• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کیا شک ہے کہ جلسے ، جلوس، دھرنے اور احتجاجی مظاہرے جمہوریت کا حصہ ہیں۔ یہی وہ نظام ہے جو فرد یا جماعت کو اظہاررائے یا اختلاف کی اجازت دیتا ہے۔ شاہانہ ، آمرانہ یا شخصی حکومتیں البتہ اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ لیکن اظہار رائے کی یہ آزادی بہر حال ملکی قوانین، قاعدوں اور ضابطوں کی پابند ہوتی ہے۔ ایسے احتجاجی مظاہروں کو اپنی تہذیبی قدروں اور جمہوری روایات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس امر کا لحاظ رکھا جانا چاہئے کہ ملکی و قومی مفاد کے تقاضے کیا ہیں۔ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ اقتدار کی خواہش ہی کو منزل مقصود سمجھ لیا جائے اور اس کے لئے ہر حربہ درست خیال کرتے ہوئے آئینی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔
اسلام آباد کے دھرنوں سے ملک کو کیا حاصل ہوا، قوم نے کیا پایا ، پاکستان کے مفادات کو کتنا سہارا ملا اور خود دھرنے والوں کے قد کاٹھ میں کتنا اضافہ ہوا، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹرطاہر القادری نے تو شاید کچھ نہیں کھویا۔ وہ کبھی بھی ہماری سیاست کا قابل ذکر کردار نہیں رہے۔ ووٹ کے میدان میں انہیں ہمیشہ شکست ہی کاسامنا کرنا پڑا۔ 2002 کے انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ ان خدمات کے صلے میں ملی جو انہوں نے پرویز مشرف ریفرندم کے وقت سر انجام دی تھیں۔ ایک ذہین شخص کے طور پر انہوں نے سمجھ لیا کہ انتخابات کے ذریعے وہ اقتدار کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ لہٰذا انہوں نے سال ڈیڑھ سال بعد ہی استعفیٰ دیا اور دیار غیر تشریف لے گئے۔ اب وہ اس کوشش میں ہیں کہ اختیار و اقتدار میں نمایاں حصہ پائیں لیکن اس مقصد کے لیے وہ انتخابات کا آزمایا ہوا راستہ نہیں اپنانا چاہتے۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح دستوری جمہوری نظام کی بساط الٹے ، کوئی ماہرین وغیرہ کی حکومت بنے جس کی باگ ڈوران کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ ایک کوشش انہوں نے 2012میں ’’سیاست نہیں ریاست‘‘ کے عنوان سے کی تھی اور اب دوسری کوشش وہ’’انقلاب مارچ ‘‘ کے پرچم تلے کر رہے ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ وہ اب کی بار بھی کامیاب نہیں ہو سکے لیکن انہوں نے کچھ نہیں کھویا ۔کیونکہ انتخابات ان کی تر جیح نہیں ۔ رائے عامہ پر پڑنے والے اثرات سے انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ البتہ یہ ضرور ہو گا کہ آئندہ کیلئے ان کے انقلابی نعروں کی کشش خاصی کم ہو جائے گی۔ عمران خان کا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔ سترہ سال قبل تحریک انصاف کے قیام سے لیکر اب تک انہوں نے انتخابات کے ذریعے ہی قسمت آزما ئی کی ہے۔ اسے اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ علامہ صاحب کی طرح خان صاحب نے بھی پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں بہت نمایاں کردار ادا کیا تھا اور انہیں بھی 2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست مل گئی تھی۔ خان صاحب نے استعفیٰ تو نہیں دیا لیکن وہ مکمل طور پر غیر فعال رہے۔ حتی کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے رکن کے طور پر ان کی کسی کار کردگی کا حوالہ نہیں ملتا۔2008 کے انتخابا ت کا انہوں نے بائیکاٹ کیا۔ البتہ 2013 کے انتخابات کے لئے وہ زبردست تیاری کیساتھ میدان میں اترے۔
