• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک اس وقت جہاں سیلاب ، لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچارہے وہیں دو جماعتوں کے دھرنوں نے ملک کا ’’سیاسی کلچر‘ ‘ بھی تبدیل کردیا ہے۔ یہ درست کہ جمہوری نظام میں جلسے، جلوس، دھرنے ’’بنیادی حقوق‘ ‘ کا حصہ ہیں اور سیاسی جماعتیں ہی نہیں ہر فرد کو ’’ آواز بلند‘‘ کرنے کا حق حاصل ہے کہ اس طرح عوام کی بات اونچے ایوانوں تک نہ صرف پہنچتی ہے بلکہ اسکے سدباب کیلئے اقدام بھی کئے جاتے ہیں۔عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنے پچاس دن کی حد کو تو پار کر ہی گئے ہیں، انہوں نے جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے ابھی تک کوئی دو ٹوک بات تو سامنے نہیں آئی تاہم ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ ’’انقلاب‘‘ انتخاب میں یوں تبدیل ہوگیا ہے کہ علامہ صاحب نے اپنی پارٹی کو سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کرکے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے کہ اب وہ انتخاب کے ذریعہ انقلاب لائینگے تاہم اس حوالے سے دونوں جانب سے احتیاط کی ضرورت ہے۔ مطالبے اور نعرے تولگتے ہیں لیکن اس بات کا خیال رکھاجائے کہ ایسی زبان اور نعرے نہ لگائیں جن سے کسی کی دل آزاری ہو یا جنہیں ’’غیرپارلیمانی‘‘ یا نامناسب قرار دیا جائے۔
کیونکہ اس طرح بات ’’محاذ آرائی‘‘ اورتصادم کی صورت اختیار کرسکتی ہے اور جس کا خوف تھا دھرنوں اور جلسوں میں ابھرنے والے نعروں سے ایساہوتانظر آرہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو یہ کہنا پڑاکہ ’’خان صاحب نعرے تم لگوا رہے ہو شیر جاگ گئے تو بات آگے جائیگی‘‘ اور اس طرح کے خیالات کا رانا ثنا اللہ، احسن اقبال اورسعد رفیق نے بھی اظہار کیا ہے اور کئی مقامات پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے نعروں کا ردعمل بھی ہوا ہے۔ پشاور میں ایک تقریب میں دو گروپوں کے درمیان تصادم بھی ہوااور بات نعروں سے آگے فائرنگ تک جا پہنچی ہے جو جمہوری روایات کے منافی ہے۔ گجرات میں وال چاکنگ کرنے پر مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ملتان میں تو مسلم لیگ(ن) کے کارکن ’’گو عمران گو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اس ہوٹل پر ہی حملہ آور ہوگئے جہاں ’’لال حویلی کے راجہ‘‘ ٹھہرے ہوئے تھے کہ تحریک انصاف کے کارکن بھی پہنچ گئے۔ پولیس نہ ہوتی تو دونوں میں شدید تصادم ہوسکتا تھا۔ یہ درست کہ سیاسی اجتماعات میں جوش و جذبہ ابھارنے کے لئے ’’موافقانہ اور مخالفانہ‘‘نعرے لگائے جاتے ہیں۔ کئی نعرےتو اس قدر دلکش ہوتے ہیں کہ ان کی گونج دیر تک سنائی دیتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کے حق میں جب ہندوستان میں مشترکہ تحریک شروع ہوئی تو گلی گلی ایک نعرہ تھا کہ ’’بی اماں بولی جان بیٹا خلافت پر دے دو‘‘ بی اماں علی برادران کی والدہ محترمہ تھیں جو اس تحریک میں شریک ہوئیں اور اپنے بیٹے مولانا محمد علی جوہر کو مخاطب کیا۔ اس وقت یہ نعرہ گلی گلی گونجا، اس تحریک میں کانگریسی لیڈر مہاتما گاندھی بھی شامل تھے۔ تحریک پاکستان میں بھی ایسے ہی کئی نعرے جن میں ’’پاکستان کا مطلب کیا ،لا الہ الااللہ‘‘ بھی شامل تھا اور میاں بشیر کی ایک نظم کو بھی عالمی مقبولیت حاصل ہوئی ’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘ پاکستان میں بحالی جمہوریت کی تحریکیں چلیں۔ ایوب مادر ِ ملت کا صدارتی انتخاب میں مقابلہ ہوا اور ساری قوم مادر ملتؒ کی حمایت میں سڑکوں پرنکل آئی۔ اس وقت یہ نعرہ تھا کہ ’’قوم کی ماں فاطمہ جناح‘‘ جب جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت پرشب خون مار کر اقتدار پرقبضہ کرلیا تو یہ نعرہ ابھرا ’’مردِ مومن مردِ حق ضیا الحق ضیاالحق‘‘ کہ جنرل ضیا الحق کو پاکستان قومی اتحاد کی حمایت ہی نہیں حاصل تھی بلکہ قومی اتحاد کی جماعتیں فوجی حکومت میں شریک ِ اقتدار بھی تھیں۔ تاہم ایئرمارشل اصغرخان اور مولانا شاہ احمد نورانی نے فوجی حکومت میں شامل ہونے سے انکارکردیا تھا۔ جب میاں نوزشریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان انتخابی مقابلے ہوئے تو چند نعرے مقبول ہوئے۔ ان میں ’’قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ ، ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ ، ’’میاں ساڈا شیر اے باقی ہیر پھیر اے‘‘ ، ’’چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر بینظیر‘‘ ۔ ’’یا اللہ یا رسول بینظیر بے قصور‘‘ تاہم محترمہ بینظیربھٹو نے ’’نوازو گو گو‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ تاہم یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک دوسرےکیخلاف تلخ زبان تواستعمال ہوئی لیکن کارکنوں کے درمیان کوئی بڑا تصادم نہیں ہوا اور ایسا ہونا ہی جمہوریت کا حسن ہے۔
لیکن اب جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنے مطالبات کی حمایت میں اسلام آباد میں دھرنے دیئے ہوئےہیں اور ان کو 50دن ہونے کے قریب ہیں۔ ان دھرنوں کے شرکا کی تعداد کیا ہے اس سےقطع نظر یہ ’’ایک سیاسی ریکارڈ‘‘ بھی ہے۔ پی ٹی وی پر حملہ اور ریڈ زون میں پیش قدمی کے وقت پولیس سے تصادم کے علاوہ یہ دھرنے پرامن رہے ہیں۔ اس دوران عمران خان نے کراچی، لاہور اور میانوالی میں بڑے جلسوں سے بھی خطاب کیا۔ پارلیمینٹ کا طویل اجلاس بھی ہوا جس میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے قرارداد بھی منظور ہوئی۔ تاہم سب کی یہی کوشش اور خواہش ہے کہ اس سیاسی صورتحال کو سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے اس طرح جمہوریت کو نہ صرف برقرار رکھا جاسکتا ہے بلکہ اس کا تحفظ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف نعرے ضرور لگائے جائیں لیکن ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہئے جس سے ایک دوسرے کے جذبات مجروح ہوں یا آپس میں تصادم کی فضا پیدا ہو۔ یہ درست کہ تحریک انصاف کے جلسوںمیں کارکنوں کو نعرے بازی کرنے کا حق ہےلیکن یہ حق کیسے دیاجاسکتاہے کہ دوسروں کی تقاریب میں جا کر ’’اپنی مرضی کے نعرے‘‘ لگائے جائیں۔ ’’نیا پاکستان‘‘ کی بات کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اچھی جمہوری روایات قائم کریں۔ ’’گو گو‘‘ سے کوئی نہیں جائیگا جمہوریت ضرور کمزور ہوگی!!!
تازہ ترین