• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18 اکتوبر2007ء کو 17گھنٹے طویل جلوس کو اپنی منزل تک پہنچنے سے روکنے کے لیے جو تباہ کن کارروائی کی گئی اور اگلی صبح کراچی میں جوعظیم الشان جلسہ عام منعقد نہیں ہو سکا تھا ، وہی جلسہ سات سال بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری نے 18 اکتوبر2014ء کو اسی جگہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ایک صحافی کے طور پر اس جلسے کی کوریج کے لیے میں گذشتہ سات سال سے انتظار کر رہا ہوں ۔ اس دن بھی مجھے ہی اس جلسہ کی کوریج کرنا تھی لیکن کراچی کی شاہراہ فیصل پر ’’ کارساز ‘‘ کے مقام پر قیامت برپا ہونے سے یہ جلسہ منعقد نہیں ہو سکا تھا ۔ اگر اس دن یہ جلسہ منعقد ہو جاتا تو نہ صرف آسمان ایک بار پھر وہ منظر دیکھتا ، جو انسانی تاریخ کے دھارے تبدیل کر دیتا ہے بلکہ آج پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی یہ نہ ہوتا ، جو اس وقت ہے ۔ اس دن کراچی میں انسانوں کا سمندر امڈ آیا تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 8 سالہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئی تھیں۔ کراچی ایئرپورٹ کےچاروں طرف تمام شاہراہوں اور سڑکوں پر میلوں تک صرف انسانی سر نظر آرہے تھے ۔ محترمہ کے استقبال کے لیے ملک کے دیگر حصوںسے آنے والے قافلوں کو کراچی جیسے بڑے اور کشادہ شہر میں داخل ہونے کے راستے نہیں مل رہے تھے ۔ استقبالی جلوس کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر پہنچنا تھا اور یہیں جلسہ عام منعقد ہونا تھا مگر جلسہ کے مقام پر بے نظیر بھٹو کی آمد سے قبل ہی ہر طرف انسانی سر نظر ارہے تھے ۔ دنیا یہ دیکھنا چاہ رہی تھی کہ مزار قائد کے ارد گرد کی شاہراہوں پر اتنے لوگ کیسے سما سکیں گے ۔ اگرچہ یہ شاہراہیں بہت وسیع ہیں لیکن اس دن شاہراہوں کی تنگی بہت شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی تھی ۔ سارے قافلوں کو جلسہ گاہ ہی پہنچنا تھا ۔ہم صرف یہ تصور کر سکتے تھے کہ جلسہ گاہ کا منظر کیا ہو گا لیکن یہ قافلے کبھی جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے کیونکہ استقبالی قافلوں پر بموں سے حملہ کر دیا گیا تھا۔ دہشت گردی کی اس وحشیانہ اور سفاکانہ کارروائی میں 179 افراد جاں بحق اور 600 سے زائد زخمی ہوگئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کا یہ سمندر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تھا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سات سال کی تاخیر ہو گئی ہے لیکن یہ عظیم الشان جلسہ ضرور منعقد ہونا چاہئے کیونکہ اس جلسے کو روک کر پاکستان کے سیاسی ارتقاء کے عمل کو روکنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے بعد کوئی ترقی پسند ، لبرل اور روشن خیال سیاسی جماعت پاکستان میں کبھی کوئی بڑا جلسہ منعقد نہ کر سکی ۔ خوف اور دہشت کی ایسی فضاء پیدا کر دی گئی تھی کہ لوگ ان سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں جانے سے گھبرانے لگے ۔ بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوسرے شہروں میں خوف و دہشت کے اسی ماحول میں انتخابی جلسے منعقد کیے تو ان کی اس جسارت پر راولپنڈی میں 27 دسمبر کو ایک بار پھر 18 اکتوبر دہرایا گیا اور محترمہ کو ان کے ایک سو سے زائد جانثاروں کے ساتھ شہید کر دیا گیا ۔ لیاقت باغ راولپنڈی کا وہ جلسہ آخری جلسہ عام تھا ۔ پھر کسی ترقی پسند اور روشن خیال سیاسی جماعت نے کوئی چھوٹا یا بڑا جلسہ منعقد کرنے کی ہمت نہیں کی ۔ 18 اور 19 اکتوبر 2007ء کو کارساز کے مقام پر برپا ہونے والی قیامت صغریٰ کے بعد وہ شاہراہیں ، سڑکیں اور گلیاں خالی ہو گئی تھیں ، جہاں بم دھماکوں سے کچھ لمحے پہلے تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔ ان خالی سڑکوں کا وہ منظر اب تک یاد ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیے میدان خالی کرا لیا گیا ہو ۔ 