• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ وطن عزیز کی خوش قسمتی ہے کہ ملک میں اللہ نے مختلف مزاج کے موسمیاتی خطے عطا کئے ہیں۔اور اسی میں پاکستان کا دل پنجاب واقع ہے،پنجا ب کا ایک بڑا حصہ اس کے مقامی جغرافئے کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔جہاں پر پنجاب کا ایک تصور ابھرتا ہے کہ ہرے بھرے کھیت ہیں ،نہری پانی کے وسائل سے زمینیں سیراب ہوتی ہیں وہیں پنجاب کا ایک روپ وہ بھی ہے جس میںروہی،دشت ، صحرا، اور پہاڑی سلسلہ جو کوہ سلیمان ڈیرہ غازی خان سے لے کر کشمور کی حدود تک جاملتا ہے۔جنوبی پنجاب بوجوہ اب تک ترقی کی وہ منازل طے نہیں کرسکاجو ایک آزاد ملک میں اسے کرنی چاہئے تھیں۔محبتوں کی یہ سرزمین جسے صوفیا،اورخواجہ غلام فرید جیسی ہستی سے نسبت ہے ۔فرنگی دورمیں بھی جب اس علاقے میں نہریں آئیں تو میٹلوج گنج اور منچن آباد جیسے علاقے بھی آباد ہوئے۔مگر بدقسمتی سے ترقی کا پہیہ اس رفتار سے نہیں گھوم سکاجیسے گھومنا چاہئے تھا،جس سے جنوبی پنجاب کے بارے میں آواز بھی بلند ہوئی۔جنوبی پنجاب کا خطہ ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ملکی سیاست میں جنوبی پنجاب کا ایک اہم مقام ہے۔ہر دور حکومت میں اہم منصب اس خطے کو میسر آئے مگر آج بھی ا احساس محرومی کا یہ عالم ہے کہ عوام ایک مرتبہ پھر صوبہ جنوبی پنجاب کا نعرہ لگانے پر مجبور ہورہے ہیں۔اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ خطہ تھا جس نے ملک کے صدر او ر وزیر اعظم کا فیصلہ کیا ۔90کی دہائی کو ہی اٹھا کر دیکھیں لیں تو نگران وزیراعظم میربلخ شیر مزاری اسی جنوبی پنجاب کے آخری ضلع راجن پور کے باسی تھے۔سابق صدر پاکستان سردارفاروق لغاری مرحوم بھی جنوبی پنجاب کی پوری دنیا میں شناخت بنے۔میاں نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں گورنر پنجاب کے ناموں پر غور ہوا تو قرعہ فعال مسلم لیگ ن سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے سردار ذوالفقار کھوسہ کے نام نکلا۔پرویز مشرف کے دور حکومت میں اہم ترین وزارت پر براجمان رہنے والے سیاستدان سرداراویس لغار ی کا تعلق بھی اسی سر زمین سے تھا۔حتیٰ کہ 2008کے عام انتخابات کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی کے لئے جس رکن اسمبلی کو میاں نوازشریف اور شہباز شریف نے منتخب کیا وہ دوست کھوسہ بھی اسی جنوبی پنجاب سے ہی تھے۔دو دہائیوں بعد اقتدار کے ایوانوں میں لوٹنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو کا فیصلہ کر نا شروع کیا تو ایک بار پھر قسمت جنوبی پنجاب پر مہربان ہوئی اور یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمی کے منصب پر افروز کیا گیا۔غلام مصطفیٰ کھر،حناربانی،شاہ محمود قریشی،جناب نوابزادہ نصراللہ مرحوم،جاوید ہاشمی سمیت پائے کے سیاستدان اس خطے کو میسر آئے مگر وہ ترقی دیکھنے میں نہیں آئی جس کی عوام توقع لگائے بیٹھے تھے۔ہر دور حکومت میں ترقیاتی فنڈ کا منہ اس خطے پر کھولا گیا مگر اس کے وہ نتائج بر آمد نہیں ہوسکے جو لاہور یا اسلام آباد کی شاہراہوں پر نظر آتے ہیں ۔معلوم نہیںکہ اس کی بڑی وجہ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کی ذاتی پسند ناپسند تھی یا جنوبی پنجاب کے حکمرانوں کی اپنی کمزوریاں ۔مگر ایسے حالات دیکھتا ہوں تو اپنے منیر نیازی مرحوم یا د آجاتے ہیں
کْج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
