• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہزاروں میل دور نریندرمودی کو آم اور ان کی والدہ کو ساڑھی اور شالیں بھجوا نے والے نواز شریف گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے وزیراعظم ہاؤس سے ایک فرلانگ پر جھلساتی دھوپوں اور برستی بارشوں میں کھلے آسمان تلے بیٹھی سینکڑوں ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کیلئے ابھی تک دو لفظ ہمدردی یا تسلی کے بھی ادا نہیں کر پائے ۔نواز شریف نے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری تو پوری کی پوری دیکھی اور سنی مگر اپنے ملک کی اپنی پارلیمنٹ میں اپنے سیاسی حریف شاہ محمود قریشی کی ایک تقریر بھی سننا گوارا نہ کی ،ہمار اکروڑوں خرچ کر کے اقوام متحدہ میںفلسطینی اور کشمیری عوام پر ہوتے ظلم وستم پر کڑھتے وزیراعظم چند ہفتے قبل وزیراعظم ہاؤس کے سامنے 3پاکستانیوں کو جان سے مار دینے ،درجنوں کو گھائل اور بیسوؤں کو قید ی بنالینے والی پولیس کی کارکردگی کو سراہ رہے تھے ۔دن رات عوام عوام کرتے اور اسی عوام کے کندھوں پر اعلیٰ منصبوں تک پہنچے ہوئے ہمارے معزز پارلیمنٹرین اپنی پارلیمنٹ لاجز والی سرکاری رہائش گاہوں سے عارضی طور پر صرف اس لیئے شفٹ ہوئے کہ دھرنے والوں کی بدبواب ناقابل برداشت ہو چکی تھی اورڈر تھا کہ ان کی وبائی امراض کہیں انہیں نہ لگ جائیں ،زہریلی گیس کی برستی بارش کے دوران اندھوں کی طرح بھاگتے ’’دھرنا بازوں ‘‘ سے مقدس پارلیمنٹ کا جنگلا ٹوٹا تو کوئی رعایت نہیں،مقدمے پہ مقدمہ ۔مگر ابھی تک اس ملک کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والے سب معزز ،قومی پرچم جلانے والے سب محترم ،دشمنوں کی گودوں میں پلے بڑھے سب واجب احترام ،ریمنڈ ڈیوس کے ساتھی محب وطن اور عافیہ صدیقی کے ڈیڑھ سالہ بچے تک کو آقا کے حوالے کر دینے والے ہر رعایت کے مستحق اور کل تک انجلینا جولی کیلئے میوزیکل ڈنر کرتے ،بندوق ،خنجر اور تلواریں پیش کرتے ہوئے بچھ بچھ جانے والے شیر پاؤ کو آج تحریک انصاف کا دھرنا ’’شام کی محفلیں ‘‘ لگتا ہے ۔یہ ہے ہمارا وہ آج کہ جس کے رحم وکرم پر 18کروڑ عوام ہیں اور جسے ہم بھگت رہے ہیں۔پہلے ہیلی کاپٹر ،پھر 35گاڑیوں کا کارواں اور آخر میں وہ بلٹ پروف گاڑی جس کے سیلابی دلدل میں پھنسنے کے بعد دو فرلانگ پیدل چل کر بلاول بھٹو زرداری جب اپنے درجن بھر سیاسی ہدایتکار وں کے ساتھ سیلاب میں ڈوبی خلق خدا کو حوصلہ دینے کیلئے چنیوٹ کے ایک نواحی قصبے میں پہنچے تو اس پورے قافلے میں کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ کیمرے آن ہیں اور سب کچھ ریکارڈ ہو رہا ہے ۔ایک ہدایتکار بولا ! یہاں پانی کم گہرا ہے ،چیئرمین کو یہاں سے پانی میں اتارو ،جونہی بلاول پانی میں اترے تو دوسری آواز آئی ،ذرا سامنے سے شارٹ لیں ،بہت اچھا شارٹ آئے گا اور یوں سامنے سے عکسبندی ہونے لگی ۔