• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کابل کے مرکز میں واقع امریکی یونیورسٹی پر گزشتہ دنوں ہونے والے حملہ کا الزام بلا توقف پاکستان پر لگا دیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کو بد نام کرنے کی سازش کا حصہ ہے حقیقت کچھ اور ہی ہے بھارتی کرایہ کا قاتل اور فسادات برپا کرنے کا ماہر مانے جانے والا اجیت کمار دوول جو را کے لئے کام کرتا ہے اس میں ملوث بتایا جاتا ہے جن کاموں میں را خود ملوث ہونا نہیں چاہتی ان کاموں کے لئے کرائے کے لوگوں سے کام نکالتی ہے اجیت کمار بھارت میں اپنے حلقہ اثر میں کالے ناگ کے نام سے پہچانا جاتا ہے یہ شخص بلوچستان میں ہونے والی ہر تخریبی کارروائی کا ماسٹر مائنڈ ہوتا ہے اس کے تعلقات برہمداغ سے بھی بہت خوش گوار ہیں چونکہ افغانستان میں پاکستان سے زیادہ بھارت کا عمل دخل ہے اس کے باوجود افغان صدر اشرف غنی نے نا صرف پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے اکثر مشاورت بھی کرتے رہے ہیں افغان صدر کے معمولی سے پاکستان کی طرف جھکائو کو بھارت برداشت نہیں کر پا رہا اب اس نے بیک وقت امریکہ اور افغان حکمرانوں کو اپنی اس مذموم حرکت سے پاکستان کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان نے امریکہ سے بلوچستان میں بھارتی مداخلت روکنے کے لئے کہا ہے ہوسکتا ہے یہ اس کا رد عمل ہو امریکہ نے پاکستان کو یقین تو دلایا ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا اورپاکستان کی سالمیت اور قومی وحدت کا احترام کرتا ہے امریکی ایوان نمائندگان اور بعض سینیٹروں نے بلوچستان کے مسئلے کو سب سے اہم اور پہلے واضح کیا ہے بلوچستان کے شورش زدہ علاقے جہاں را کے ایجنٹ رات دن سر گرم عمل ہیں اور بلوچ تارکین وطن افراد کو بھرپور طریقوں سے امداد مہیا کر رہے ہیں ان ہی شورش زدہ افراد میں سے کچھ افراد آزاد بلوچستان کے لئے امریکی سرپرستی اور حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں جبکہ امریکی حکام کا واضح بیان سامنے آچکا ہے کہ وہ آزاد بلوچستان کی حمایت نہیں کرتے، اس کے باوجود بھارت اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہا، اس نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کردیاہے اس طرح وہ کشمیر میں جاری اپنی دہشتگردی اور مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان اپنے زخم چاٹتا رہے اور بھارت اپنا خونی کھیل کھیلتا رہے۔ بھارت کی اس ظالمانہ دہشت گردی پر اقوام عالم بھی خاموش ہے اگر ایسا کوئی واقعہ کسی غیر مسلم ملک میں پیش آیا ہوتا تو نہ صرف تمام بڑی قوتیں اور اقوام عالم بھی اٹھ کھڑی ہوتی کشمیر میں چونکہ مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے اس لئے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ کلیسا تو چاہتا ہے کہ مسلمان جس طرح بھی ہو منتشر اور کمزور کردئیے جائیں شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں مختلف مقامات پر خصوصاً بلوچستان میں اپنی مذموم کارروائیاں کر رہا ہے کشمیری مسلمانوں کو بھی صرف اس لئے ظلم تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسلمان اپنی آزادی کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے اور وہ پاکستان کی حمایت کا برملا اعلان کر رہا ہے پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں جو بھارتی حکمرانوں کو آگ لگانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اب کشمیریوں کو دبانا پہلے کی طرح ممکن نہیں رہا اب یقیناً ان کی آزادی کی یہ مہم کامیابی حاصل کر کے ہی دم لے گی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی سے نوازے گا محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