حالیہ دور حکومت میں میاں شہباز شریف نے اس خطے کی محرومی ختم کرنے کی ٹھانی تو ہے مگر بدقسمتی سے انہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن سمیت دیگر مسائل میں پھنسادیا گیا ۔یوسف رضا گیلانی سے کوئی پوچھنے والا ہو کہ صرف ایک ملتا ن کے نام پر 100ارب روپے کے خطیر فنڈ خرچ کردئیے گئے مگر کہیں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔اسلام آباد سے ڈیرہ غازی خان یا راجن پورکے دور افتادہ گاؤں تک پہنچنا انتہائی مشقت طلب سفر ہے ۔شاید اس کی سب سے بڑی وجہ معقول سڑکوں کا نہ ہونا ہے۔مگر اسلام آباد کے عظیم ایوانوں میں بیٹھے شاید اس سے بے خبر ہیں۔گزشتہ ہفتے فاروق لغاری مرحوم کی والدہ کے انتقال کا معلوم ہوا تو اسلام آباد سے ڈیرہ غازی خان تک کوئی فلائٹ دستیاب نہیں تھی اسی لئے روڈ سے سفر کرنے میں ہی عافیت جانی۔سردار نصر اللہ خان دریشک بتارہے تھے کہ ابھی چند سال پہلے تک ہفتے میں 2سے3فلائٹس اسلام آباد سے یہاں آیا کرتی تھیں مگر بدقسمتی ہے کہ گزشتہ سالوں سے اب ایک بھی جہاز اسلام آباد سے اس ہوائی اڈے پر لینڈ کرنے کا تکلف نہیں کرتا۔محمد علی گردیزی صاحب کو اس اہم معاملے پر ضرور توجہ دینی چاہئے اور آپ تو ویسے بھی صوفیا کی سرزمین ملتان سے گہری قربت رکھتے ہیں۔مرحومہ کی وفات کی تعزیت کے لئے چوٹی زیریں پہنچا تو لغاری خاندان کے آنگن میں روایتی سیاسی حریف ایک ہی صف میں نظر آئے۔سابق گورنر ذوالفقار کھوسہ،سابق وزیراعلیٰ پنجاب دوست کھوسہ سمیت دیگر سیاسی مخالف اختلافات کو بھلالغاری خاندان کے چیف سردار جمال لغاری کے پاس موجود تھے۔پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اور سردار جعفر لغاری حریف ہونے کے باجود مغفرت کی دعا میں ساتھ ساتھ دکھائی دئیے۔فاروق لغاری کی والدہ کے اللہ درجات بلند فرمائے! مرحومہ اپنے آخری سفر کے دوران بھی اتفاق و اتحاد کی علامت بنی رہیں۔مگر اس سارے منظر نامے کو دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ کتنی خوش قسمت اور باہمت عورت تھیں ۔جن کی جب شادی ہوئی تو نواب جمال خان لغاری مرحوم کی بہو بنیں۔اللہ نے بیٹا دیا تو پاکستان کا مشہور سول سرونٹ بن کرابھرا اور میجر جی ۔ڈی لینگ لینڈز بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔اسی بیٹے کو صدر مملکت بنتے دیکھااور پھر عہدے سے مستعفی ہونے کا منظر بھی انہی آنکھوں میں قید ہوا۔بہت حوصلہ مند خاتون تھی کہ فاروق لغاری جیسے بیٹے کی موت کا دکھ بھی برداشت کرگئیں۔سینئر محسن لغاری ایک روز مجھے بتارہے تھے کہ مرحومہ اکثر محسن لغاری کی والدہ کو دعا دیتی تھیں کہ اللہ تمھیں فاروق جیسا بیٹا عطا کرے۔تو محسن لغاری کہنے لگے کہ مجھے مرحومہ کی یہ بات انتہائی پسند تھی کہ وہ اپنے بیٹے سے اس قدر خوش رہا کرتی تھیں۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی ، جنوبی پنجاب کی سیاست میں گہر ااتار چڑھاؤ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ماضی کے حریف حلیف بن سکتے ہیں۔مقامی سینئر صحافی ملک سراج نے بتایا کہ جنوبی پنجاب کے صوبے کی تحریک کے نام پر ایک نئے سیاسی گروپ کو تشکیل دینے کی حکمت عملی پر غور کیا جارہا ہے۔مزاری،کھوسہ اور نواب زادہ مرحوم کے بیٹے کوئی نیا دھماکہ کرسکتے ہیں مگر میری ذاتی رائے ہے کہ مسلم لیگ ن کو بزرگ سیاستدانوں کی قدر کرنی چاہئے،یہ عاجز میاں نوازشریف سے بھی گزارش کرچکا ہے کہ حالیہ بحرانوں سے نکلنا ہے تو بلدیاتی انتخابات کراکر اختیارات کو تقسیم کریں۔ ملکی سیاست میں جنوبی پنجاب کی بڑی اہمیت ہے بہتر ہوگا کہ جنوبی پنجاب کے معاملات پر ذاتی طور پر توجہ مرکوز کریں۔نیلسن منڈیلا سے ایک مرتبہ بی بی سی کے رپورٹر نے پوچھا کہ لیڈر اور سیاستدان میں کیا فرق ہے تو عظیم منڈیلا مسکرائے اور کہا کہ بس اتنا فرق ہے کہ ایک سیاستدان اگلے انتخابات کے بارے میں سوچتا ہے اور ایک لیڈر اگلی نسل کے بارے میں سوچتاہے۔اب میاں نوازشریف یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ سیاستدان رہنا چاہتے ہیں یا لیڈر بننا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین