• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت ایک نعمت ہے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے یہ بات منصورہ میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد کہی۔ آصف علی زرداری اس دفعہ عید قربان پنجاب کی راج دھانی لاہور میں کررہے ہیں اور امید ہے وہ قربانی بھی دیں گے اس کے لئے وہ کونسا جانور پسند کرتے ہیں اور اس کا گوشت کہاں کہاں تقسیم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی سابق صدر کی آئندہ کی منصوبہ بندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو اندازہ ہے جماعت اسلامی اس وقت صوبہ پختونخوا میں کپتان کی حلیف جماعت ہے اور سیاسی جرگہ میں وہ پیپلز پارٹی کی سوچ سے متفق تھے۔ مگر سیاسی جرگہ فریقین کے لئے قابل قبول نہ بن سکا۔ دوسرے اس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تنظیم نو بہت ہی ضروری ہے مگر ان کے ساتھ جو لوگ منصورہ تشریف لائے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی ابھی بھی سیاسی معاملات میں منتشر خیال ہے۔ پنجاب کی راج دھانی میں اہم حیثیت ’’سندھ ساگر‘‘ کے مصنف اور اہم وکیل چوہدری اعتزاز احسن کی ہے۔ ان کو پہلے بھی نظر انداز کیا گیا چوہدری اعتزازکی صاف گوہی پیپلزپارٹی کی اشرافیہ کو پسند نہیں۔ پھرپنجاب میں انتخابات کے بعد کوئی ایسا فورم بھی نہیں بنایا گیا جہاں سے اندازہ ہوسکتا کہ انتخابات میں پارٹی کی کونسی ایسی حماقت تھی جو لوگوں کو پارٹی سے دور کرتی گئی۔پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں آئندہ کے انتخابات کی گونج سنا ئی دے رہی ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی جمہوریت کے لئے نواز لیگ کی مکمل مدد کررہی ہے۔ پنجاب میں نواز لیگ اتنی آسانی سے پیپلز پارٹی کے لئے میدان خالی کرنے کو تیار نہیں۔ پھر نواز لیگ کے ووٹر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ مگر اب صورت حال خاصی مختلف ہے۔ آصف علی زرداری منصورہ میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا بدل رہی ہے اور اس ہی وجہ سے وہ پنجاب کو فتح کرنے کی منصوبہ بندی کرنے نکلے ہیں مکمل صف بندی کے بعد بلاول زرداری میدان عمل میں اترے گا۔ وہ اس وقت پنجاب میں پیپلز پارٹی کے مختلف لوگوں سے رابطے میں ہے۔ چند دن پہلے جب سیلاب کا زور تھا تو وہ چنیوٹ میں سیلاب زدہ علاقے میں آئے۔ ان کے آنے سے ایک دن قبل کچھ لوگوں نے اس علاقہ کا سیکورٹی کے حوالہ سے دورہ بھی کیا تھا اور اندازہ کیا گیا کہ اگر بلاول سیلابی پانی میں اترتے ہیں تو پانی کتنا ہوگا۔ ان کا منصوبہ کامیاب رہا۔ بلاول تیار ، میدان میں اترا اور بے دھڑک خادم اعلیٰ پنجاب کی طرح پانی میں اتر گیا۔ وقتی طور پر لوگوں کو اس کی ادا بھا بھی گئی مگر ان کے اردگرد سیکیورٹی کا حلقہ اور پنجاب سرکار کی نگرانی ایسی تھی کہ وہ سیلاب زدگان سے گھل مل نہ سکے اور پھر چنیوٹ کی پارٹی کے لوگوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ جس سے کوئی اچھا تاثر نہ بن سکا۔پیپلز پارٹی اس وقت بلدیاتی انتخابات کے بارے میں حلیف جماعتوں سے مشاورت کررہی ہے پھر مرکزی سرکار درمیانی مدت کے انتخابات کی بجائے بلدیاتی انتخابات کو اہمیت دے رہی ہے۔ پنجاب میں سیلاب کی صورت حال کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات جلد کرانا ممکن نہیں۔ پھر الیکشن کمیشن اس مسئلہ پر کئی مسائل کا شکار ہے۔ حلقہ بندی کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہوسکے۔ سندھ میں صورت حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ مگر سندھ سرکار بلدیاتی انتخابات کے لئے تیار نظر نہیں آتی مرکزی سرکار اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے اگرچہ دھرنے والے اب منتشر ہوتے نظر آرہے ہیں مگرمرکزی سرکار کی کابینہ میں کسی تبدیلی کے آثار نہیں۔ بجلی کے بلوں کا مسئلہ سارے پاکستان کے عوام کا ہے۔ مرکزی سرکار نے اس معاملہ پر توجہ تو دی ہے مگر دیگر سیاسی جماعتوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کے لئے آصف علی زرداری سرگرم عمل ہیں۔ ان کو اس سلسلہ میں منشور کی تیاری کرنی ہوگی۔ ان کو وزیراعظم کو باور کرانا چاہئے کہ بجلی کے بلوں پر عوام کی داد رسی کی جائے اور اسمبلی اور کابینہ اس سلسلہ میں عملی کارروائی کا آغاز کرے۔
