• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی کچھ روز ہوئے لندن کے نہرو سنٹر میں شامِ غالب منائی گئی۔ مرزا کا نام بڑا ہے، اُس شام مجمع بھی بڑا تھا۔ کچھ کلام پڑھا گیا اور کچھ گفتگو ہوئی۔ اپنے وقت کے بڑے شاعر حضرت صفیر بلگرامی کی ایک تحریر پڑھ کر سنائی گئی۔ وہ غالب کے بڑے مدّاح اور شاگرد بھی تھے۔ ملاقات کے بے حد مشتاق تھے چنانچہ آرہ سے چل کر دلّی کے محلّہ بلی ماراں پہنچے جہاں مرزا رہتے تھے۔ یہ سنہ اٹھارہ سو پینسٹھ کے آس پاس کی بات ہے۔ اُس وقت مرزا غالب تقریباً اڑسٹھ برس کے تھے۔ یوں تو صفیر نے ملاقات کا نہایت ہی دلچسپ احوال لکھا ہے لیکن آج میں اس تحریر کا وہ حصہ نقل کر رہا ہوں جس میں مرزا کے کھانے کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ لکھتے ہیں’’ ایک دن فرمایا کہ آپ کہتے ہوں گے کہ غالب کچھ اچھی اچھی چیزیں کھاتا ہوگا اور میرے کھانے کے لئے معمولی پُلاؤ،قورمہ،قلیہ، شیرمال وغیرہ بھیج دیتا ہے۔ آج آپ میرا کھانا دیکھئے۔ الغرض گیارہ بجے دن کو آپ کا کھانا ایک سینی میں آیا۔ ایک دسترخوان بچھایا گیا۔ اُس پر ایک چینی کے پیالے میں شوربہ اور ایک میں بھرا ہوا گھی، گرم کیا ہوا۔ اور ایک تانبے کی رکابی میں پاؤ بھر گوشت کی بوٹیاں اور ایک تانبے کی رکابی میں تین پھلکے روے کے، اور ایک رکابی تانبے کی خالی۔ پھروہ رفیق آکر بیٹھے۔ انہوں نے پھلکوں کے کنارے توڑ توڑ کرٹکڑے ٹکڑے کئے اور خالی رکابی میں رکھے اور پھر ایک چمچے سے تھوڑا گھی اور تھوڑا شوربہ لے کر ان ٹکڑوں کوملایا اور خوب ملا کر، حلوے کی طرح دو لقمے کے انداز سے ایک طرف رکابی میں رکھ دیا۔ اتنے میں حضرت پلنگڑی سے اُترے اور دسترخوان پرآ بیٹھے۔ پہلے وہ دونوں لقمے نوش جاں فرمائے اُس کے بعد آدھا پیالہ شوربا اور آدھا پیالہ گھی کا پی گئے، البتہ آدھ سیرسے گھی کم نہ ہوگا۔ بعد اس کے پھلکوں کے دو چھلکے لے کر، شوربا ملا ملا کر کھائے۔ اُس پر پھر بقیہ گھی اور شوربا پی لیا اور فرمایا، بس میرا کھانا یہی ہے۔ شب کو پاؤ بھر بادام مُقشّر، نمک میں تلوا کر کھالیتا ہوں۔‘‘
اچھّے زمانے تھے۔ غالب ستّر سال سے زیادہ جئے۔ آج ہوتے اور آدھ سیر پگھلا ہوا گھی پی لیتے تو خدا جانے کتنی بار انجو گرافی ہوتی اور کتنی مرتبہ انجو پلاسٹی ہوتی اور سینے میں کتنے ہی اسٹنٹ داخل ہو چکے ہوتے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ایک اور بازار سے لایا جاتا، شاعر کا سینہ چاک کیا جاتا۔(اس میں سے شعر اُبل پڑتے)۔ پھر اس میں پیوند کاری ہوتی اور ایک دوسرا پائے کا استاد کہتا:
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