کراچی جو معاشی حب ہے منی پاکستان ہے آج کل بڑی ہیجانی کیفیت کا شکار ہے گزشتہ دنوں قائد تحریک متحدہ کے پاکستان مخالف بیان اور نعروں نے نا صرف کراچی بلکہ پورے وطن عزیز میں ہلچل مچا دی قوم حیران و پریشان ہے کہ اتنی اہم اور بڑی جماعت کے قائد کو کیا ہو گیا کہ وہ پاکستان کی مخالفت پر کیوں اتر آیا بات صرف زبانی کلامی نہیں رہی بلکہ عملی رخ اختیار کر گئی میڈیا ہائوس پر حملہ آور ہونا کوئی معمولی یا غیر اہم بات نہیں یہ بات تو طے ہے کہ ان کے پیرو کار ان کے جاں نثار اپنے لیڈر کی خواہش پر سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد جناب ڈاکٹر فاروق ستار نے احتیاطی اقدام کے طور پر صرف قائد کے بیان سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے قائد سے نہیں کیونکہ ان کے کہنے کے مطابق قائد تو جماعت کے بانی ہیں ان سے علیحدگی کیسے ممکن ہے ڈاکٹر فاروق ستار نے بظاہر جو علم بغاوت بلند کیا ہے دراصل وہ حفاظتی اقدام ہے اگر کہیں ان کی جماعت بغاوت کے الزام میں بند کردی جائے تو ان کی صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نشستوں کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا تھا اور اقتدار میں ان کا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل سکتا تھا اور یہ فیصلہ بھی کہنے والوں کے مطابق لندن کی ہدایت کے مطابق ہی کیا گیا ہے۔ جناب فاروق ستار کے انقلابی بیان کے بعد ہی لندن سے جناب واسع جلیل اور ندیم نصرت کے بیان نے واضح کردیا کہ اس اعلان لا تعلقی کے پس پشت بھی لندن کے احکامات کار فرما ہیں ان دونوں حضرات کے مطابق رابطہ کمیٹی کراچی پاکستان کا رابطہ لندن سے بر قرار رہے گا۔ ویسے بھی متحدہ سے ٹوٹ کر الگ ہونے والے مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ ہے کیونکہ متحدہ کے آئین کے مطابق قائد تحریک کو سپریم پاور حاصل ہے جب تک متحدہ کا آئین تبدیل نہیں کیا جاتا اس لا تعلقی کی کوئی اہمیت یا حیثیت نہیں ہے مائنس ون فارمولا لاگو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ تمام طاقت قائد تحریک کو حاصل ہے وہ جب چاہیں جس کو چاہیں معطل کرسکتے ہیں برخاست کر سکتے ہیں چاہے وہ رابطہ کمیٹی ہو صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن اس لئے فی الحال جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہاتھی کے دانت کا معاملہ ہے کہ کھانے کے اور دکھانے کے اور یوں تو متحدہ ایک نئی شکل اور اپنے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ نمودار ہو رہی ہے اب جبکہ بلدیاتی انتخابات میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمینوں کے انتخاب کے بعد تکمیل کو پہنچ چکے ہیں ہوسکتا ہے کہ کراچی میں ایک نئی صبح طلوع ہونے کو ہو متحدہ کی موجودہ رابطہ کمیٹی یا ذمہ دار ان کو موجودہ صورتِ حال میں کئی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور مطالبات عوام کا رد عمل خود متحدہ میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلیاں جبکہ قائد کی دل آزار تقریر پر وفاقی حکومت بھی متحرک ہوگئی ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ساتھ گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ قائد تحریک کے خلاف تمام شواہد برطانیہ کو دے دئیے گئے ہیں الطاف حسین کی تقریر نے تمام پردے ہٹا کر سب کچھ عیاں کردیا اب کراچی کو کوئی یرغمال نہیں بنا سکے گا۔ اب دیکھیں آگے آگے ہوتا ہے کیا متحدہ کے غبارے سے خود اس کے قائد نے جو ہَوا نکالی ہے وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے گی کیا پھر وہی جاہ و جلال حاصل کرسکے گی لیکن یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ متحدہ کا ووٹ بینک بڑا مضبوط اور قوی ہے دیکھنا یہ ہے مصطفیٰ کمال صاحب نے جو نئی جماعت کی داغ بیل ڈالی ہے کیا وہ موجودہ حالات میں سرسبز ہوسکے گی یا اس کا راستہ روکنے کیلئے ہی کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ ساری کارروائی کی گئی ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کون کتنا سچا اور وطن عزیز سے کتنا مخلص ہے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی اہل وطن کی حفاظت فرمائے۔ آمین


.
تازہ ترین