18 اکتوبر کو مزار قائد پر جو عظیم الشان جلسہ نہیں ہو سکا تھا ، وہاں بعد ازاں بہت سے جلسے منعقد ہوئے لیکن وہ منظر نہیں بن سکا ، جس کا تصور ہم نے 18 اکتوبر کے جلسے کے حوالے سے ذہنوں میں بٹھا رکھا ہے ۔ پاکستان کے لوگوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ اب ملک میں جن سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جلسے منعقد ہو سکتے ہیں ، صرف وہی سیاسی قوت ہیں ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں تو ان سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم بھی نہیں چلانے دی گئی ، جو انتہا پسندی اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف تھیں اور جنہوں نے جمہوریت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں ۔ خوف و دہشت کے اس ماحول کا سب سے زیادہ فائدہ دو سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کو ہوا ۔ ان میں سے ایک جماعت آج حزب اقتدار ہے اور دوسری حزب مخالف کی ’’ مقبول عوامی ‘‘ جماعت ہے ۔ جن لوگوں نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں نشستیں تقسیم کیں ، وہی ان دونوں سیاسی جماعتوں کی ’’ لڑائی ‘‘ بھی کرا رہی ہیں اور ان کے درمیان ثالث کا کردار بھی ادا کر رہی ہیں ۔یہ تاثردیاجارہا ہے کہ اس ملک میں صرف یہی دو سیاسی جماعتیں ہیں ۔ ایسی صورت حال تب پیدا ہوتی ہے ، جب اسٹیبلشمنٹ اور عسکریت پسندوں کی مرضی عوام کی خواہش اور امنگوں پر حاوی ہوجاتی ہے ۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بڑے بڑے سیاسی جلسے کر رہے ہیں ۔ حالانکہ دائیں بازو کی بعض دوسری سیاسی جماعتیں بھی اتنے ہی یا ان سے بھی بڑے جلسے منعقد کر سکتی ہیں لیکن وہ بوجوہ جلسے منعقد نہیں کر رہیں اور خالی میدان میں اس وقت عمران خان ہی واحد کھلاڑی ہیں ۔ یہ بات بھی بہت غور طلب ہے ۔ ان حالات میں 18 اکتوبر والا جلسہ ضرور منعقد ہونا چاہئے اور قافلے کارساز کے مقام سے ہی روانہ ہونے چاہئیں ۔ اس جلسے کی تیاری کے لیے اگلے روز وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت سندھ کونسل کا اجلاس تھا ، جس میں پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل سینیٹر تاج حیدر نے فیض کا جب یہ شعر پڑھا کہ ’’ قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم ۔ ۔ اور نکلیں گے عشاق کے قافلے ‘‘ تو سندھ کونسل کے ارکان زبردست جذباتی ہو گئے ۔ سات سال کے وقفے کے بعد اس جلسے کی کوریج کا اشتیاق بڑھ گیا ہے ۔ اب اس جلسے سے محترمہ بے نظیر بھٹو خطاب نہیں کریں گی ۔ اس جلسے میں وہ لوگ بھی نہیں ہوں گے ، جو تاریک راہوں میں مارے گئے اور دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے ۔ گڑھی خدا بخش میں جن کی قبروں پر ’’ میں بھٹو ہوں ‘‘ کے کتبے نصب ہیں لیکن پھر بھی وہ جلسہ ہونا چاہئے ، جو سات سال پہلے نہیں ہو سکا تھا ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ صحافی اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں 18 اکتوبر کے جلسے کی کوریج کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ 18اکتوبر کا جلسہ نہ ہونے کے بعد جو بڑے بڑے جلسے منعقد کیے گئے ، ان میں انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ تو بہت بلند آواز میں لگایا گیا لیکن نعرہ لگانے والوں کے چہروں سے لگتا ہے کہ نہ انقلاب آئے گا اور نہ ہی تبدیلی رونما ہو گی ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پیپلز پارٹی کوئی انقلابی سیاسی جماعت ہے لیکن 18 اکتوبر کو جو لوگ جمع تھے ، ان کے جارحیت سے عاری اور معصومانہ جذبوں سے معمور چہروں کو دیکھ کر تاریخ خود اپنے دھارے تبدیل کر دیتی ہے۔ 18اکتوبر کو دما دم مست قلندر کے نعروں کی جو گونج اچانک ختم ہو گئی تھی ، وہی گونج آج کی سیاسی فضا میں دوبارہ بلند ہونی چاہئے ۔ یہ پاکستانیوں پر تاریخ کا قرض ہے ۔ اللہ کرے 18اکتوبر کا جلسہ ہو جائے اور خالی ہونے والا سیاسی میدان پھر بھر جائے تاکہ ارتقائی عمل کو روکنے والوں سے تاریخ اپنا حساب لے سکے ۔
تازہ ترین