آجکل ایک خاص حلقہ فکر پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول زرداری بھٹو کی خصوصی تربیت کررہا ہے اور ان کو 18 اکتوبر کے جلسہ کے لئے اردو اور سندھی میں تقریر کی مسلسل مشق کرائی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا نوجوان لیڈر اردو پڑھنے کے معاملہ میں خاصا کمزور ہے۔ اس لئے ان کو تقریر حفظ کرائی جارہی ہے اور اس کی تقریر ایک قسم کی پالیسی تقریر ہوگی اس وقت اہم مسئلہ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ اختلافات ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر بلاول زرداری بھٹو کو مشورہ بھی دے چکے ہیں اور ساتھ ہی الطاف بھائی نے رحمان ملک سے شکایت بھی کی۔ مگر اس معاملہ پر رحمان ملک بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ بلاول کے تمام معاملات کو ان کے والد محترم اور ان کی پھوپھی صاحبہ دیکھتی ہیں۔ بلاول زرداری کو عوام میں لانا ضروری ہے۔ مگر دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر وہ عوام میں گھل مل نہیں سکتے۔ پھر ان کی تقریر میں جوش اور جذبہ بھی ہوگا۔ کیا وہ اصلی ہوگا اورایک نوجوان لیڈر کے شایان شان ہوگا۔ ان کو اپنی پارٹی کی تاریخ کو دیکھنا ہوگا۔ وہ اپنے ورکروں سے معافی تلافی کی بات کر کے معاملہ ختم نہیں کرسکتے۔ ان کو چاروں صوبوں کے عوام کے پاس جانا ہوگا۔ آجکل کے حالات میں ایسا مشکل ہے بلاول کوئی کرامت دکھا سکتا ہے اس کا فیصلہ 18 اکتوبر کو ہوگا کہ پارٹی اب عوام کے لئے کیا کرسکتی ہے۔18 اکتوبر کا جلسہ مڈ ٹرم انتخابات کے تناظر میں نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو شک ہے کہ کسی بھی وقت کوئی ایسا معاملہ پیش آسکتا ہے جس کے بعد پارٹی کو مڈ ٹرم الیکشن کے لئے تیار ہونا ہوگا پھر اسمبلی کے لوگ اب اس معاملہ پر نجی محفلوں میں بات کرتے نظر آتے ہیں اس تناظر میں تمام اشرافیہ کی نظریں دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈروں پر لگی ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کا جماعت اسلامی سے رابطہ ان معاملات پر مشاورت کرنا اندرون خانہ تبدیلی کی خبر دیتا ہے۔ نواز لیگ نے اب تک کوئی ایسی معاملہ فہمی نہیں کی۔ جس سے اندازہ ہو کہ سرکار عوامی مسائل، دھاندلی، تعلیمی معاملات، صحت کے مسائل، نوجوانوں کے لئے نوکریوں کی گنجائش کے بارے میں کوئی اہم پیش رفت کی ہو۔ اس وقت دھرنے والے اپنی حکمت عملی تبدیل کررہے ہیں۔ اب موقعہ ہے کہ سرکار اس نظام میں تبدیلی کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کرے۔ کیونکہ عام آدمی کی زندگی دن بہ دن تنگ ہوتی جارہی ہے۔ آخر عوام کب تک صبر کا مظاہرہ کریں گے عوام کا مسئلہ جمہوریت نہیں ہے اور نہ ہی جمہوریت ان کی زندگی میں تبدیلی لا سکتی ہے اس لئے جمہوریت کے لیے بلند بانگ شور مچانےوالے لوگ اپنی زندگی میں موج میلہ کرتے نظر آتے ہیں اور عوام کے لئے ان کے پاس کوئی خبر نہیں ہے۔
پاکستان کے معاشرہ میں دولت کی تقسیم غیر منصفانہ طریقہ سے ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے سماج تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے۔ سیاست کے پرانے بت اپنی اہمیت اور حیثیت کھوتے نظر آتے ہیں۔ پھر ہماری اشرافیہ ان تبدیلیوں کے بارے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ قومی اسمبلی میں اس وقت قائمہ کمیٹیاں مختلف امور پر غورو فکر کرتی نظر آتی ہیں۔ مگر ان کی کارروائی سے جمہور کے حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالیہ دنوں میں جب وی آئی پی (VIP) کلچر کے خلاف شوروغل ہے قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط کی قائمہ کمیٹی نے رکن اسمبلی کو جہاز سے اتروانے پر سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے سنیٹر رحمن ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کو بدسلوکی کے تناظر میں رکھ کر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ پھر تمام ممبران اسمبلی کے لئے ہوائی اڈوں پر علیحدہ کائونٹر بنانے کی ہدایت جاری کی ہیں ایسے معاملات سے عوام میں مزید انتشار پھیلے گا اب سب کے حقوق ایک سے ہیں۔ اس معاملہ پر تمام سیاسی جماعتوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین