• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
26ستمبر کو علی الصبح میرے پیارے دوست حفیظ اﷲ خاں نیازی کا فون آیا کہ آج لنچ میرے ساتھ جم خانے میں کیجیے۔ اُن سے قلبی تعلق بہت پرانا ہے۔وہ غالباً 1973ء میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں زیرتعلیم تھے جس کی وائس چانسلر ڈاکٹر کنیز یوسف تھیں۔ میری اُن سے پہلی ملاقات 1968ء میں اُن دنوں ہوئی جب وہ گرلز کالج راولپنڈی کی پرنسپل تھیں اور ایوب خاں کے خلاف تحریک بہت زوروں پر چل رہی تھی۔ اُن کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ طالبات کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے اُکساتی ہیں۔ میں اُن کی ذہانت اور کمال جرأتِ اظہار سے بے حد متاثر ہوا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اگر بھٹو صاحب اقتدار میں آئے، تو ڈاکٹر کنیز یوسف کسی کلیدی منصب پر فائز ہوں گی۔ جناب بھٹو نے اُنہیں قائداعظم یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا کہ وہ طلبہ اور اساتذہ کے ذریعے حکومت کو تازہ دم کمک پہنچاتی رہیں۔ حفیظ اﷲ نیازی کا اُن کے ساتھ نظریاتی تصادم شروع ہوا۔ وہ یونیورسٹی طلبہ یونین کے پہلے سال جنرل سیکرٹری اور اگلے برس صدر منتخب ہوئے جو اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ چلے آ رہے تھے۔ وائس چانسلر صاحبہ نے اُنہیں یونیورسٹی سے نکال دینے کے علاوہ اُن پر طلبہ سے حملے کرائے اور اُن کا یونیورسٹی میں جینا حرام کر دیا، مگر حفیظ اﷲ بڑی استقامت سے اپنے محاذ پر ڈٹے رہے اور بے مثل بہادری سے اپنے حریفوں پر غالب آگئے۔ اُنہوں نے مصائب جھیلنے اور اپنے نظریات پر پامردی سے قائم رہنے کی ایک تاریخ رقم کی تھی۔اُنہوں نے انتہائی ناسازگار ماحول میں ایک طرف قائداعظم یونیورسٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور دوسری طرف انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا سے انجینئرنگ میں گریجویشن کر لی۔
اِس عہدِ نامہرباں میں نیازی صاحب نے جس قوت ، جس حمیت اور جس ذکاوت کا مظاہرہ کیا ، اُس کے باعث میرا اُن کے ساتھ ایک گہرا تعلق پیدا ہوا۔ دراصل اُن کی رگوں میں اپنے عظیم والد ظفر اﷲ خاں نیازی کا خون دوڑ رہا تھا جنہوں نے اپنے علاقے کے معروف وکیل کی حیثیت سے مادرِ ملت فاطمہ جناح کا میانوالی میں فقید المثال استقبال کر کے ایوبی آمریت کو للکارا تھا۔
جم خانہ پہنچنے پر حفیظ نیازی نے ایک ہشاش بشاش نوجوان سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ میرا سب سے چھوٹا بھائی نجیب اﷲ خاں نیازی ہے جو بھکر سے اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا ہے۔ ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور مجھے نجیب اﷲ کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ سیاسی معاملات اچھی طرح سمجھتا ہے اور قدرت نے اُسے حُسنِ ادائیگی کا فن بھی عطا کیا ہے۔وہ پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز ہے اور کوئی پینتالیس یا پچاس کے پیٹے میںنظر آیا۔ دورانِ گفتگو اُسے کہیں سے فون آیا اور اُس کے بعد اُس کے چہرے پر اضطراب پھیلتا گیا۔اُس نے اپنے بھائی سے تشویش بھرے لہجے میں کہا کہ ایک معزز آدمی کی شہرت کو تباہی سے بچانے کے لیے آپ کی مدد چاہیے۔ اُنہوں نے پوچھا ماجرا کیا ہے۔ نجیب نے بتایا کہ بھکر کے ایم پی اے غضنفر عباس چھینہ کے خلاف نوائیوں نے پریس کانفرنس میں سنگین الزامات لگائے ہیں اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ آج رات ایک نجی ٹی وی چینل پر ساری کہانی چلا دی جائے گی۔ اگر ایک دفعہ رپورٹ چل گئی ، تو ایک عزت دار آدمی بے وقار ہو جائے گا۔ میرے لیے یہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے ، اِس لیے آپ فوری طور پر متعلقہ شخص سے رابطہ کر کے رپورٹ رکوانے کی کوشش کریں۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ نجیب کے کرب میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ میز سے ہٹ کر ایک کرسی پر ذرا دور جا بیٹھا تھا۔ کھانے پر جناب سجاد میر بھی موجود تھے ، اُنہوں نے اینکر پرسن سے رابطہ کرنے کی بار بار کوشش کی۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی کو حفیظ اﷲ نیازی نے فون کیا، مگر اُدھر سے بھی کوئی جواب نہ آیا۔ تمام دوستوں نے نجیب کو سمجھایا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور اہلِ شہر حق کی گواہی دیں گے ، مگر اُسے کسی طرح قرار نہ آ رہا تھا اور وہ یہ محسوس کر رہا تھا جیسے اُس کی اپنی کردار کشی ہونے لگی ہو۔