منظر بدلتا ہے ۔ بلاول بھٹو کو دو سیلاب زدہ بوڑھی عورتوں کے پاس لے جایا جاتا ہے ۔ایک آواز گونجتی ہے ’’اماں جی ،بینظیر شہید دا پتر آیا جے ‘‘ ننگے سر ،خالی آنکھوں اور محرمیوں زدہ جھریوں سے بھرے چہرے والی اماں جی جونہی اٹھ کر بلاول بھٹو زرداری کو پیار کرنا شروع کرتی ہے تو ایک ہدایتکار بولا ’’اس طرف سے شوٹ کرو ،اس طرف سے اماں مکمل طورپر کیمرے میں آرہی ہے اور پھریوں چند ہی لمحوں میں اماں جی مکمل طور پر اپنے سب غموں سمیت فلم اور کیمرے کامستقل حصہ بن گئی ۔ یہ ہے ہمارا وہ کل کہ جسے ہمارے بچے بھگتیں گے۔گذشتہ ایک ماہ سے خاکی یونیفارم اور لانگ شوز پہنے سیلابی دکھ درد میں دن رات ایک کردینے والے شہباز شریف کو دیکھ کر جب ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ 3حکومتیں کرنے اور 2سیلاب بھگتانے والے خادم اعلیٰ کا عملی طور پر کیا گیا کوئی ایک بھی ایسا اقدام کہ جس کے بعداگلے آنے والے سیلاب کی شدت اور تباہی میں 5فیصد ہی کمی ہوئی ہو ،جب کوئی جواب نہیں ملتا تو پتا چلتا ہے کہ یہ ہے ہماری اس گڈ گورننس کی حقیقت جس کے چرچے ترکی سے چین تک پہنچے ہوئے ہیں !
مجھ جیسے آئے روز چمکتے چہروں ،سنورے بالوں، بناشکن کے کپڑوں اور لش لش کرتی گاڑیوں میں اپنے بااثرملزمان کو پیشیوں پر آتے جاتے وکٹری نشان بناتے تو دیکھتے ہی رہتے ہیں ۔مگر دو ہفتے قبل جب ایک رات وفاقی دارالحکومت کے شکرپڑیاں چوک پر اڑھائی سو کے قریب پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے شیر دل جوانوں کے ہاتھوں ’’دھرنا بازوں ‘‘ کی سرعام خاطر تواضع ہوتے اور رسیوں سے باندھ باندھ کر انہیں جانوروں کی طرح گاڑیوں میں پھینکنے کا نظارہ دیکھا تو اپنے اس قانون کاوہ اصل چہرہ بھی سامنے آگیا جو کل کی طرح آج بھی بااختیاروں کیلئے ڈھال اور ریلیف بنا ہوا ہے جبکہ بے اختیاروں کیلئے وہ کل کی طرح آج بھی گلو بٹ ہی ہے !
مختلف مقدمات میں نامزد امین فہیم کو جب وزیراعظم نواز شریف ،صوبائی حکومتوں کے چیفس ،وفاقی وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ بڑے ٹھاٹھ سے ملکی سلامتی کے ایک اجلاس میں بیٹھے دیکھا تو اپنی سیاست کا اصل چہرہ بھی دیکھنے کو مل گیا ،پھر کل تک 28گاڑیوں کے حصار میں محو سفر وزیر اعظم جمالی کو آج اپنی گاڑی خود چلاتے دیکھ کر اور کل تک اسلام آباد کی مارکیٹوں میںعام لوگوں کی طرح شاپنگ کرنے والے ممنون حسین کو آج جب پورا مری سیل کرکے سیر کروائی جاتی ہے تو اپنے اس آئین کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے ۔جو پل بھر میں ایک سطحی سے انسان کو وہاں پہنچا دیتا ہے کہ جہاں بعد میں وہ ایمبولینس کے سائرن پر بھی ہڑبڑا کر اٹھ جاتا ہے کہ میرا پروٹوکول آگیا ۔
