• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی حکومت نے گزشتہ دنوں بھرتیوں پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا جسے کچھ حلقوں کی طرف سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں آخری سانسیں لیتے دھرنوں کے خلاف نمٹنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا گیا۔ وجوہات جو بھی ہوں یہ حکومتی عمل ملک بھر کے ان بیروزگار افراد کے لئے کسی خوشخبری سے کم نہ تھا جو ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے سالہا سال سے سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ حکومتی اعلان کے بعد مختلف وزارتوں،ڈویژنوں اور اداروں کی طرف سے آسامیوں پر بھرتی کی کےلئےاشتہارات دینے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ بھرتیوں کے اس عمل سے جڑے ایک انتہائی اہم معاملے کی طرف اسلام آباد کے ایک فوٹو اسٹوڈیو میں بطور فوٹوگرافر ملازمت کرتے ایک شخص مرتضی نے توجہ دلائی۔آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک لگائے بڑھاپے کی سیڑھی پر قدم رکھنےو الے مرتضی کے تین جوان اور تعلیم یافتہ بیٹے ہیں۔ لوگوں کی خوشیوں اور اہم لمحات کو کیمرے کی آنکھ کے ذریعے یادگار بنانے والے شخص کے اپنے لئے خوشی کے کسی بھی لمحے کو کشید کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اس نے انتہائی محدود وسائل میں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو علم وہنر سے تو آراستہ کر دیا لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ بیٹوں کو متعلقہ اسامیوں پر بھرتی کے لئے ہر درخواست فارم کے ساتھ طلب کی جانے والی فیس دینے کی اس میں سکت نہیں ہے۔ آنکھوں میں نمی لئے مرتضی کو کمند وہاں ٹوٹتی دکھائی دے رہی ہے جب لب بام صرف دو چار ہاتھ ہی دور ہے۔ یہ صرف مرتضی اور اس کے پڑھے لکھے بیروزگار بچوں کی کہانی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں ملازمت کے حصول کے خواہش مند ہر دوسرے نوجوان اور اس کے بوڑھے والدین کا کرب ہے۔ میں حکمرانوں کی خدمت میں چند حقائق پیش کرتا ہوں جو اس اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے دوران تحقیق سامنے آئے ہیں۔گزشتہ دنوں سے مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور نیم خود مختار اداروں کی طرف سے اسامیوں پر بھرتیوں کے لئے جو اشتہارات دئیے جا رہے ہیں ان میں درخواست گزاروں کے لئے یہ ہدایات بھی شامل ہیں کہ وہ درخواست کے ساتھ بنک چالان،ڈرافٹ،پوسٹل آرڈر یا آن لائن رقم جمع کرانے کی رسید بھی منسلک کریں۔یہ رقم درخواست کی پراسیسنگ فیس کے نام پر طلب کی جاتی ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں ،گلاس توڑا بارہ آنے۔گزشتہ ہفتے کے دوران جو درخواستیں طلب کی گئیں ان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے دئیے گئے بھرتیوں کے اشتہار میں درخواست فارم کے ساتھ 300 روپے،نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس میں جونئیر پٹرول آفیسر کیلئے 600روپے،کینوپ کراچی میں انجینئروں کی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ پروگرام کیلئے درخواست کے ساتھ 1000 روپے اور بنک ڈرافٹ کی صورت میں 1500 روپے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔پنجاب پبلک سروس کمیشن کے زیر اہتمام اسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل،اکاؤنٹس آفیسراور کمپیوٹر انسٹرکٹر کی آسامیوں پر بھرتی کی درخواست دینے کے لئے 400 روپے جمع کرانے کو کہا گیا ہے۔ اسی طرح سی ایس ایس کے امتحان دینے والوں سے درخواست کی پراسیسنگ فیس کے نام پر 2200 روپے طلب کئے گئے ہیں۔ یہ چند مثالیں صرف اس لئے پیش کی ہیں کہ کوئی بھی با شعور فرد یہ اندازہ لگا سکےکہ اگر کسی کے گھر میں دو سے تین بے روزگار نوجوان لڑکے لڑکیاں ملازمت کے حصول کی صرف درخواست دینا چاہیں تو ان کودرخواستوں کی تعداد کے تناسب سے ماہانہ ہزاروں روپے اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے جو اکثر لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہے۔دوسری طرف بھرتیوں کیلئے اشتہار دینے والے ادارے صرف درخواستوں کی وصولی کی مد میں کروڑوں روپے اکھٹے کر لیتے ہیں جس کی کہیں کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ شماریات بیورو کے مطابق گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک میں بیروزگاری کی شرح 6.3 فیصد تھی۔اسی ادارے کے مطابق اس وقت ملک میں ملازمت پیشہ افراد کی تعداد 5 کروڑ 69 لاکھ 20 ہزار ہے جبکہ 3 کروڑ 73 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں اس وقت بے روزگاری کی شرح 5.3 فیصد ہے اور آئندہ پانچ سال میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس کے کم ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں 55 فیصد آبادی کی اوسطا آمد نی روزانہ 2 ڈالرز سے کم ہے جبکہ 43 فیصد افراد روزانہ 2 سے 6 ڈالرز کے درمیان کماتے ہیں۔وزارت منصوبہ بندی کے اپنے اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں 4 کروڑ 80 لاکھ نوجوان ایسے ہیں جن کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے۔اسی یوتھ کو رام کرنے کی کوشش کے طور پر وزیر اعظم نے گزشتہ سال ستمبر میں 20 ارب روپے مالیت کے 6 منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جن میں بلا سود قرضے،ہنر مند اسکیم،پسماندہ علاقوں کے طلبا و طالبات کیلئے فیس کی ادائیگی،چھوٹے کاروباری قرضے،تربیتی اسکیم اور لیپ ٹاپ اسکیم شامل تھی۔ ان اسکیموں کا اجراء کرنے والی حکومت کو یہ بھی ادراک ہونا چاہئے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران تقریبا 28 لاکھ پاکستانی بہتر ملازمت کے حصول کے لئے بیرون ممالک جا چکے ہیں ،صرف سال 2012 میں دیار غیر جانیوالوں میں ساڑھے 41 ہزار پروفیشنل اور تکنیکی امور کے ماہر افراد بھی شامل تھے۔ ان اعداو شمار کی روشنی میں حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ایسی پالیسیاں مرتب کریں کہ جس سے موجودہ نظام کے ہاتھوں استحصال کا شکار نوجوان دل برداشتہ ہونے کی بجائے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا تعمیری کردار ادا کر سکیں۔ ان سے مزید استدعا یہ ہے کہ اگر وہ ملک بھر کے کروڑوں بے روزگاروں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو ملک بھر میں بھرتیوں کے لئے طلب کردہ درخواستوں کے ساتھ پیسوں کی وصولی کے ذریعے ان کے زخموں پر نمک بھی نہ چھڑکیں۔
تازہ ترین