• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سیاسی افق پر نیا منظر ابھرتا دکھائی دے رہا ہے ۔ سیاسی ’’ پولرائزیشن ‘‘ کا عمل تیزہوگیا ہے۔ مختلف قسم کے سیاسی اتحاد بنانے کے لئے کوششیں شروع ہوگئی ہیں اور حالات نئی سیاسی صف بندی کی طرف جارہے ہیں۔یہ پولرائزیشن نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہورہی ہے بلکہ دو ایسی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو رہی ہیں،جنہیں بعض حلقے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی حامی اور’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی مخالف قوتوں سے تعبیر کرتے ہیں ان قوتوں پر ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کا حامی یا مخالف ہونے کا لیبل لگانا مناسب ہو گا یا نہیں ؟ یہ ایک الگ سوال ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دو الگ الگ سیاسی کیمپ بننے جارہے ہیں۔ ایک کیمپ میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام اور دیگر سیاسی جماعتیں جمع ہوتی نظر آرہی ہیں اور دوسرے کیمپ میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور دیگر کچھ سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے محسوس ہورہی ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) دوسرے کیمپ میں شامل ہو جائے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ تقسیم یا پولرائزیشن نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہے ۔ ماضی میں ایک دوسرے کی نظریاتی اور سیاسی طورپرمخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں اب ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرنے جا رہی ہیں۔ یہ پولرائزیشن پاکستان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرے گی ، ان کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں اس حیران کن ممکنہ صف بندی کو تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر میں سمجھنا ہو گا۔
پہلے ان سیاسی قوتوں کی تاریخ کا جائزہ لینا چاہئے، جواول الذکر سیاسی کیمپ میں جاسکتی ہیں ۔ ان سیاسی قوتوں کا دعویٰ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت، سیاسی آزادیوں اور آئین بنانے کے لئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کا یہ دعویٰ بجا ہے لیکن انہیں اپنے ماضی اور حال پر تھوڑی سی نظر ڈالنی چاہئے ۔ ہم 1960ء کے عشرے کی سیاسی قیادتوں کے کردار پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ان کی کہیں کہیں نا اہلی تو نظر آتی ہے لیکن نہ تو ان کی حب الوطنی پر کوئی شبہ تھا اور نہ ہی ان پر کوئی کرپشن کا الزام تھا ۔1970 کی دہائی کے سیاست دان نسبتاً اہل تو تھے لیکن اس عرصے میں کچھ کچھ کرپشن شروع ہو چکی تھی ۔ 1980ء ، 1990ء اور 2000ء کی تین دہائیوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور ایک دو دیگر سیاست دانوں کے سوا ملک کی سیاسی قیادت میں نہ تو کوئی اہلیت نظر آتی ہے اور نہ کوئی صلاحیت ۔ ان میں علم کا بھی فقدان تھا اور وہ بین الاقوامی امور سے بھی نابلد تھی اور انہیں گورننس بھی نہیں آتی تھی اور کچھ لوگوں نے تو کرپشن کے عالمی ریکارڈ توڑ دیئے ۔ ایک زمانہ تھا ، جب یہ کہا جاتا تھا کہ چند لوگ کرپٹ ہیں ۔اب چند دیانت دار لوگوں کی تلاش رہتی ہے۔ جمہوریت ، سیاسی آزادیوں اور آئین کے لئے کی جانے والی طویل جدوجہد اور اس جدوجہد میں دی جانے والی قربانیوں کا کیا نتیجہ نکلا ؟ آج سیاست چند خاندانوں ، ارب پتیوں اور مخصوص مفادات کی حامل انتہا پسند قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے ۔ نا انصافی، غربت، جہالت اور غیر مساوی نظام کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے ۔ سیاست میں وہ لوگ بھی نہیں رہے ، جنہوں نے ایک منصفانہ اور جمہوری معاشرے کے قیام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا ۔ بقول فیض
آخر شب کے ہم سفر فیض نجانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا ، صبح کدھر نکل گئی
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف دنیا خصوصاً ہمارے خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور چہار سو نئے سیاسی رجحانات کی ہوائیں چل رہی ہیں ۔ افغانستان میں نیٹو افواج کی واپسی ہونے والی ہے ۔ وہاں حامد کرزئی کے طویل دور کے خاتمے کے بعد نئی قیادت اقتدار سنبھال چکی ہے ۔ افغانستان کی دو بڑی سیاسی طاقتوں کو اقتدار میں شراکت دار بنایا گیا ہے ۔ بھارت نے پہلی مرتبہ عام انتخابات میں کانگریس کا صفایا کردیا ہے۔ ایران میں نئی قیادت نئے سیاسی رجحانات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے سیاست دان رونما ہونے والی تبدیلیوں اور نئے رجحانات پر غور کریں گے اور انفرادی اور اجتماعی تجزیہ کرکے پاکستان کے آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کریں گے لیکن ’’ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں بہت پر امید رہنے والا آدمی ہوں اور ہمیشہ روشن پہلو دیکھنے کا قائل ہوں لیکن ایسا نہیں ہے ۔ پاکستان اور اس کی سیاست آگے جانے کے بجائے الٹے قدموں پیچھے جارہے ہیں ۔ آج ہم معیشت اور تعلیم ، صحت اور عوامی بہبود سمیت دیگر سماجی شعبوں پر بات نہیں کر رہے ہیں لیکن یہ شعبے بھی اسی طرح تشویش ناک حد تک انحطاط کا شکار ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ ذات کا انقلاب دراصل معاشرے کا انقلاب ہوتا ہے ۔ فرد ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ہے ، پیچھے کی طرف نہیں ۔ ‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مراجعت کا سفر کررہے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیوں نے اپنی ناکامیوں کا تجزیہ نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے اس بات پر نہیں سوچا ہے کہ عوام سے ان کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے ۔ انہوں نے اپنی تنظیموں اور اپنے پروگراموں پر توجہ نہیں دی ۔ انہوں نے اپنا انفرادی اور اجتماعی احتساب نہیں کیا ہے ۔ وہ ابھی تک 80ء اور 90ء کے طریقہ سیاست میں الجھی ہوئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈرائنگ روموں میں ہونے والے جوڑ توڑ ، برادریوں ، جاگیرداروں اور وڈیروں کی سیاست پر انحصار کئے ہوئے ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے ۔ پارٹی کے سربراہان جو فیصلہ کرتے ہیں ، وہ حرف آخر ہوتا ہے ۔ کوئی اس فیصلے سے اختلاف کر سکتا ہے اور نہ ہی اس پر تنقید کر سکتا ہے۔ ممکنہ پہلے سیاسی کیمپ میں شامل ہونے والی سیاسی جماعتوں کی نہ صرف طرز سیاست ایک ہے بلکہ ان کے منشور بھی ایک جیسے ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں کو حکومتیں ملیں۔ مگر کامیابیوں ، ناکامیوں اور کرپشن کے باوجود وہی سیاسی قیادت چل رہی ہے ۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ اس کو ہی ’’اسٹیٹس کو ‘‘ کہا جا سکتا ہے اور بعض لوگوں کا موقف یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں مبینہ طور پر ’’اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار رکھنے اور اپنی بقا کے لئے ایک ہورہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی نظریاتی بنیادوں اور اصولوں کے حوالے سے شش وپنج میں مبتلا ہیں اور اپنی بقا کی لڑائی لڑرہی ہیں ۔
ان پرانے سیاست دانوں کو یہ علم نہیں ہے کہ جس ملک کی آبادی میں60 فیصد نوجوان ہوں ، جہاںآبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو اور جہاں میڈیا نے لوگوں میں بیداری کی بہت بڑی لہر پیدا کردی ہو ، وہاں ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ یا ’’ طرز کہن ‘‘ کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔ ایسا کرنیوالا ماضی میں جتنا بڑا انقلابی یا جمہوری کیوں نہ رہا ہو وہ نئے رجحانات سے ہم آہنگ نہیں ہو گا تو غیر متعلق ہو جائیگا ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے اپنی سب سے پیاری بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو لکھے گئے خط میں فرمایا تھا کہ ’’ تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو ، جب تک تم زمین کو چومنے کیلئے تیار نہ ہو ۔ تم زمین کا دفاع نہیں کرسکتیں ، جب تک تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو۔ نظریات ، اصول اور تحریریں تاریخ کے دروازہ سے باہررہتی ہیں۔ غالب عنصر عوام کی تمنائیں ہیں اور ان کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ہے ۔ ‘‘ ممکنہ دوسرے سیاسی کیمپ میں جو جماعتیں شامل ہوسکتی ہیں ، ان پر ’’ پرواسٹیبلشمنٹ ‘‘ کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے پاکستان کے عوام خصوصاً آج کی نوجوان نسل کی تمناؤں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے ہرجگہ بہت بڑے جلسے ہو رہے ہیں اور ان جلسوں میں لوگ خود جا رہے ہیں ۔ عمران خان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین لیڈر ہیں۔ ان کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کو چیلنج کیا ہے۔ اسی چیلنج کی بنیاد پر نئی صف بندی ہورہی ہے ۔ اس صف بندی کا نتیجہ کیا ہو گا ؟ اس سوال کا جواب دینا قبل از وقت ہوگا لیکن تاریخ میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظریاتی ، لسانی ، طبقاتی اور قومی تضادات اور جنگوں پر وہ لڑائی زیادہ حاوی ہوجاتی ہے ، جو ’’اسٹیٹس کو ‘‘ کی حامی اور مخالف قوتوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس لڑائی میں نظریاتی ، لسانی ، طبقاتی اورقومی بنیادوں پر ہونے والی صف بندیاں نئے حالات کے مطابق تبدیل ہونے لگتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تبدیلی اور انقلاب کیلئے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتیں ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔
تازہ ترین