عمران خان نے تبدیلی کے نعرے کیساتھ زبردست انتخابی مہم چلائی۔ بڑے بڑے جلسے کئے۔ معاشرے کے مختلف طبقات خصوصاً نوجوانوں میں بیداری کی لہر اٹھائی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں انتخابات میں شاندارکامیابی نصیب ہوئی۔ تحریک انصاف 7563,504 ووٹ لیکر ملک کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ اس سے کم تھے 68, 22,958) )لیکن اس کی نشستیں زیادہ رہیں ۔ پی پی کو 31 عام سیٹیں حاصل ہوئیںاور تحریک انصاف کی 27۔خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ملا کر کل 35 نشستیںہو گئیں۔ قومی اسمبلی میں اتنے اراکان کی موجودگی کچھ کم کامیابی نہ تھی۔ اس سے بھی بڑھ کریہ کہ تحریک انصاف کو ایک اہم صوبے ، خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع بھی مل گیا۔ یہ ایک آئیڈیل صورتحال تھی۔ پی ٹی آئی ایک طرف خیبر پختونخوا میں مثالی کار کردگی دکھا کر سارے ملک کی عوام کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھی تو دوسری طرف عمران خان اپنی پارلیمانی پارٹی کے ذریعے وفاقی حکومت کی کڑی گرفت کر کے اسے دبائو میں لا سکتے تھے۔ اگر وہ صبر، ہمت اور تدبر کیساتھ اس حکمت عملی پر عمل پیرا رہتے تو یقینی طور پر 2018 کے انتخابات میں ان کی کامیابی کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جاتے۔ اسے تحریک انصاف ہی نہیں ، ملک و قوم کی بھی محرومی سمجھنا چاہئے کہ عمران خان نے ایجی ٹیشن کا راستہ چنا۔ انہوں نے اپنی ایک دھرنا تقریر میں کہا تھا کہــــ ’’میںفاسٹ بولر ہوں اور فاسٹ بولر زیادہ انتظار نہیں کر سکتا ‘‘ ۔شاید اسی جلد بازی نے انہیں دھرنا سیاست پر اکسایا۔ غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا اوربعض کالم نگاروں نے ان کی توقعات میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا تھا۔ وہ اپنے خیالوں میں وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کر چکے تھے۔ نتائج ان کی امیدوں کے مطابق نہ نکلے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس صورت حال کا جائزہ لیکر کوئی راستہ چنتے ۔لیکن یہاں پر پھر کچھ لوگوں نے انہیں باور کرا دیا کہ زبردست دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا اور ان کی کرسی پر نواز شریف نے قبضہ کر لیا۔ حقائق عمران خان کے اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے 31حلقوں پر امیدوار ہی کھڑے نہیں کئے۔ان کے 141امیدواروں میں سے صرف 27کو کامیابی ملی۔ 81امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں کیونکہ ان میں سے کوئی 12.5فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر سکا۔ اس کے8 13امیدوار تیسرے نمبر پر رہے۔ساٹھ دن اچھی طرح چھان بین کر لینے کے بعد پی ٹی آئی نے صرف 30حلقوں میں دھاندلی کی شکایت کی۔ گویا س نے تسلیم کر لیا کہ 241حلقوں میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی ۔ تیس میں سے صرف بیس حلقے ایسے ہیں جن میں مسلم لیگ ن فاتح رہی ۔ کہا گیا کہ 35حلقوں میں ہار جیت کا مارجن ، مسترد شدہ ووٹوں سے کم ہے اور اصل میں 35پنکچر نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے لگائے۔ اب خود وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ ان 35میں سے صرف 15حلقے پنجاب میں ہیں اور مسلم لیگ (ن) نے ان میں سے صرف 6سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ پنجاب بھر میں 2ہزار سے کم مارجن کیساتھ جیتی جانے والی سیٹیں صرف تین تھیں۔ ان تینوں کی زد مسلم لیگ (ن) پرپڑی جو ہار گئی۔ 114 سیٹوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی فتح کا مارجن 20ہزار ووٹوں سے زائد تھا۔ تحریک انصاف ان عدادو شمار کا جواب نہیں دیتی۔ خان صاحب دھاندلی کی تحقیقات چاہتے ہیں اور وسیع تر انتخابی اصلاحات کا پیکج۔ حکومت یہ دونوں باتیں مان چکی ہے۔ لیکن دھرنوں اور جلسوں کی سیاست تھمنے میں نہیں آ رہی۔ یہ سیاست پاکستان کو کس بھاو پڑ رہی ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں لیکن اس کا کیا علاج کہ ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘۔
تازہ ترین