مگر دوستو ! گو کہ اسی کل ،اسی آج ،اسی آئین ،اسی قانون ،اسی سیاست اور اسی گڈگورننس کے ہوتے ہوئے گذشتہ چند ہفتوں میں پچھلی 6دہائیوں سے عوام کو لڈو کی سانپوں والی گیم کھلاتے حکمرانوں کے اب رنگ میں بھنگ پڑچکی ۔ ڈی چوک سے شروع ہوئے ’’گو نواز گو‘‘کے نعرے براستہ سرگودھا نیویارک تک جا پہنچے ۔ ایک ریڑھی والا سکھر میں قائم علی شاہ کی 28گاڑیاں روک چکا ،رمیش اور رحمان جہاز سے اتارے جا چکے ،حمزہ کو لاہور میں اپنی تقریر ادھوری چھوڑنا پڑی ،لندن سازش والی فلم پہلے شو میں ہی پٹ گئی ۔بچپن سے منبر پر بیٹھے مسلسل عالم غیب میں جھانکتے کپتان کے ناراض قلم کارسمیت تمام دانشوروں کی دھرنوں کو عالمی سازشیں قرار دینے کی سب کہانیاں دم توڑ چکیں۔ کراچی، لاہور، میانوالی اور ملتان اپنا فیصلہ سنا چکے۔دھرنے عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ، اپنے ہونے اور اپنے حقوق کا شعور گھر گھر تک پہنچ گیا اور تبدیلی محسوس ہونے لگی ۔ مگر چونکہ یہ پاکستان ہے وہ پاکستان کہ جہاں ہماری یاداشت نہ ہونے کی حد تک کمزور ہے ،جہاں پہلے بھی آزادی ،تبدیلی اور انقلاب ہائی جیک ہو چکے ۔جہاں پہلے بھی کئی عمران اپنے خوابوں سمیت ہماری بے حسی کی منوں مٹی تلے دفن ہیں ۔جہاں اپنے شہید اور مخالف غدار کہلاتے ہیں۔ جہاں بصیرت پرستی کی بجائے عقیدت پرستی چلتی ہے۔ جہاں قرآن فہمی کی بجائے فوکس قرآن خوانی پر ہوتا ہے۔ جہاں ایشوز ڈسکس ہونے کی بجائے ہر کہانی شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔جہاں ہر ڈکٹیٹر جمہوریت کیلئے اور ہر جمہوری حکمران ڈکٹیٹر شپ کیلئے کوشاںرہتا ہے ۔جہاں ہر وقت دین ودنیا میں شارٹ کٹ کی تلاش جاری رہتی ہے اور یہ وہ پاکستان ہے کہ جہاں اگر 4افراد باہمی اتفاق سے ایک سمت میں جارہے ہوں گے تو پانچواں ان کے کندھوں پر ہوگااور وہ پاکستان جہاں ہر کوئی آزادی ،تبدیلی اور انقلاب کا خواہاں تو ہے مگر اس خواہش کے ساتھ کہ یہ سب کچھ اس کے گھراور زندگی سے دور رہے اور قربانی کوئی اور دے۔لہذا اس پاکستان میںنظام کی تبدیلی کسی معجزے سے کم نہیں ۔سو منزل دور ہے اور راستہ کٹھن ۔مگر وقت کی عدالت لگ چکی ۔اصل اور اصلیت ظاہر ہو رہی ہے ،نقل اور نقلی پن چھپائے چھپ نہیں رہا ،بچائے بچ نہیں رہا اور انسان کیا ہمارا تو گذشتہ کل ہمارا آج اور بلکہ آنے والا کل بھی کسی مجذوب کی طرح چوراہوں پر ننگا ناچ رہا ہے ۔فیصلوں کی ان گھڑیوں میں اب یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ یا تو اپنے ڈرائنگ روموں ،دفتروں ، محفلوں اور کھانے کی میزوں پر بیٹھ کراپنی جمہوریت اور اپنے مخدوم جاوید ہاشمی کی قابل رشک صحت پر خوش ہوتے رہیں،بحثیں کرتے رہیں یا پھرخوف کے سارے بت توڑ کر اپنے ملک ،اپنی زمین اور اپنے بچوں کیلئے عملی طور پر کچھ کر لیں ۔ کیونکہ بقول احمد فراز:۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی شمع جلاتے جاتے
تازہ ترین