یونیورسٹی ٹیچر نے بتایا کہ صدارت کیلئے ان سے بہتر کوئی ہے ہی نہیں۔ پھر بولے مسعود خان بطل ارض ہے۔ وہ ریاست کا جم پل ہے۔ جس نے مقامی اداروں سے پڑھ کر دنیا بھر میں اپنے آپ کو منوایا۔AJK کے ان بزرگوں نے درست فرمایا۔ میں بھی اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ مسعود خان اپنی ہی وضع کا سفارت کار ہے۔ جس نے فارن آفس میں نام چھوڑا۔ جسے ایک سے ایک کلیدی عہدہ محض اس کی اہلیت کی بنا پر ملا۔ جو وزارت خارجہ کا ترجمان بنا تو ترجمانی کا حق ادا کردیا اور میڈیا میں ہی نہیں عام عوام میں بھی مقبول ٹھہرا۔ ایک دلچسپ بات یہ کہ پاکستان میں تو سول سرونٹس صدارت کے عہدے پر فائز ہوتے آئے ہیں مگر مسعود خان AJK کے پہلے صدر ہیں جن کا تعلق سول سروس سے ہے۔ کشمیر میں آج تک اس منصب پر فائز ہونے والے 25 صدور میںسے5فوج سے تھے ۔ 4عبوری حیثیت میں آئے اور باقی سب کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تھا۔ اس منصب کیلئے مسعود خان کا انتخاب پاکستان کی سول سروس کیلئے بالعموم اور فارن سروس کے لئے بالخصوص اعزاز کی بات ہے جس کا اظہار فارن آفس والوں نے کھلے دل سے کیا ہے۔


.
تازہ ترین