• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری دیہی آبادیوں میں سیاسی پارٹیوں سے زیادہ برادریوں کا اثررسوخ آج بھی ہے۔ بس تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب مضبوط شخصیات برادریوں پر حاوی ہورہی ہیں جہاں جس کا امیدوارزیادہ مضبوط اور اثر رسوخ والا ہو وہاں اس پارٹی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہو تے ہیں۔ درحقیقت ہمارے دیہی عوام ووٹ پارٹیوں کو دیتے ہیں نہ امیدواروں بلکہ یہ ووٹ اپنے کاموں کو دیتے ہیں۔ جو امید وار ان کے زیادہ کام کرواتا ہے یا مشکل گھڑی میں ان کی بات سنتا ہے ان کی خوشی غمی میں ان کے دروازے تک پہنچتا ہے۔ ان کے مسائل میں دلچسپی لیتا ہے۔اگر وہ خود یہ سب کچھ نہیں کرپاتا لیکن اس کے کارندے سرگرمی سے ان چیزوں پر دھیان دیتے ہیں۔ ڈرائنگ روموں میں جائزے تیار کرنے والے بالعموم اعتراضات کرتے ہیں کہ عوام سرمایہ داروں اور جاگیر داروں یا زمینداروں کو ووٹ کیوں دیتے ہیں۔غریب غریبوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے یہ سب آئیڈیل ازم کی باتیں ہیں۔ جو خودمسائل کا شکارہوگا وہ کسی کی خدمت کیا کرے گا۔ ہمارے ملک میں سیاست غریبوں کا کام ہی نہیں ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی غریب اگر سیاست میں کامیاب ہوبھی جاتا ہے تو اس کی پہلی ترجیح اپنی غربت کو دور کرنا ہوتا ہے۔استثنائی مثالیں بہر حال ہر جگہ ہوتی ہیں۔اس صورتحال کو تبدیل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔
الیکشن سے قبل جائزہ لینے والے کو دیہی امیدواران کے متذکرہ بالا کردار کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے اور یہ بھی کہ ٹکٹ لینے والوں کی اولین ترجیح کونسی جماعت یا شخصیت ہے۔ الیکشن 2013سے قبل ہماری نگاہ میں عمران خان یا ان کی جماعت دوسرے درجے میں بھی نہیں آرہی تھی۔ بلاشبہ بعض غیر ذمہ دارانہ تجزیوں سے یہ تاثر ضرور ابھارا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی یا اس کا لیڈر کوئی سیاسی طاقت بن کر آرہا ہے جس کا کسی حد تک نقصان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کو بھی پہنچا ۔لیکن مجموعی رویہ ایسے نہیں تھا۔ کم از کم پنجاب کی حد تک ہم یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حصول ٹکٹ کیلئے امیدواران کی ترجیح آخری مراحل تک مسلم لیگ (ن) ہی تھی۔ لاہور کے ایک حلقے میں جو مضبوط امیدوار تھااور واضح جیت کی پوزیشن میں تھااس نے کئی جتن کئے کہ مسلم لیگ ن اسے ٹکٹ دے دیں لیکن جب انکار ہوگیا تب اس نےتحریک انصاف کی طرف رجوع کیالہٰذا وہ نشست تحریک انصاف کو مل گئی۔ اسی طرح لاہور کے دیگر شہری حلقوں میں جہاں( ن) لیگ کے امیدوار زیادہ مضبوط نہیں تھے وہ میاں صاحب کی تمامتر مقبولیت کے باوجود شکست کھا گئے اور کہیں بہت کم فرق سے جیت پائے۔ کئی ایسے حلقے بھی تھے جہاں میاں صاحب کی مقبولیت اتنی زیادہ تھی کہ ان کے کمزورامیدوار بھی جیت گئے۔ بلاشبہ بعض اوقات کرشماتی شخصیات بڑے بڑے برج الٹا دیتی ہیں۔ ہماری نظر میں عمران خان کی اگر ایسی کوئی حیثیت تھی بھی تو وہ کچھ حاصل کئے بغیر ختم ہوچکی ہے۔ اگر ان میں صلاحیت ہوتی تو وہ خیبر پختونخوا میں کار کردگی دکھاتے۔ ایران اور ترکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں باصلاحیت لیڈر تو ایک شہر کی مئیر شپ کو اس زبردست اور کامیاب اسلوب سے چلاتے ہیں کہ قومی قیادت کا اعزاز پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آ گرتا ہے۔ جس لیڈر اور پارٹی کی انتظامی صلاحیتوں کا یہ حال ہو کہ اپنے ایک جلسے میں نصف درجن سے زائد نوجوانوں کی ہلاکتوں کاباعث بن جائے لوگ بیہوش ہو کر گررہے ہوں پانی کی دھائی دی جارہی ہو لیکن لیڈر صاحب کہیں کہ شور نہ کرو مجھے تقریر کرنے دو۔الیکشن 2013کا اصل المیہ یہ ہوا کہ چند شہری حلقوں میں بوجوہ تحریک انصاف کی پوزیشن بہتر تھی لیکن ان کی آبادی کا بڑا حصہ دیہات پر مشتمل تھا۔ جب انتخابی نتائج آنا شروع ہوتے ہیں تو عموماً ہوتا یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے نتائج قدرے تاخیر سے موصول ہوتے ہیں اس کی کئی وجوہ ہیں اور شہری نتائج کا جلد اعلان ہوجاتا ہے، چونکہ شہری علاقوںسے جو نتائج جلد پہنچ گئے ان کے مطابق کئی مقامات پرتحریک انصاف کے امیدواربہتر پوزیشن میں آتے دکھائی دیئے جس سے عمران خان اور ان کے کارکنوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ جیتنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن جیسے ہم نے اوپر واضح کیا کہ دیہی علاقوں میں عمران خان یا ان کے امیدواروں کا اثر رسوخ نہ ہونے کے برابر تھا اور یہی نتائج تاخیر سے موصول ہوئے انہوں نے جونہی پانسہ تحریک انصاف کے خلاف پلٹتا دیکھا تو عمران اور ان کے ہمنواؤں نے سمجھا کہ دھاندلی ہوگئی ہے۔ عمران خان کو یہ غلط فہمی اگلے انتخابات میں پھر ہوگی ہمارا یہ تجزیہ محض لاہورکے حوالے سے نہیں بلکہ پورے پنجاب بلکہ پاکستان کے حوالے سے ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی وہی حیثیت تھی جو پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کی تھی۔ تحریک انصاف کو تو چالیس کے قریب قومی حلقوں میں امیدوار ہی نہیں مل سکے تھے۔ لہٰذا عمران خان جمہوری طریقے سے وزیراعظم بننے کا کیسے سوچ سکتے تھے۔اگر موثر سیاسی و جمہوری قوتیں متحد ہوجائیں تو ایمپائر کی انگلی کا اٹھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کو اس قدر مجبور و لاچار بنانے کا جرم نہ کیا جائے۔ کاش یہاں چند برس سویلین اتھارٹی کو بھی آزاد فضاء میں کچھ انقلابی اقدامات اٹھانے کیلئے مل جاتے۔ایسے ہی موقع پرستوں اور اقتدار کے حریصوں کی وجہ سے ملک میں آئین پارلیمنٹ اور جمہوریت پہیم سرنگوں ہیں اجتماعی عوامی شعور یرغمالی بن کر رہ گیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان عوامی سطح پرا تنے مقبول لیڈر نہیں ہیںتو پھر ان کے اتنے بڑے بڑے جلسے کیسے ہورہے ہیں۔ عوام کے وہ ایلیٹ طبقات جو بالعموم سیاسی ہنگاموں سے دور رہتے ہیں وہ بھی جوق در جوق کیونکر ان جلسوں میں شریک ہوتے ہیں؟ہمارا جواب یہ ہے کہ جلسے تو اصغر خاں کے بھی اتنے ہی بڑے ہوتے رہے جس کو شک ہے وہ 77ء کی میڈیا فائلیں نکال کرملاحظہ فرمالے۔ میاں طفیل محمد اور قاضی حسین کی قیادت میں جماعت اسلامی کے جلسوں کی ویڈیوز بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگر یہ دور کی باتیں ہیں توعلامہ طاہر القادری کے عوامی جلسے تو زیادہ پرانے نہیں ہیں لیکن ان سب کے ووٹ بنک اورحاصل کردہ نشستوں کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے جلسوں کی بنیاد پر اگر نشتیں ملتی ہوں تو پھر ان سب لیڈران کو وزرائے اعظم ہونا چاہئے تھا۔ لہٰذ عمران خان حوصلے سے کام لیں۔ان کی تمنائے اقتدار کتنی ہی بے تاب سہی سیاست ایک نو ع کی عاشقی ہے اور عاشقی بہر حال صبر طلب ہوتی ہے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں کہیں وہ ملک و قوم کو کسی بڑی آزمائش میں مبتلا نہ کر دیں۔ یہ کمزور و ناتواں جمہوریت بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد بحال ہوئی ہے۔ عمران خان صاحب اور ان کے ہمنواؤں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ غیرذمہ دارانہ رویہ ترک کردیں۔
تازہ ترین