• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایشیا ایک بڑا خطہ ارضی ہے جس کے ایک حصے میں ہمارا ملک واقع ہے۔ ایشیا کے ایک ملک میں (جہاں مذہبی سیاست کے ذریعے جمہوریت کے نام پر حکومت کی جاتی ہے اور جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوری سلطنت کا نام دیا جاتا ہے) پچھلے دنوں وہاں الیکشن ہوئے جو دیانتدارانہ طور پر مثال کیلئے دنیا میں پیش کئے جاتے ہیں مگر وہاں ایک خوبصورت انداز میں اسے پیش بھی کیا جاتا ہے۔ اگر میں تفصیل سے لکھنا چاہوں تو بہت کچھ لکھ سکتا ہوں کیونکہ میں ’’چانکیائی‘‘ سیاست سے واقف ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا سیاستدان چانکیہ جس نے جمہوریت پر بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں جنہیں پڑھا جا سکتا ہے کو اپنے عوام اور پڑوسیوں پر، نیز پروپیگنڈے کے ذریعے کیسے مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے؟ اور دیر تک کیسے حکمران رہا جا سکتا ہے؟ اگر اسے تفصیل سے دیکھا جائے تو اُس کے کئی چہرے سامنے آتے ہیں جنہیں واضح طور پر لکھنے کی رموز مملکت اجازت نہیں دیتا اور پتہ نہیں ہمارے وہ لوگ جو اس سیاسی طرزِفکر کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں، کھلے بندوں اُس کا اظہار کیوں نہیں کرتے ’’میں سخن فہم ہوں غالب کا طرف دار نہیں‘‘ لکھتے وقت مجھے ملک کے بین الاقوامی تعلقات اور بہت سے معاہدوں کا احترام بھی کرنا پڑتا ہے، کشمیر سے لے کر موجودہ مرحلے میں گجرات اور بھارت کے مختلف صوبوں میں جو ہندومسلم فسادات ہوتے ہیں اُس کی تفصیل دنیا بھر کے اخبارات میں چھپتی رہتی ہے۔ بہت سے معاہدے بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ بھی کئے ہوئے ہیں، ان پر اس نے کبھی عمل کرنے کی کوشش نہیں کی جس کا علم ہماری حکومت کو ہونا چاہئے۔
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف نے جو خطاب کیا اُس میں اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 148کی تشریح بھی کی اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھی طے ہونا چاہئے جبکہ مغرب میں جہاں بھی ایسے مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہو جاتا ہے مگر شاید ہمارے وزارت خارجہ کے افسروں کو اس کا علم نہیں ہوتا کیونکہ دنیا کے سامنے کیا کہنا چاہئے۔ ایک وقت تھا کہ انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو نے ایک نئی اقوام متحدہ بنانے کا اعلان کر دیا تھا اُس وقت ایشیا میں بڑے بڑے قدآور لیڈر موجود تھے مگر یورپ اور امریکہ میں ان کے مقابلے کی لیڈرشپ نہیں تھی (تفصیل دیکھی جا سکتی ہے) مگر دنیا کے عظیم لیڈروں کی کردارکشی کرنے کے بعد یا انہیں مار دیا گیا یا انہیں اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ جو ملک اور حکمران سینہ تان کے کھڑے ہو گئے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اُن کی لیڈرشپ تباہ وبرباد کر دی گئی، پاکستان بھی اس عمل سے گزر چکا ہے، مگر شاید ہمارے ’’سیاسی ناخدائوں‘‘ کو اس کا علم نہیں یا وہ تاریخ نہیں پڑھتے، ہماری سیاسی جماعتیں جب بھی کسی اہم مقصد کی طرف بڑھنے لگتی ہیں ایک زوردار طوفان انہیں تنکوں کی طرح بکھیر دیتا ہے۔ ہمارا ملک جو سیاسی، فوجی اور انسانی طور پر واضح علامات رکھتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس دفعہ ہماری لیڈرشپ بھی اُس کی زد میں ہے، یہ تو عام واقعات ابھی کل کی بات ہے۔ تقریباََ تمام ایشیائی اور اسلامی ملکوں میں دہرائے جا چکے ہیں۔
ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر شخصی اقتدار طرزِ فکر رہا ہے۔ ہمارے اعلیٰ سیاسی ناخدا بند کمروں میں بیٹھ کر کچھ اور کہتے ہیں اور باہر بیٹھ کر کچھ اور کہتے ہیں، سچ بولنے کا اگر شاندار نتیجہ دیکھنا ہو تو ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کے طرزِ سیاست اور اُس کی کامیابی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ابھی ہمارے یہاں الیکشن ہوئے ہیں جنہیں متنازع بنا دیا گیا ہے یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں کو بھی ملوث کر لیا گیا ہے جن کی بحالی پر دنیا نے ہمیں ایک شاندار اور جاندار قوم کا خطاب دیا تھا مگر ہمارے بیانات دینے اور تقریریں کرنے کے شوقین حضرات نے اُس کو بھی ڈس کریڈٹ میں تبدیل کر دیا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا ہمارے سیاسی ناخدا ہر اچھے کام کو اپنے نام کو آگے بڑھانے کیلئے ڈس کریڈٹ کیوں کر دیتے ہیں اور اپنی انا کی خاطر ہمالیہ جیسی سچائیوں کو اپنی لفاظی کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنا کر جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر جو نتیجہ سامنے آتا ہے تو کہتے ہیں ہم نے یہ نہیں کہا تھا اور ایک بڑے جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بڑے بڑے اقتصادی، سیاسی اور بہت سے معاملات میں ہمیں بہت بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ دنیا کے اخبارات ہمارے ناخدائوں کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ ’’کہتی ہے کچھ تو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جنوبی ایشیا کے اس خطے میں جہاں پاکستان واقع ہے ذہنی شعور وسیع القلبی اور معاملات کو صحیح رُخ پر دیکھتے ہوئے سچ کو سچ، جھوٹ کو جھوٹ کہتے ہوئے اس خطہ ارضی کو جنت نظیر بنا سکتے ہیں ورنہ ہماری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ رہا پڑوسی ملک کا معاملہ اُن کے سیاسی انداز کو میرا خیال ہے نہ ہم سمجھ سکے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بڑے بڑے جلسے جن میں بےشمار خرچ ہو رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے بہت بڑا معرکہ ہونے والا ہو، اگر یہ سب مل کر اپنی پالیسیاں اچھے انداز سے مرتب کریں تو پاکستان ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے دنیا کا اہم ترین ملک بن سکتا ہے مگر ہمیں اپنی جگہ پر کمرشل سیاست کی بجائے قوم اور ملکی مفاد کی سیاست کرنا پڑے گی۔
تازہ ترین