• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغلوں کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی برصغیر پاک و ہند میںمختلف فتنوں نے بھی سراٹھایا۔ان میں جگہ جگہ یورش اور سلطنت کا چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ جانا شامل تھا۔اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی استعمار نے برصغیر میں اپنے پاؤں جمالیے مگر کیا کہئے انگریز نے آتے ہی اس پورے خطے میں یورش کو ختم کرکے ایک مضبوط انتظام وانصرام قائم کردیا۔جس میں انتظامیہ ،عدلیہ اور افواج تک شامل تھے۔ایک مضبوط نظام کے تحت یہاں نہروں کا جال بچھایا گیا۔انتظامی یونٹ اور صوبے تخلیق کئے گئے اور اس میں مقامی لوگوں کو نمائندگی کا حق دار ٹھہرایا گیا۔جس میں سب سے چھوٹی سطح پربھی سفید پوش،نمبردار،انعام خور،ذیلدارشامل تھے۔اسی طرح مقامی سطح پر لوگوں کو ڈسٹرکٹ بورڈ تک رسائی حاصل ہوئی اور پورے ملک میں شفا خانے ، اسکول قائم ہوئے۔اسی برصغیر میں ایک فعال سول سروس بھی انگریز کا ہی کارنامہ ہے۔اس خطے کے اہل لوگ اپنی میرٹ اور قابلیت کے بل بوتے پر سول سروس میں شامل ہوئے۔قیام پاکستان کے وقت انڈین سول سروس کےانہی بیدار مغز مسلمان افسران نے ہندوستان میں بہتر مواقع موجود ہونے کے باوجود پاکستان کا انتخاب کیا۔جن میں سے کئی پاکستان کے قابل فخر سپوت قدرت اللہ شہاب،قاسم رضوی اور ظفر الاحسن،آغاشاہی شامل ہیں، جن لوگوں نے بڑی نیک نامی کمائی اور مملکت خداداد کو کھڑاکرنے میں اپنا حصہ ڈالا مگر کیا کہئے دیگر اداروں کی طرح سول سروس بھی شکست وریخت سے محفوظ نہ رہ سکی۔جہاں ملک میں دیگر عوارض نے سر اٹھایا ،وہیں سول سروس کی شامت بھی آئی ۔کہیں 307 سے زائد افسران کو بیک جنبش قلم ملازمت سے فارغ کردیا گیااور کہیں نظم و نسق میں بہتری کی خاطر بھٹو صاحب جیسے زیرک عوامی نمائندے نے بھی سول افسران کوملازمت سے نکالنا ضروری سمجھا۔ان تمام اقداما ت کی وجہ سے سول افسران میں بے اعتمادی نے جنم لیا اور آج کل سول سروس کی جو حالت ہے اس میںانحطاط کی وجہ قانونی،آئینی گارنٹی کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔اب تو یہ حالت ہے کہ لوگ کھلم کھلا ڈی ایم جی’’نـ‘‘ کی باتیں کرتے ہیں ،مطلب صاف ہے کہ اگر ملازمت کرنی ہے اور ڈھنگ کی پوسٹنگ لینی ہے تو حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانا لازم ہوگا۔ورنہ باہر جانے کا آپشن کھلا ہے۔انگریز کے وقت میں ڈیرہ غازی خان جیسے دور افتادہ ضلع کی سب ڈویژن بھی اہمیت کی حامل تھی ،جہاں ٹی این کول جیسے مشہور و معروف انڈین سول سرونٹ نے بھی اپنا ابتدائی عرصہ ملازمت مکمل کیا۔اسی طرح انگریز نے لیہ کو ڈیرہ جات کا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا۔وہاں پر مدفون ایک انگریز کمشنرکی قبر پر تو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ایک بلب بھی بطور دیہ روشن کیا جاتا تھا۔انہی لوگوں نے اس خطے کی کایہ پلٹنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ملتان ضلع میں قاسم باغ کے ساتھ چند انگریز افسران کی قبریں ان کی اس خطے سے وابستگی ظاہر کررہی ہیں۔سید ہاشم رضا جیسے مشہور سول سرونٹ بھی بہاولپور کے ڈپٹی کمشنر رہے۔جن کو قائد اعظم محمد علی جناح کے گورنر جنرل ہونے کے وقت کراچی کا واحد ڈپٹی کمشنر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔یہ وہی ہاشم رضا تھے جنہیں سفارش کرنے کے لئے کسی نے قائد اعظم کو کہا تو بابائے قوم نے جواب دیا کہ
I have no jurisdiction to interfare in the working of District Majestrate,if u feel aggrieved against any of his decision please go to the High court.
