• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خان صاحب! پلیز جلدی نہ کریں۔ صبر اور محنت سے کام لیں۔ اپنے ان ہم عصروں سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ بھارت کے ’’نریندر مودی‘‘ کس طرح وزارتِ عظمیٰ کے اعلیٰ عہدے تک پہنچے؟ یہ سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی پیدائش 17 دسمبر 1950ء کو گجرات میں ہوئی۔ مودی کا سیاسی سفر 1984ء میں شروع ہوا۔ آر ایس ایس نے اپنے جن ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا، ان میں مودی بھی شامل تھے۔انہوں نے ایڈوانی کی سومناتھ، ایودھیا یاترا اورمرلی منوہر جوشی کی کنّیاکماری کشمیر یاترا میں حصہ لیا۔ 1995ء میں انہوں نے گجرات میں انتخابات کے پرچار کی ذمہ داری نبھائی۔ پھر اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ 2001ء میں گجرات کا وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے اپنے خیالات اور رویوں پر نظرثانی کی۔ وہ گجرات جو انفرا اسٹرکچر کے اعتبار سے تباہ حال تھا۔ جہاں روزگار نہ تھا، بیسیوں بیماریوں کا اڈّہ اور سینکڑوں جرائم کی آماجگاہ تھا۔ مودی نے گجرات کا میئر اور وزیر اعلیٰ بننے کے بعد گجرات کی حالت اور عوام کی قسمت ہی بدل ڈالی۔ مودی نے دنیا بھر کی کمپنیوں اور ملک کے تاجروں اور صنعت کاروں کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور صنعتیں لگائیں۔ گجرات کے عوام کو نوکریاں اور ملازمتیں دیں۔ گجرات کی ترقی میں کردار ادا کریں۔ انہیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ مودی نے ایک کام ایسا کیا جس کی وجہ سے دھڑا دھڑ فیکٹریاں اور کارخانے لگنے لگے۔ وہ یہ کہ انہوں نے ٹیکس فری کردیا، چنانچہ چند ہی سالوں میں گجرات کا نقشہ یکسر تبدیل ہوگیا۔عوام خوشحال ہونے لگے۔ معاشی پہیہ چل پڑا۔ پھر مودی کی انتخابی مہم میں سارا روپیہ پیسہ بھی انہی مالدار کمپنیوں نے پانی کی طرح بہایا اور خفیہ چالوں سے جتوایا۔ آج وہ بھارت کےطاقتور وزیراعظم ہیں۔
خان صاحب! ترکی کے رجب طیب اردگان سے سیکھئے۔ طیب 26 فروری 1954ء میں پیدا ہوئے۔ طیب اردگان مزدور کے بیٹے ہیں۔ یہ بچپن ہی سے نفیس طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ جب اسکول جاتے تو کپڑے پھٹے پرانے تو ضرور ہوتے، لیکن صاف ستھرے ہوتے۔ اس زمانے میں استنبول میں شہری سہولتوں کا بے حد فقدان تھا۔ بدعنوانی، ناانصافی، گندگی اور منشیات کا شہر شمار ہوتا تھا۔ باسفورس جیسی تاریخی جگہ کو کچرا کونڈی بنادیا گیا تھا۔ طیب اردگان اسکول آتے جاتے جب چاروں طرف پھیلی مختلف قسم کی گندگیاں اور تعفن پھیلا دیکھتے تو ان کا دَم گھٹنے لگتا۔ ایک دن اس نے دعا کی کہ اگر اللہ نے مجھے خدمت کا موقع دیا تو میں اس شہر کا نقشہ بدل دوں گا۔ واقعتاطیب اردگان نے استنبول کا ناظم بن کر شہر کی حالت ہی بدل دی۔ یاد رکھیں! ترکی میں سیکولر فاشزم نے کئی بار عوام کی منتخب حکومتوں کا دھڑن تختہ کیا۔ جمہوریت پر کئی شب خون مارے گئے۔ ترک فوج نے کئی بار جمہوریت کے فلسفے کو پائوں تلے روندا۔ 1990ء کی دہائی میں اربکان نے شاندار کامیابی حاصل کرکے حکومت بنائی تو اسے چند ماہ سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔ نجم الدین اربکان کے ساتھ طیب اردگان نے ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ جدوجہد شروع کرکے 2003ء کے عام انتخابات میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے بعد شاندار اقتصادی اصلاحات اور بہتر عوامی خدمت کے ذریعے عوام کے دل جیت لئے۔ ترکی کے آئین کو چونکہ سیکولر فوج کا تحفظ حاصل ہے۔ جمہوریت قائم ہونے کے باوجود اصل اختیارات فوج کو حاصل ہیں۔طیب اردگان نے سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔فوج سے تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی پالیسی اپنائی اور پھر اس پر عمل پیرا رہے۔ سب کے ساتھ افہام و تفہیم، ڈائیلاگ اور مذاکرات کا راستہ اپنایا۔ صحت، تعلیم ہر شخص کے لئے لازم اور فری کردی گئیں۔ سڑکوں کا جال بچھادیا گیا۔ ترکی کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔ مردِ بیمار کو مردِ توانا بنادیا تو پھر عوام نے بھی ان کو گرنے نہیں دیا۔ ہر الیکشن میں جتوایا، ہر موقع پر فتح دلوائی۔ حالیہ صدارتی الیکشن میں طیب اردگان کو بارہویں صدر کے طور پر منتخب کرلیا گیا ہے۔