وجۂ تسمیہ اس لمبی چوڑی تمہید کی یہ ہے کہ ابھی پچھلے دنوں ’عالمی یومِ قلب‘ منایا گیا یعنی دنیا بھر میں دل کا دن، دل کو بچائے رکھنے کے شعور کا دن۔ یہ مرض اس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ دنیا کو تشویش ہوچلی ہے۔ شاعروں کی مانیں تو یہ مرض عین عالمِ شباب میں ہوتا ہے لیکن عالمی ادارۂ صحت کی مانیں تو دل کا مرض صرف بوڑھے اور موٹاپے کا شکار لوگوں ہی کو نہیں ہوتا۔ اب تو چھریرے بدن والے جوان بھی کسی خطرے کی گھنٹی کے بغیر بس ایک دن مرجاتے ہیں۔ سکتۂ قلب کا قصہ اتنا عام ہو چلا ہے کہ مہذب ملکوں کوعام لوگوں کی صحت پرآنے والے اخراجات کی طرف سے فکر لاحق ہو چلی ہے۔ پہلے خبر تھی کہ یہ مرض برطانیہ میں سب سے زیادہ جانیں لینے لگا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ یہ وبا دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ ہارٹ اٹیک اور ہارٹ فیل اب انگریزی کے لفظ نہیں رہے۔ برطانیہ میں خاص طور پر ہماری طرف کے حلوہ پوری ، پکوڑے دہی بڑے جیسی خوراک کھانے والوں نے مریضوں کی تعداد کہیں کی کہیں پہنچا دی ہے اور یہاں ہرسال چوہتّر ہزار لوگ دل کی بیماری کے شکار ہوتے ہیں۔ اسے یوں سمجھ لیجئے کہ سالانہ ہر پانچ مردوں میں ایک اور ہرآٹھ عورتوں میں ایک خاتون دل کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ کچھ علامتیں ظاہر ہوا کرتی تھیں۔ عام طور سے سینے کے درد سے پتہ چل جاتا تھا کہ حضرتِ دل کے طور طریقے ٹھیک نہیں۔ یہ انجائنا کا درد خطرے کی گھنٹی کہلا تا تھا۔ لوگ کچھ احتیاط کر لیا کرتے تھے ۔ اب قدرت نے یہ سہولت واپس لے لی ہے۔ اچھے بھلے توانا لوگ ایک روز دل کو تھام لیتے ہیں اور اسپتال کی طرف دوڑائے جاتے ہیں ۔ یہ منظر عام ہو چلا ہے تو سوال یہ ہے کہ میں یہ بھاشن کیوں دے رہا ہوں۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ میں ان تمام مرحلوں سے گزر چکا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اپنے پڑھنے والوں کو اپنے تجربے میں حصہ دار بناؤں۔
میرے والدین اور بھائی بہنوں میں اس قسم کے دکھ درد عام تھے جن کا سلسلہ جاکر دل کے مرض سے ملتا ہے۔ (اب میں اپنے بچّوں اور ان کے بچّوں کو سمجھایا کرتا ہوں کہ اپنا خیال رکھیں)۔ جب تک بی بی سی کی ملازمت میں دوڑ دھوپ کرتا رہا، توانا رہا۔ اس وقت میرے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ ذیابیطس میرے سر پر منڈلا رہی ہے۔ میرے ریٹائرہوتے ہی اور گھر بیٹھتے ہی ایک عجب معاملہ ہوا۔ مجھے رات دن پیاس رہنے لگی۔ ڈاکٹر کے پاس گیا تومیں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ جب اس نے بتایا کہ مجھے ذیابیطس ہے، اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ شاید اس خیال سے نہال تھا کہ ایک اور مستقل گاہک آگیا ہے۔ میرا علاج شروع ہوا۔ میں نے چھان بین کرکے پوری فہرست تیار کرلی کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور خاص طور پر یہ کہ کیا نہ کرنا چاہئے۔ سنہ دو ہزار چار میں وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ دل کا دورہ پڑا۔ سینے میں درد رہنے لگا تھا۔ کھانے کے بعد پیدل چلنا محال ہورہا تھا۔ ایک شام سینے میں درد اٹھا اور زبان کے نیچے دوا کا اسپرے کرنے کے باوجود وہ نہیں گیا۔ ہدایت یہ تھی کہ دوا اثر نہ کرے تو فوراً ایمبولنس بلا لو۔ایمبولنس والوں کو فون کرکے فون بند ہی کیا تھا کہ دروازے پر گھنٹی بجی۔ زیادہ سے زیادہ بیس منٹ لگے اور میں اسپتال کے بستر پر تھا۔ فوراً ہی دیکھ بھال شروع ہوگئی۔ چار پانچ روز بعد میں گھر لوٹ آیا۔ اس دوران میری ایک رگ میں تار ڈال کر دل تک پہنچایا گیا جس کے اندرونی سرے پر چھوٹا سا غبارہ لگا تھا۔ وہ غبارہ جب دل کی ایک شریان میں اس جگہ پہنچ گیا جہا ں چربی نے جم کر خون کی گزرگاہ کو تنگ کردیا تھا وہاں غبارے میں باہر سے ہوا بھر کر اسے یوں پھلایا گیا کہ اس نے چربی کو دبا کر شریان کھول دی۔ یوں دل کی رگوں میں خون دوڑنے لگا۔ یہ سب ہو گیا لیکن اصل علاج اب شروع ہوا جس کا دوسرا نام ہے ’احتیاط‘۔ وہ میں کررہا ہوں اوراس کے صلے میں جو مہلت مجھے ملی ہے اسی کی دین ہے کہ آج یہ تحریر کررہا ہوں۔ سوچتا ہوں لگے ہاتھوں اپنے پڑھنے والوں کو دو چار کام کی باتیں بتادوں۔ لاکھوں باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ کھانا کم کر دیجئے۔ اگر دوروٹیاں کھاتے ہیں تو ڈیڑھ کھائیے۔ بدن کے تمام اعضا ٔکی طرح معدہ بھی اشارے بھیجتا ہے۔ مگر کبھی کبھی گمراہ بھی کرتا ہے۔ جب آپ ڈیڑھ روٹیاں کھا چکیں گے تو یہ اصرار کرے گا کہ ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ لیکن اگر آپ ٹھان لیں کہ اب اور نہیں کھائیں گے تو ذرا دیربعدمحسوس ہوگا کہ پیٹ بھر گیا ہے۔ بس پھر آپ خود کو ہلکا محسوس کریں گے اور اگلے کھانے کے وقت اچھی بھوک لگے گی یہاں تک کہ کھانا بھی اچھا لگے گا۔ اگر بیگم نے پکایا ہے تومراسم بھی خوش گوار ہوں گے جو دل کے مرض سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔
دو چار باتیں اور۔ ان چار چیزوں کے بغیر کام نہیں چلتا اور یہ چاروں جان لیوا ہو سکتی ہیں۔ نمک، شکر، تیل یا گھی اور سرخ گوشت۔ ان کا استعال کم کرتے کرتے بہت کم کر دیجئے۔ آخری بات یہ کہ روز صبح کلونجی کا تیل ایک چمچہ پینے میں نقصان کچھ نہیں، فائدے بہت ہیں۔
دل کے درد کی بات چلی ہے تو اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سنادوں۔ میں بارہ تیرہ برس کا تھا کہ سینے میں بائیں جانب درد سا رہنے لگا ۔ والد صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس چلے جاؤ۔ میں گیا تو اس نے پوچھا، کیاہوا۔ میں نے کہا ، دل میں درد ہوتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر بولا ، ابھی سے؟وہاں بیٹھے ہوئے سارے ہی مریض ہنسے۔ سوچتا ہوں وہی ڈاکٹر اب مل جائے اور اسے بتاؤں کہ دل میں درد ہوتا ہے تو کہے گا،ابھی تک؟
تازہ ترین