• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
بلاول بھٹو۔آپ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔
آپ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بیٹے ہیں،آپ سندھ کے بیٹے ہیں،آپ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا غرور ہیں،آپ دھرتی کے فرزند ہیں،پ قوم کی آخری امید ہیں،آپ غریبوں، ہاریوں، محنت کشوں اور اہل ِفکر و دانش کا آسرا ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نہ صرف شہید بھٹو کے بعد تیسری نسل کے لیڈر ہیں بلکہ وہ ایک تیسرے عہد میں سیاست کررہے ہیں،جس میں دنیا پرایک سپر پاور حکومت کررہی ہے ۔ فی الحال اس کے مقابلے میں کوئی بلاک نہیں ہے ۔ حالات اور زیادہ تلخ ہیں ۔ اس وقت عالمی سیاست دہشت گردی کے شکنجوں میں جکڑ چکی ہے۔ کرپشن ، موقع پرستی اور سازشوں میں ہی نئے عالمی نظام کی بقا ہے ۔ لبرل اور اعتدال پسند جمہوری قوتوں کے لئے عوام سے رابطہ کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ پوری دنیا سیاسی انحطاط کا شکار ہے ۔
سیاست میں بونے آ گئے ہیں۔ آپ ذرا بھٹو کے ساتھیوں اور قائدین ، شہید بے نظیر بھٹو کے دور کے لیڈروں کا مقابلہ آج کے دور سے کرلیں ان میں زیادہ تر لوگ جاہل، بے بصیرت اور دنیا میں رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں سے نابلد ہیں۔ نان ایشوز کی سیاست نے دنیا کو پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ پارٹی کے لئے بھی حالات زیادہ سازگار نظر نہیں آتے ۔ پیپلز پارٹی میں وہ سیاسی ٹیم نظر نہیں آتی ، جو پارٹی کی تنظیم اور کارکنوں سے واقف تھی ، فکری طور پر آراستہ تھی اور نظریاتی سوچ سے مالا مال تھی ۔ وہ ٹیم سیاسی جدوجہد اور قربانیوں میں بھی شامل رہی تھی۔ پارٹی قیادت کے افکار ، پالیسیوں اور انداز سیاست سے نابلد نہیں تھی ۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے کارکن احساس بےگانگی اور مایوسی کا شکار ہیں ۔ پارٹی میں نیا خون نہیں آرہا ہے ۔ پیپلز پارٹی مئی 2013ء کے عام انتخابات میں صرف سندھ میں کامیابی حاصل کرسکی ہے ۔ پنجاب میں اس کی سیٹیں نہیں ہیں ، جو کبھی اس کی طاقت کا مرکز تھا ۔ سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اپنے عہد کے طالب علموں، لیبر لیڈروں ، ہاری رہنماؤں ، دانش وروں کے ساتھ جو رابطہ تھا ، وہ بھی اب بوجوہ نظر نہیں آتا ہے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی اسی طرح رابطہ رہا ہے ۔ دونوں رہنماؤں کا اپنا اپنا تھنک ٹینک ہوتا تھا جو پارٹی کے اندر اور باہر موجود تھا، جو اب پیپلز پارٹی میں نہیں ہے لیکن سب کچھ مایوس کن بھی نہیں ہے۔ آج بھی پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے ۔ ہرصوبے، ہر شہراور ہر جگہ موجود ہے ۔ پیپلز پارٹی میں آج بھی سب سے زیادہ نشستیں لینے کی صلاحیت موجودہے ۔ ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتیں بدلتے ہوئے حالات میں غیر متعلق ہورہی ہیں۔ دوسری امید افزابات یہ ہے کہ آج بھی پاکستان کی سیاست میں قیادت کا خلاء ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے پاس ایک عظیم سیاسی ورثہ ہے اور ان کی شخصیت بھی کرشمہ ساز ہے ۔ وہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں انہیں ملکی اور عالمی سیاست کا ادراک بھی ورثے میں ملا ہے ۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ یونی پولر ورلڈ اپنے تضادات کا شکار ہورہی ہے ۔ تاریخ کے بدترین، اعصاب شکن اور تاریک دور کے خاتمے کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں ۔ رشین فیڈریشن ایک بار پھر ایک طاقت کے طور پر ابھر رہی ہے ۔ اس نے شام اور یوکرائن کے ایشوز پر اسٹینڈ لیا ہے۔ چین ایک بڑی طاقت بن چکا ہے ۔ پورا مشرق ایک بڑے اور طاقت ور اکنامک بلاک کے طور پر ابھررہا ہے ۔ انڈیا بھی سپر پاور بننے کے قریب ہے ۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں بھی بیداری کی نئی لہرآئی ہوئی ہے ، جس کی لپیٹ میں اس خطے کے دیگر ملک بھی آئیں گے ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اپنے تضادات بھی زیادہ گہرے ہوچکے ہیں ۔ ان حالات میں بلاول بھٹو زرداری نہ صرف پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا اثاثہ ہیں بلکہ ان کا پاکستان اور اس خطے کی سیاست میں ایک اہم کردار نظرآرہا ہے۔ انہیں اس بڑی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اپنے سیاسی ورثے کی عظیم روایات کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ انہیں نان ایشوز کی سیاست سے دور رہ کر اپنی شخصیت کو متنازع ہونے سے بچانا ہو گا ۔ اس وقت فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے پیدا کیا گیا یہ تاثر ختم کیا جائے کہ یہ پارٹی صرف سندھ تک محدود ہے ۔ یہ پورے ملک کی پارٹی ہے۔ سندھیوں کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والوں،پنجابیوں، سرائیکیوں، بلوچوں، پختونوں اور دیگر قومیتوں میں پیپلز پارٹی کی ’’ اونر شپ ‘‘ کا احساس دوبارہ اجاگر کرنا ہو گا ۔ پارٹی کا قومی ، لبرل، فیڈرل، جمہوری اور عوامی امیج دوبارہ اجاگر کرنا ہوگا ۔ دوسری بات جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کے درمیان وہ خلیج ختم کرنا ہو گی ، جو حالات کی وجہ سے غیر شعوری طور پر بڑھتی جا رہی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کو ملک بھر کے کارکنوں کے ساتھ رابطے کا ایک موثر میکانزم تیار کرنا ہو گا ۔ پارٹی کے اندر اور باہر اپنے تھنک ٹینک بھی بنانا ہوں گے ، جو نہ صرف حالات کا تجزیہ کرسکیں اور پارٹی کی قیادت کو فیڈ بیک دے سکیں بلکہ پالیسی اور حکمت عملی وضع کرنے میں بھی ان کا کردارہو۔ بدلتے ہوئے حالات ، میڈیا کے کردار اور نئی نسل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پارٹی کو از سر نو منظم کرنا ہو گا ۔ چیلنج بہت بڑے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کے لئے غیرمعمولی سیاسی ورثے کے ساتھ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی کردار ادا کرنے کا موقع ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ شہید بی بی کا ملک کے طول و عرض اور دنیا بھر میں اپنے کارکنوں، ہمدردوں، آزادی کی تحریکوں سے وابستہ لوگوں ، حریت پسندوں اور ترقی پسند سوچ کی حامل شخصیات کے ساتھ ، جو عملی اور ذہنی رابطہ تھا ، وہ اب نہیں ہے۔ آپ کو بھی اپنے کارکنوں، جیالوں، ہمدردوں اور خیر خواہوں سے رابطہ رکھنا ہو گا۔ انہیں ایک نیا خواب دینا ہو گا اور نیا ولولہ دینا ہو گا۔ تمام لوگوں کو احساس دینا ہو گا کہ وہ آپ سے رابطہ میں ہیں۔
یہی دیئے جلیں گے تو روشنی ہو گی
میں اپنی بات شہید بھٹو کے اس حوالے کے ساتھ ختم کروں گا کہ امکانات تو بہت زیادہ ہیں اور دائو پر بھی بہت کچھ لگا ہوا ہے ۔
تازہ ترین