خان صاحب! ایران کے محمود احمدی نژاد سے سبق حاصل کیجیے۔ احمدی نژاد 28 اکتوبر 1956ء میں لوہار کے گھر پیدا ہوئے۔ 2003ء میں تہران کے ناظم بنے۔ میئر کی نامزدگی سے پہلے بہت کم لوگ ان کے نام سے واقف تھے۔ جب تہران کا میئر نامزد کیا گیا تو انہوں نے اپنے پیشرو اصلاح پسند میئر کی طرف سے کی جانے والی بہت سے تبدیلیوں کو ختم کردیا۔ شہر میں مغربی طرز کے فاسٹ فوڈ ریستوران اور فحاشی و جرائم کے اڈّے ختم کردئیے۔ محمود احمدی نژاد دارالحکومت تہران کے میئر ہونے کے باوجود ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے رہے۔ میئر کی سرکاری رہائش گاہ اور سرکاری گاڑی بھی استعمال نہیں کی۔ طرزِ زندگی انتہائی سادہ رہا۔ 2005ء میں جب صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تب بھی وہ ایران کی قومی سیاست میں کوئی جانا مانا نام نہیں تھے، لیکن صدارتی انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر مبصرین کو حیران کردیا۔ انتخابات جیتنے کے بعد احمدی نژاد نے انقلابِ ایران کی اسلامی اقدار اور ایران کو تیل سے حاصل ہونے والی دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا۔ احمدی نژاد نے ایران کے پسے ہوئے غریب اور معاشی طور پر پسماندہ طبقوں کی معاشی ترقی کے لئے کئی اقدامات کیے۔ انہوں نے ملک سے بدعنوانی اور کرپشن کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ صدر بننے کے بعد امریکی مخالفت کا شدت سے سامنا کرنا پڑا۔ ایٹمی پروگرام پر بھی عالمی اعتراض کی وجہ سے مسلسل ان پر دباؤ بڑھتا رہا، لیکن ان حالات میں بھی انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ احمدی نژاد امریکی اور مغربی دنیا میں جتنے غیر مقبول رہے اتنے ہی اپنے عوام میں ہردلعزیزرہے۔ 12 جون 2009ء میں ہونے والے انتخابات میں احمد نژاد نے واضح اکثریت حاصل کی۔ دوسری مرتبہ ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی کامیابی میں پسے ہوئے عوام، نچلے درجے اور غریب طبقے نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ محمود احمدی نژاد 2013ء تک ایران کے صدر رہے۔ ایرانی عوام نے ان کا ہر سطح پر ساتھ اور ہر موقع پر فتح دلوائی۔ آج بھی ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔
اب آئیے! عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف۔ خان صاحب پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا۔ کینسر کا شوکت خانم ہسپتال بناکر قوم پر احسانِ عظیم کیا۔ نمل یونیورسٹی بناکر بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ اپنی ان کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ 25 اپریل 1996ء کو ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ پاکستان تحریک انصاف کا نعرہ ’’انصاف، مساوات اورپڑھا لکھا پاکستان ہے۔‘‘ عمران خان کی طرف سے پاکستان کے موجودہ نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کئی حل پیش کیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کا مڈل کلاس لوگوں پر گہرا اثر ہے۔ 2013 ء کے الیکشن میں تحریک انصاف ایک مضبوط پارٹی بن کر اُبھری۔ 76 لاکھ ووٹ لے کر 34 قومی نشستیں حاصل کیں۔ انتخابات کے بعد اللہ نے عمران خان کو ایک صوبے کی حکومت بنانے کی توفیق دی۔ یہ چھوٹی ذمہ داری تھی۔ اگر عمران خان اور اس کی پارٹی اپنی تمام تر توجہ صوبے پر مرکوز رکھتے۔ خیبرپختونخوا میں مثالی امن قائم کرتے۔ تعلیم، انصاف، روزگار اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی جیسےگمبھیر مسائل پر قابو پاتے۔ خیبر پختونخوا کو مثالی اور فلاحی صوبہ بنانے کو مقدور بھر کوشش کرتے تو آئندہ انتخابات میں مرکز میں بھی انہی کی حکومت ہوتی۔ اس وقت تحریک انصاف کی سینیٹ میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے۔ بالفرض مرکز میں بھی حکومت مل جاتی ہے تو کس طرح کوئی قانون پاس اوربل منظور کرواپائیں گے؟ اگر آپ کی جماعت مستعفی ہوگئی تو سینیٹ سے بھی فارغ ہوجائے گی۔ خان صاحب! پلیز جلدی نہ کریں۔ آپ قومی اسمبلی میں رہتے ہوئے اصلاحات لائیں۔
تازہ ترین