• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عجیب سے دن ہیں۔ موسم خزاں کی اداسی میں گرمی اور سردی کے رنگ تلے اوپر ہو جاتے ہیں۔ خبروں میں بھی تیزی مندی کا ایسا ہی ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی کو عالمی تمدن کا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا ہے۔ نوبیل امن انعام پانے والی ملالہ کی کہانی دیانت اور جرأت سے عبارت ہے۔ کئی برس پہلے طالبان نے سوات کی سرسبزوادی پر قبضہ کر کے علم پر قفل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ریاست سوات میں لڑکوں کا پہلاا سکول 1922ء میں قائم کیا گیا تھا۔ چند ہی برس بعد یہاں بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اسی زمانے میں باچا خان پختونوں میں فروغ علم کے لئے تحریک چلا رہے تھے۔ پختونخوا میں سوات کی تعلیمی ثقافت اس سے جانیے کہ ہر پڑھا لکھا شخص قمیص کی جیب میں قلم لگاتا تھا۔ پھر اس علم پرور دھرتی پر ایسی ہوا چلی کہ علم کے طالب کہلانے والوں نے علم دشمنی کا اعلان کر دیا۔ اہل صحافت اس عفریت کے وجود سے انکار کرتے رہے۔ مینگورہ کا گرین چوک خون میں نہا گیا۔ کوئی خاتون استاد محفوظ تھی اور نہ کوئی سیاسی کارکن۔ریاست نے اپنی عمل داری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس عہد بے اماں میں سوات نے انسانی عظمت کی بہت سی کہانیاں لکھیں۔ سیاسی کارکنوں میں سب سے پہلے بلند آواز افضل خان لالہ کی تھی جنہوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر طالبان کا مقابلہ کیا۔ سب سے حیرت انگیز آواز گل مکئی کی تھی۔ عین ممکن ہے کہ طالبان کے عہد ستم کی کہانی ایک بچی کی زبانی بیان کرنے کا خیال این فرینک کی ڈائری سے پیدا ہوا ہو مگر یہ طے ہے کہ ملالہ یوسف زئی واضح سوچ، بہادری اور پختہ عزم میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی میں غیر مسلح کر دینے والی ایسی سادگی پائی جاتی ہے جو صرف عظیم انسانوں کا حصہ ہے۔ 2009ء کے موسم خزاں میں حامد میر کے ساتھ سوات کی ایک سڑک پر ملالہ یوسف زئی کی فی البدیہہ گفتگو سننے کا جنہیں اتفاق ہوا، انہیں اس بچی کا اعتماد ہمیشہ کے لئے متاثر کر گیا۔ 9 اکتوبر 2012ء کی سہ پہر بالآخر طالبان کی بندوقوں نے اس نہتی لڑکی کو جا لیا۔ انتہائی مہلک زخموں سے جانبر ہونے کی کہانی میں کچھ اتفاقات ہیں۔ طب کی ترقی کو بھی دخل ہے۔ اس میں عالمی برادری کی انسان دوستی نے بھی حصہ ڈالا ۔ تاہم تسلیم کرنا چاہیے کہ فوج کے سابق سربراہ اشفاق پرویز کیانی کی ذاتی مداخلت نے اس بچی کی جان بچائی۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنے پر کلمہ ہائے اعتراف، احترام اور توصیف کے بارے میں دنیا بھر میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے سوائے ملالہ کے اپنے وطن میں۔ نام گنوائے جا رہے ہیں کہ فلاں فلاں کو یہ اعزاز کیوں نہیں ملا۔ صاحب، بجلی کا قمقمہ ایجاد کرنے کا اعزاز تو ایڈیسن کو ملے گا۔ فلپس کے بلب بنانے والی کمپنی اس اعزاز پہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ ہم نے زیادہ گھروں میں برقی روشنی پہنچائی ہے۔ انسانی ترقی تو ’شب آفریدی، چراغ آفریدم‘ کا مضمون ہے۔ملالہ یوسف جیسے افراد انسانی امکان کا افق وسیع کرتے ہیں ۔ اعزاز تخلیق پہ دیا جاتا ہے، دستکاری میں مہارت پہ نہیں۔ پاکستان میں انسانیت کے دھارے کے ساتھ ہم قدم ہونے کی خواہش جس قدر مضبوط ہے ، روح عصر سے انحراف کی روایت بھی اسی قدر پیوستہ ہے۔ بچیوں کی تعلیم تو ایک طرف رہی، ہماری ریاکاری سرے سے علم ہی کا یارا نہیں رکھتی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ علم کی روشنی کہیں ہمیں اس خواب سے بیدار نہ کر دے جس نے ہمیں اپنی پسماندگی سے غافل کر رکھا ہے۔ جہالت ہی کے بل پر ہم اپنے مسائل کی ایسی درد کش تشخیص کرتے ہیں جس سے زخم کی تکلیف تو محسوس نہیں ہوتی لیکن زیاں کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔
ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنے کی خبر 10اکتوبر کو ملی۔ اسی روز صبح توقیر احمد کا فون آیا۔ پرانے رنگ کے دیانت دار صحافی ہیں۔ پارسال بچی کو شعبہ معاشیات میں داخلہ دلایا تھا۔ تب بھی واجبات کی ادائی میں دقت پیش آئی تھی۔ خیر گزری کہ کچھ رعایت مل گئی۔ اگرچہ سدرمق کے برابر تھی اور غیر یقینی۔ اس برس چھوٹی بچی کو داخلہ دلایا گیا۔ ایک سمسٹر کی فیس ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہے۔ توقیر احمد کی آواز رندھ گئی۔ اب میں کیا عرض کرتا کہ توقیر احمد تعلیم کے شعبے میں محرر چونگی دخل پا گئے ہیں۔ شاپنگ مال کی چین نہ کھولی، تعلیمی اداروں کا جال بچھا لیا۔ پرانے زمانے میں اخبار جاری کیا جاتا تھا، اب ہم میڈیا گروپ لانچ کرتے ہیں۔ اتفاق سے اسی روز سہیل اختر کا فون آیا۔ ہم نے پرائمری اسکول میں ایک ہی ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی تھی۔ بوریہ نشینی کا رشتہ ہے۔ بتایا کہ ہفتہ بھر پہلے موٹر سائیکل سے گر گیا تھا ۔ کندھے پر چوٹ آئی ہے۔ چوٹ سے کہیں زیادہ فکر ہسپتال کے واجبات کی ہے۔ کراچی سے فیصل احسان تشریف لائے تھے۔ سلجھا ہوا ذہن ہے۔ سیاست ، معیشت اور تہذیب کے مسائل سمجھتے ہیں ۔ اچھی خاصی گفتگو کے آخر میں نتیجہ یہ نکالا کہ صاحب دس برس کے لئے مارشل لالگا دینا چاہیے۔ عرض کیا کہ آئینی پیچیدگیوں کو چھوڑ دیجئے، سیاسی عمل کی درماندگی پر بھی تین حرف بھیجئے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ آمریت عوام کو جواب دہ نہیں ہوتی۔ آمریت کے چار تجربے ہم نے کر دیکھے۔ صرف ضیاالحق کے عشرے پر غور کیجئے۔ کیا ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ ریاست نے ضیاالحق کے عہد میں تعلیم جیسی بنیادی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ صحت عامہ کو نجی شعبے کے سپرد کر دیا گیا۔ تعلیم عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے بہترین سرمایہ کاری ہے ۔تعلیم کی مدد سے پیدا ہونے والی معاشی ترقی، اجتماعی رویوں کے نامیاتی ارتقا سے ہم آہنگ ہوتی ہے ۔ چھپر پھاڑ کر ملنے والی امارت سے تو نودولتیا پن پیدا ہوتا ہے۔
ان دنوں ہمیں قومی زندگی میں ایک اور امتحان درپیش ہے ۔ ہماری سیاسی تاریخ بنجر نہیں ۔ لاہور کا موچی دروازہ، ڈھاکہ کا پلٹن میدان، پنڈی کا لیاقت باغ، کراچی کا نشتر پارک اور لائل پور کا دھوبی گھاٹ۔ ’تم نے ہر کھیت میں انسانوں کے سر بوئے ہیں‘۔ آج کل ان کھیتوں میں خوابوں کی نئی فصل بوئی جا رہی ہے ۔ بیج کی ماہیئت پہ غور کرنے کی فرصت کسے ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کی شہرہ آفاق تقریر ’میرا ایک خواب ہے‘ کسی تقریر نویس کے ہاتھ آگئی ہے۔ پچھلے برس سوات کے انتخابی جلسے میں اس خواب کو کرکٹ کے ورلڈ کپ سے ملایا گیا۔ اب فیصل آباد میں اسی تقریر کی پیروڈی ’میرا ایک جرم ہے‘ کے عنوان سے کی جا رہی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہےلئے کہ خواب میںتحریف کی جا رہی ہے یا جرم کا اعتراف۔ بیان صفائی میں بہت سی خالی جگہیں ہیں جن کے بیان سے بھی صحافتی غیر جانب داری مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آدھی کرنے کا اعلان کیجئے ، پانچ ایکڑ زمین مفت بانٹئے، رہنے کو مفت گھرکا وعدہ کیجئے ، تنخواہوں میں اضافے کی نوید دیجئے ، سو بات کی ایک بات یہ کہ دستر خوان پر کھانے کی رکابیاں ادھر ادھر کرنے سے قبیلے کا پیٹ نہیں بھرتا۔ معیشت کے باورچی خانے میںچولہا جلے گا تو وسائل پیدا ہوں گے۔ معیشت چھینا جھپٹی اور لوٹ مار سے بہتر نہیں بنائی جاتی۔ اتفاق کی بات ہے مارٹر لوتھر کنگ کی تقریر سے ایک برس پہلے 1962 ء ہمارے شاعر ن ۔ م ۔راشد نے بھی ایک نظم لکھی تھی۔ ’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘۔ کچھ برس بعد راشد نے ایک اور نظم لکھی ، ’خواب لے لو …خواب… اورلے لو ان کے دام بھی‘۔ صاحب مشکل تو یہی ہے کہ خوابوں کی دست فروشی تو کی جا سکتی ہے، خوابوں کے دام کہاں سے آئیں گے۔ غالب نے بھی پوچھا تھا، خس خانہ و برفاب کہاں سے لائوں؟
تازہ ترین