کوئی دس روز بعد ٹی وی چینل پر جناب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا حفیظ اﷲ نیازی کے نام ایک تعزیتی پیغام نشر ہوا جو نجیب اﷲ خاں نیازی کے ناگاہ انتقال پر دیا گیا تھا۔ یہ خبر میرے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست ہو گئی اور میری آنکھوں کے سامنے نجیب کا چہرہ گھومنے لگا جو ایک شریف آدمی کی عزت بچانے کے لیے ماہی ٔبے آب کی طرح تڑپ رہا تھا۔انسانی احساس کی یہ ایک معراج تھی۔ نجیب اﷲ اپنے والد کے ساتھ کوئی بیس برس پہلے میانوالی سے بھکر منتقل ہوا تھا اور اُس نے بے پناہ اور بے ریا خدمت کے ذریعے وہاں کے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے بھکر ، دریا خاں اور میانوالی میں بہت بڑے جنازے ہوئے جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ جب نجیب اﷲ دل کا دورہ پڑنے پر اپنی کار میں بیٹھ کر خود ہسپتال گیا ، تو بلامبالغہ ہزاروں آدمی ہسپتال پہنچ گئے اور صحت کی دعائیں مانگنے لگے۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ میت میانوالی لے جائی جا رہی ہے ، تو اُنہوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اِس نوجوان نے جس قدر اِس علاقے اور اِس شہر کی خدمت کی ہے ، اِسے ہماری سرزمین میں دفن کیا جانا چاہیے۔ رشتے دار بڑی منت سماجت سے میت کو میانوالی لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ دراصل بھکر پر نوائی قبیلے نے سیاسی قبضہ کر رکھا تھا اور وہ کسی اور شخص کو انتخابات میں کامیاب نہیں ہونے دیتے تھے۔ نجیب اﷲ نے سیاسی مفاہمت کا راستہ اپنایا اور علاقے کے غریب طبقات کو اپنے ساتھ ملایا۔ وہاں راجپوت آباد کار بڑی تعداد میں رہتے ہیں ، اُنہیں اجتماعی مفاد میں یکجا کیا اور میانوالی سے آئے ہوئے لوگوں کو بھی اتحاد کا درس دیا ، یوں ایک آزاد گروپ وجود میں آیا جس کی قیادت نجیب اﷲکر رہا تھا اور اِس کی شورش کاشمیری جیسی خطابت نے پورے خطے کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی۔وہ ایک راست باز ، غم گسار اور تہجد گزار شخص تھا۔ اِس آزاد گروپ نے اِس قدر عوامی طاقت حاصل کر لی کہ عمران خاں نے اُسے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں پیش کیں ، لیکن اُس نے ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا اور آزاد حیثیت سے مئی2013ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور تمام نشستیں جیت لینے کے بعد مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی۔ نجیب کو یہ مقبولیت اِس لیے حاصل ہوئی کہ وہ عام لوگوںکے کام آتا ، اُن کے دکھ درد میں شریک ہوتا اور دوسروں کو آرام پہنچانے کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر دیتا تھا۔ اُس نے اپنی فیملی سے زیادہ اپنے حلقے کی فلاح و بہبود پر توجہ دی اور اُن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دن رات کام کیا۔اﷲ اُس کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔
تاریخ بڑی ستمگر ہے اور اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ جناب جے اے رحیم نے پیپلز پارٹی کی تشکیل ، اُس کے فروغ اور اُسے اقتدار کا راستہ دکھانے میں شب و روز کام کیا ، مگر غلط باتوں پر ٹوکنے کے جرم میں بھٹو صاحب نے اُنہیں بے آبرو کر کے کوچۂ اقتدار سے نکال دیا اوراُس کے بعد وہ فاش غلطیاں کر کے زوال کی طرف بڑھتے گئے۔ اِسی طرح نجیب اﷲ کا بڑا بھائی حفیظ اﷲ خاں نیازی اپنے چچا زاد عمران خاں کی تحریک انصاف کی سترہ سال خدمت کرتا اور اُسے نشیب و فراز سمجھاتا رہا۔وہ اُس کا بہنوئی ہونے کی وجہ سے آج کڑی آزمائش سے دوچار ہے۔ عمران خاں کو روکنے ٹوکنے والا اب کوئی نہیں رہا ، خدشہ ہے کہ وہ کسی روز بڑی غلطی کا شکار نہ ہو جائے۔ نجیب نے تو جان کا نذرانہ دے کر پورے علاقے میں حقیقت کا رنگ بکھیر دیا ہے اور ایک قومی ہیرو کی نئی شان قائم کر دی ہے۔اب دوسرے قائدین کو بھی حقِ نمائندگی ادا کرنا ہوگا۔
تازہ ترین