• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہنگری وسطی یورپ میں چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین نے ہنگری پر قبضہ کر لیا۔ اشتراکیت کی نظریاتی آڑ میں یک جماعتی آمریت مسلط کر دی گئی۔ آمریت اور بیرونی تسلط کے خلاف ہنگری کے باشندوں کی مزاحمت 1955 ء میں بغاوت کی صورت اختیار کر گئی۔سوویت یونین نے کئی لاکھ فوج اور کئی ہزار ٹینکوں کی مدد سے بغاوت کچل دی۔ بیس ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے۔ اس سےکہیں زیادہ بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کو گرفتار کر کے سائبیریا کے برف پوش عقوبت خانوں میں بھیج دیا گیا۔ہنگری کو بالآخر مشرقی یورپ کے دیگر ممالک کی طرح 1989ء میں نجات ملی۔ ہنگری کے شہرہ آفاق فلمساز بیلاٹر بغاوت کے برس یعنی 1955 ء ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 2000ء میں بیلاٹر نے ایک بلیک اینڈ وائٹ فلم ’’ ویرک مائیسٹر ہارمونینز‘‘ (Werkmiester's Harmonies) بنائی۔ مزاحمت کا حزنیہ کہلانے والی یہ فلم تاریخ کی بڑی فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ چھوٹے سے ایک گائوں کی کہانی ہے۔ ایک بے چہرہ شخص بہت بڑے چھکڑے پر لادکر دیوقامت وہیل مچھلی کی حنوط شدہ لاش گائوں میں لے آیا ہے۔ وہیل مچھلی کا لاشہ گائوں کے مرکزی چوک میں رکھا ہے۔ اس تماشے کا مقصد کوئی نہیں جانتا۔ لوگ دور دور سے وہیل مچھلی دیکھنے آ رہے ہیں۔ساحل سے محروم ہنگری کی زمین پر وہیل جیسی سمندری مخلوق ایک عجوبہ ہے۔ گائوں میں معمول کی زندگی معطل ہو چکی ہے۔ حنوط شدہ لاش کی نامانوس بُو نتھنوں میں گھس رہی ہے۔ ننھے سے گائوں کے وسائل پر بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ نہ ڈاک خانہ چل رہا ہے اور نہ روزمرہ استعمال کی اشیاء گائوں میں پہنچ رہی ہیں۔ جدھر سے نکلو سفید گوشت کا ایک بہت بڑا پہاڑ آنکھوں میں ناگوار منظر کی طرح چبھتا ہے۔ گائوں والوں کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ جارجی نام کے ایک صاحب گائوں کے دانشور کہلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نمائش پر رکھی وہیل مچھلی کے قریب بجائی جانے والی موسیقی کی دھن موسیقی کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی۔ گائوں کے چند مخلص نوجوانوں کے ساتھ مل کر جارجی دانشور موسیقی کی دھن بدلنے نکلتا ہے۔ فسادات پھوٹ پڑتے ہیں، مار کٹائی تک نوبت آتی ہے۔ مہینوں پر پھیلی بے معنی اذیت سے بپھرا ہوا ہجوم دیوانوں کی طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ تبدیلی کے خواہش مند نوجوان اور عجیب الخلقت وہیل مچھلی کے سحر میں مبتلا افراد سے موسیقی کی دھن پر جھگڑ رہے ہیں۔ ہر چیز تباہ ہو جاتی ہے۔حنوط کی ہوئی سفید وہیل گائوں کے چوک میں بدستور رکھی ہے، بے حس و حرکت، بے معنی اور بیکار۔
دیکھئے آرٹ اور صحافت میں فرق ہے۔ صحافت میں فوری خبر دی جاتی ہے اور فنون عالیہ سے بصیرت ملتی ہے۔ فنون عالیہ کے شاہکار وقت کے ساتھ پرانے ہو سکتے ہیں۔ ان کے معنی پرانے نہیں ہوتے۔ آرٹ بدلتی ہوئی انسانی صورلئےتحال کے ساتھ نئی معنویت پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ جارجی دانشور کے گمراہ کن خلوص اور فلمساز بیلاٹر کے شاہکار میں فرق سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ سیاسی مکالمے میں لفظوں کو بہت ناپ تول کر استعمال کیا جاتا ہے۔ گلی کوچوں میں تھڑوں پر بحث مباحثے میں بہت سے الفاظ بلاسوچے سمجھے استعمال کیے جاتے ہیں، برداشت کر لئے جاتے ہیں اور بھلا دیے جاتے ہیں لیکن کمرہ عدالت میں، اخبار کے صفحے پر اور پارلیمنٹ کے فلور پر لفظوں کے معنی بہت مختلف ہو جاتے ہیں۔ سیاسی رہنما کوئی تماشہ کرنے والا مداری نہیں جس کی واحد صلاحیت مجمع کو باندھے رکھنا ہو۔ سیاسی رہنما استاد ہوتا ہے۔ اپنے سیاسی کارکنوں کی ذہنی اور تمدنی تربیت سیاسی رہنما کی ذمہ داری ہے۔اسلام آباد کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے فرمایا کہ تاجر کوکبھی حکمران نہ بنائو۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ بزنس مین سے عمران خان کی کیا مراد ہے؟ کیا ہم اس عہد میں زندہ ہیں جہاں حق حکمرانی پیشے سے متعین ہوتا ہے یعنی برہمن حکومت کرے گا اور جب کہ تجارت ، جنگ اور دستکاری وغیرہ دوسروں کے ذمہ ہو گی۔ جمہوریت ایک Inclusive یعنی مشمولہ نظام حکومت ہے ۔ جمہوریت میں طبقے ، پیشے اور ثقافت وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہ موجود ہوتے ہیں اور ان کے مفادات میں ٹکرائو بھی پایا جاتا ہے۔ جمہوریت شہریوں کی مساوات کی بنیاد پر متنوع مفادات میں قابل عمل سمجھوتہ تلاش کرنے کا نام ہے۔جمہوریت میں حکمرانی کا حق شہری ہونے سے اخذ کیا جاتا ہے۔کسی خاص طبقے ، گروہ یا عقیدے کی بنیاد پر حق حکمرانی تفویض کیا جا تا ہے اور نہ چھینا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں بزنس مین سے مراد تاجر لیا جاتا ہے یا صنعت کار۔ تو کیا ہم اپنے ملک کی معیشت میں تاجر اور صنعت کار کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ ملکی معیشت میں کون کون سے شعبے ہوتے ہیں۔ صنعت، زراعت، تجارت اور خدمات۔ بزنس مین کا نام لے کر محترم عمران نے تاجر اور صنعت کار کا پتہ تو کاٹ دیا۔ اعلیٰ حضرت دن رات جاگیرداری کے خلاف بھاشن دیتے ہیں۔گویا حق حکمرانی میں زراعت بھی گئی۔ خدمات کا شعبہ باقی بچتا ہے۔ اس شعبے میں یا تو سرکاری اہلکار ہیں یا وہ پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے جو بذات خود صنعت، زراعت اور تجارت کے محتاج ہیں۔ ڈرتے ڈرتے عرض کیا جاتا ہے کہ حکمرانی اور سیاست کی تصویر میں عالمی اداروں سے مستعار لئے گئے ٹیکنو کریٹ بچتے ہیں یا سرکاری ملازم۔ ٹھیک سے کہنا مشکل ہے کہ عمران خان چاہتے کیا ہیں؟ ایک گستاخ سوال تو یہ بھی ہے کہ حضور یہ آپ کے یمین و یسار میں جہانگیر ترین اور اعظم سواتی جلوہ افروز ہیں ۔ عام طور پر انہیں بزنس مین کہا جاتا ہے۔ جمہوری اصولوں کے مطابق جہانگیر ترین اورسیالکوٹ کا کوئی صنعت کار سیاسی فیصلہ سازی میں شرکت کا ایسا ہی حق رکھتے ہیں جیسا سندھ کا کوئی جاموٹ ، بلوچستان کا بگٹی یا خیبر پختونخوا کا مذہبی عالم ۔ ہمارے ہاں مشکل یہ ہے کہ ہم موسیقی کی دھن تبدیل کرکے ان مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں جو قصبے کے چوک میں موجود حنوط شدہ وہیل سے پیدا ہوتے ہیں۔ خدا کے فضل و کرم سے ہمارے انقلاب کی ناک اس قدر حساس ہے کہ اسے عوام کے درمیان سے گزرنا پڑے تو وہ ناک پر ٹشو پیپر رکھ لیتا ہے۔ ایسی سیاست سے خوش حالی ، ترقی اور انصاف کے سُر نہیں نکلتے، حزنیہ دھن پیدا ہوتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری مزاحمت کے قافیے بھی بدل گئے ہیں۔ ضیاالحق کے طویل بے ثمر برسوں میں منو بھائی جب اپنے بے مثال کالم کا رنگ ذرا چوکھا کرنا چاہتے تھے تو کالم کے عین بیچ میں ایک چوکھٹا لگا کر جاوید شاہین کی نظم سجا دیتے تھے۔ منو بھائی کے کالموں اور ویو پوائنٹ کے اداریوں نے آمریت کے خلاف مزاحمت میں ہمارا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔ اب مظہر علی خان نہیں رہے اور جاوید شاہین بھی وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے ہمیں تازہ نظم نہیں بھیج سکتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں آوازوں کا قحط پیدا ہو گیا ہے۔ منو بھائی سلامت رہیں، ان کا کالم اب بھی نظر نواز ہوتا ہے۔ بیلاٹر کی فلم ، وہیل مچھلی کی کہانی اور تاجر کی حکمرانی کی اس اداس کرنے والی حکایت کے آخر میں جاوید شاہین کی ایک نظم پڑھنے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے۔
میں نے دعا مانگی
زمین کی سلامتی کی
اس پر رزق کی فراوانی کی
درختوں کی پناہ گاہیں آباد ہونے کی
ہجرت کر جانے والے پرندوں کی واپسی کی
لیکن ان سب دعائوں سے پہلے
میں نے دعا مانگی
زمین کی رہائی کی
تازہ ترین