پتہ نہیں اب ایسے حکمران کہاں چلے گئے ہیں۔کوئی شک نہیں ایسے سیاسی رہنما اب ناپید ہوتے جارہے ہیں۔سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے حوالے سے حکومت پنجاب کے کردار پر ایک علیحدہ کالم تحریر کروں گا مگرحالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ایک مضبوط انتظامی مشینری کی اہمیت کواجاگر کیا ہے۔جنرل مشرف کے جرائم تو کافی ہوں گے مگر جس جرم کا تذکرہ نہیں کیا جاتا وہ ان کا خود ساختہ نظام بھی تھاجس میں سب سے زیادہ کم بختی ضلعی حکومتوں کی آئی اور ضلعی انتظامیہ کا ایک مضبوط ڈھانچہ گراکر ایک لولالنگڑاڈپٹی کمشنر ڈی سی او میں تبدیل کردیا گیا۔جس کے نہ دانت ہیں نہ اس کی کاٹ محسوس ہوتی ہے۔اس طرح کے انتظامی تجربات نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے ۔آج نہ تو قیمتیں کنٹرول میں ہیں نہ کھاد ملتی ہے،نہ زمیندار کو باردانہ ملتا ہے،نہ پٹواری سرکار کے قابو آتا ہے۔میں پوچھتا ہوں کہ نوآبادیاتی اقتدار کی بات کرنے والے صاحب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تمام ادارے ایک نو آبادیاتی ورثہ ہی تو ہیں۔کیا عدلیہ،عسکری افواج سمیت دیگر اسی دور کی پیداوار نہیں۔ایک مرتبہ لال جواہر نہرو سے ولبھ بھائی پٹیل نے کہا کہ آپ انڈین سول سروس کو مکمل ختم کردیں ،کیونکہ یہ ہمیں برطانوی سامراج کی یاد دلاتی ہے۔نہرو نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ان لوگوں نے وہ کیا ہے جو نہرو بھی نہیں کرسکے۔ جواہرلال نہرو بھی سی ایس ایس کے امتحان میں فیل ہوگئے تھے۔انڈین سول سروس ہی پاکستانیوں کے لئے سی ایس پی یعنی سول سروس پاکستان بنی۔وہاں آئی اے ایس تو پاکستان میں پی اے ایس بنی۔بھارت میں انڈین پولیس سروس اور پاکستان میں وہی پولیس سروس آف پاکستان ۔انگریز کا دیا ہوا یہ ایک مضبوط نظام ہے۔کیا ہی بھلا ہوتا ہم انتظامیہ و سول سروس کا وہی اسٹرکچر اپنے ملک میں بحال رکھتے اور ان کی کمی کوتاہی بہتر تعلیم و تربیت سے دور کرتے۔پاکستان میں سول خدمات ادا کرنے والے افسران ملک کے وفادار ہیں نہ کہ تاج برطانیہ کے۔دوسروں کی نیت پر شک کرنا کہاں کی شرافت ہے ۔دیکھئے ہمیں تو دین میں دوسروں کے بارے میں ظن سے کام لینے سے منع کیا گیا ہے۔ہمیں آجکل کے حالات میں یہ دیکھنا ہو گا کہ مختلف ادوار میں جو مختلف کمیشن بنائے گئے وہ سب اس پر متفق تھے کہ سول افسران کو سیاسی وابستگی سے دور رہنا چاہئے اور ان کو قانون کی حکمرانی کے لئے رات دن کام کرنا چاہئے۔اس سارے نظام کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد میں اس رائے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں پاکستان میں فعال و فرض شناس سول سروس کی ضرورت ہے۔پڑوس میں دیکھئے تو ہندوستان جیسے بڑے ملک کا تمام انتظامی ڈھانچہ اپنے کندھوں پر اٹھائے کھڑی ہے،بنگلہ دیش کی لنگاہر جگہ لوگ اپنے اپنے ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔آج بنگلہ دیش کا کابینہ سیکریٹری بنگلہ دیش کا سب سے بڑا انتظامی مہرہ ثابت ہوا ہے۔آج پاکستان کے سول افسران ڈھیٹ ہوچکے ہیں انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آج جان بھی دے دی تو بھی ان کی کوئی قدر نہ ہوگی ،مجھے اسامہ معود،کیپٹن علی رضا او رکراچی کے وہ فرض شناس افسر یاد آرہے ہیں جنہوں نے اپنی جان دے دی مگر ہم نے تو رسمی طور پر انہیں کوئی تمغہ بھی دینے کی زحمت نہیں کی۔آج بھی ہمارے درمیان ایماندار ،فرض شناس افسر موجود ہیں ۔جن کی عقل و دانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت بہتری کرسکتی ہے ،مگر پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ سول افسران کا سیاسی وابستگی کے بندھن پرونے سے اجتناب کرنا ہوگا۔اگر مضبوط و بہتر انتظامی مشینر ی ہوتی تو کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش نہ آتا۔بلدیاتی ادارے مضبوط ہوتے اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے گزشتہ چھ سالوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے ڈھل مل سے کام نہ لیا ہوتا تو آج سیلاب کی تباہ کاریوں سے نپٹنے کے لئے ایوان وزیراعلی کے بجائے ہر ضلع میں ایک وزیر اعلی اپنا اپنا ضلع بچا رہا ہوتا۔تاریخ گوا ہ ہے کہ حکومتیں کبھی ضد ،انا اور اختیارات کی کنجی بغل میں دبانے سے نہیں چلا کرتیں۔اختیارات کو ہمیشہ بانٹ کر حکومت کی جاتی ہے۔ضد اور انا نے تو قیصر و کسری ٰ کو ہلا کر رکھ دیا،ہم کیا چیز ہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ اداروں کو مضبوط کرے تو پاکستان کے حالات خود بخود بہتر ہوناشروع ہوجائیں گے اور اگر ہم نے اب بھی ایسا نہ کیا تو داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
تازہ ترین