• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی کئی سال سے معاشی اور مالی حالت قابل اطمینان نہیں تھی۔ اس سال ایسے آثار ظاہر ہورہے تھے کہ ٹیکسوں کا ہدف قریب قریب پورا ہوجائے گا۔ ترسیلات زر میں اضافہ ہوجائیگا، درآمدات و برآمدات کے درمیان خسارہ کم ہوجائے گا اور شرح نمو 4.5فی صد تک چلی جائے گی۔ مگر درمیان سال میں سیلاب اور دھرنوں نے اپنی لپیٹ میں لے کر اسٹیٹ بینک کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ سیاسی بحران اور سیلاب معیشت کے لئے خطرہ ہیں۔ خریف کی بعض فصلوں کو نقصان پہنچے گا، رسد کی زنجیر متاثر ہونے کا امکان ہے، مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ تجارتی خسارہ بیرونی خسارے پرغالب رہے گا۔ بینک کی شرح سود ایک فی صدی کمی کے مقابلے میں حسب دستور دس فی صد رہے گی۔ شرح نمو کا 4.1فی صد رہنا مشکل ہے۔
سیلاب ایک قدرتی عمل ہے گو اس کے بڑھتے ہوئے نقصانات میں انسانی خامیوں کا بڑا دخل ہے۔ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر اور دریائوں کے کمزور پشتوں کو مضبوط اونچا کرکے اس کے نقصانات کے اثرات کو گھٹایا جاسکتا ہے۔ سیلاب سے کس قدر نقصان ہوا۔ ماہرین نے اس کے تخمینے لگائے ہیں مگر سرکاری طور پر سیکرٹری خزانہ کے اعداد کچھ قابل بھروسہ نظر آتے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق359 افراد ہلاک ، 644 زخمی ، 4065دیہات متاثر،641 مویشی ہلاک ہوئے۔ 17لاکھ 8ہزار افراد بے گھر ہوئے 24لاکھ ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی سب سے زیادہ نقصان پنجاب میں زرعی شعبے کو پہنچا۔
سیاسی بحران سے روپے کی قدر گری اور240 ارب روپے کا نقصان ہوا، سکوک بانڈز کی فروخت میں تاخیر ہوئی، اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رک گئی۔ سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے عالمی امیج کو پہنچا، تین بیرونی ملکوں کے صدور نے اپنے دورے منسوخ کردیئے، اس میں چینی صدر کا دورہ منسوخ ہونا سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ وہ مختلف معاہدوں پر دستخط کرنے والے تھے اور بھاری رقم کی سرمایہ کاری بھی کرنے والے تھے۔ پاکستان اکثر معاملات میں اپنا تقابل بھارت سے کرتا ہے چنانچہ اس کو اس بات سے مزید دھچکا پہنچا کہ چینی صدربھارت گئے ، 12معاہدوں پر دستخط کئے اور بھارت میں 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا۔ چین آئندہ پانچ برسوں میں ریلوے، کسٹم اور خلائی شعبوں میں بھارت کو تعاون فراہم کرے گا۔ بھارت اور چین کے درمیان ایک عرصے سے سرحدی تنازع چلا آرہا ہے۔ چین نے اس کو طے کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ اسی دوران دو جماعتوں نے ملک میں دھرنوں کا آغاز کیا۔ ملک کی ایک مستند سیاسی جماعت کا ابتدا میں مطالبہ چند حلقوں میں دوبارہ انتخاب تھا جو بڑھتے بڑھتے وزیراعظم کے استعفے تک جاپہنچا۔ دوسری غیرمستند جماعت جس کا کوئی ایک رکن بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن نہیں ، ملک میں سیاسی انقلاب کی داعی ہے، جبکہ خود اس کو اپنے پروگرام کے خدوخال کا علم نہیں۔ حکومت کی مفاہمت کی نرم پالیسی سے یہ دھرنے طول کھینچتے رہے۔ دراصل یہ دھرنے پرجوش نعروں کی بدولت زندہ ہیں ورنہ ان میں ایسی ایسی کارگزاریاں عمل میں آئی ہیں کہ ان پر ہنسی آتی ہے، کہا گیا کہ بجلی ، گیس ، پانی اور فون کے بل ادا نہ کیجئے، ٹیکسوں کی ادائیگی سے گریز کیا جائے۔ ایک جعلی بجلی کے بل کو آگ لگادی گئی جبکہ اطلاع یہ ہے کہ نہ صرف سربراہ کا بل ادا ہوا بلکہ ایک سرگرم کارکن نے بھی اپنا بل ادا کیا اور صحافی کے سوال پر وہ مشتعل ہوگئے۔ ایک بزرجمہر نے مشورہ دیا کہ نوٹوں پر ’’گو نواز گو‘‘ لکھا جائے۔ حالانکہ اس طرح ہزار روپے کا نوٹ بھی ایک ناکارہ پرزہ ہوجاتا ہے اور اس سے نوٹ کے مالک کو مالی نقصان پہنچتا ہے۔ البتہ خوش اعتقاد مرید اس کو فریم میں لگا کر اپنا ڈرائنگ روم سجاسکتا تھا۔ شکر کہ یہ حکم واپس لے لیا گیا۔ دھرنے والوں کے لئے گزشتہ چار ہفتوں میں ایسے کئی مواقع آئے جب وہ اپنے کپڑوں کو گندگی کے چھینٹوں سے بچاکر عزت و آبرو سے اس دلدل سے نکل سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی انا اور ضد میں یہ مواقع ضائع کردیئے، اب بھی عید کا موقع ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اب ایک سربراہ نے اپنا طریق عمل بدل دیا۔ انہوں نے ایک بڑا جلسہ کراچی میں کیا جس میں ججوں کی تنخواہوں میں اضافے کی خوش خبری سنائی تاکہ وہ اطمینان سے انصاف کی ذمہ داریاں پوری کرسکیں نیز اساتذہ اور پولیس والوں کی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ ان زائد مقدمات کے لئے پیسہ کہاں سے آے گا۔
ابتدا میں یہ کہا جارہا تھا کہ دھرنے والوں کی پشت پر کوئی ہاتھ ہے مگر جب پیاز کے چھلکوں کی طرح پرت اترتے رہے تو ثابت ہوگیا کہ یہ ایک بڑی سازش ہے جس میں بعض بڑی طاقتیں ملوث ہیں اور لندن پلان میں یہ طے ہوا کہ کسی طرح چینی صدر کو پاکستان نہ آنے دیا جائے کیونکہ چینی سرمایہ کاری کی بدولت چین، گوادر کے توسط سے مغربی ایشیا کے وسط میں آجائے گا۔ اور گوادر سے خنجراب تک خشکی کے راستے نہ صرف چین کے تجارتی راستے کھل جائیں گے بلکہ اس کے سیاسی اثرات بہت گہرے ہوجائیں گے چنانچہ ان دھرنے والوں کو بڑی بڑی رقوم بیرونی ملکوں سے ملتی رہی ہیں جن سے جلسوں کے اخراجات دھرنا دینے والوں کے ناشتے اور کھانے کے اخراجات پورے کئے جاتے رہے ہیں، کہنے والوں نے تو یہ بھی کہا کہ اس میں اسرائیل تک کا ہاتھ ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے۔ یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا۔
تازہ ترین