• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاج پورہ لاہور سے، اپنے ایک قاری ارشاد احمد کا خط پیش کررہا ہوں، غور سے پڑھنے کی زحمت فرمائیں، گفتگو بعد میں ہوگی۔دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کی صداقت کے سائے میں میں نے تحریر میں زبان و بیان کی کمزوریاں نظر انداز کردی ہیں، آپ بھی ارشاد احمد، ایک عام پاکستانی کے بیانئے کو اس کے فطری لہجے سے بہتی سچائی کی برکت کے آئینے میں دیکھئے، آپ کے قلب و نظر پر اثر انگیز ی کی ایک کیفیت طاری ہوتی جائے گی۔
لکھتے ہیں:’’ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے نظریاتی سیاست کا عہد باندھا۔ عوامی ووٹ سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو ایک ترقی پسندانہ مستقبل کا وژن دیا، تیسری دنیا کے ملکوں میں ایک رہنما کا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا، اسلامی کانفرنس کے انعقاد سے عالم اسلام کی قیادت کے راستے کھولے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دم لیا۔ بھٹو نے قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے عوامی شعور دیا، دشمن ملک سے 90 ہزار جنگی قیدی آزاد کروائے۔ پھانسی کا پھندا قبول کرلیا مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن سے باز نہ آئے۔ انہوں نے اپنی جان دے کر قائد اعظم سے کئے گئے وعدے کی تکمیل کردی۔ یاد رہے ذوالفقار علی بھٹو نے اسکول کے زمانے میں اپنے قائد کو لکھا تھا کہ پاکستان کے لئے اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پورے عالم اسلام کی حمایت حاصل تھی، انہوں نے عوام کو ایک نئی طاقت عطا کی،اسلامی دنیا کو بتایا کہ اگر طاقت ہوگی تو کوئی ملک مسلمانوں کو کمزور نہیں کرسکے گا۔یہ لفظ انگریزوں اور امریکیوں کو پسند نہ تھے۔ اسلامی ملکوں کےلیڈروں کو ایک ایک کرکے ختم کردیا گیا صرف اس لئے کہ انگریزوں اور امریکی طاقت کو کوئی دوسرا ملک کمزور نہ کرسکے جس کے بعد اسلامی ملکوں کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیربھٹو کی صورت میں نیا بھٹو جنم لے چکا تھا،جس جنرل ضیاء الحق نے اسے پھانسی دی تھی اسے قدرت نےآسمانوں ہی سے اٹھالیا، فوج جو ضیاء الحق کے دس برس کے دوران میں اپنا کنٹرول قائم کرچکی تھی نہیں چاہتی تھی کہ بھٹو ازم دوبارہ پروان چڑھے، چنانچہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی کے نام سے اتحاد قائم کرکے پنجاب میں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنادیا گیا۔ بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آکر اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف مرزا اسلم بیگ کو تحفہ جمہوریت سے نوازا تاکہ جمہوریت کے لئے جو کوشش کی گئی تھی وہ ختم نہ ہو مگر 18 ماہ کے بعد ہی انہوں نے بی بی کی حکومت ختم کرنے کے لئے صدر غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا۔ پچھلے دنوں مرزا اسلم لیگ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں نے جمہوریت کی خاطر مارشل لاء نہیں لگایا تھا جبکہ ایسا صرف اس لئے تھا کہ انہیں اس وقت کسی طاقت کی سپورٹ حاصل نہیں تھی مثلاً امریکہ وغیرہ!جس طرح جنرل ضیاء الحق کو سپورٹ حاصل تھی۔ امریکہ کو اس وقت جنرل ضیاء کی ضرورت تھی، افغانستان کی جنگ کے لئے جس کی سزا پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں، جس امریکہ کی خاطر جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دے کر پاکستان اور عوام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔
آج پاکستانی قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ عوام کس لیڈر پر بھروسہ کریں۔ قائد اعظم اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد فوجی حکومتوں ، ٹیکنو کریٹس اور بیوروکریسی نے اقتدار حاصل کرکے عوام سے کوئی وفا نہیں کی، بینظیر شہید کے بعد سیاستدانوں نے بھی حکومت میں آکے ایسا ہی عمل دکھایا۔ بھٹو خاندان نے ووٹ کی طاقت سے انتقام لے کر یہ بات ہر دفعہ ثابت کی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ بھٹو خاندان نے پاکستان اور عوام کی خاطر ہمیشہ فوج کو عزت دی صرف اس لئے کہ جن لوگوں نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی، خدا نے دنیا میں ہی ان کا حساب برابر کردیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سچا لیڈر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا تھا مگر بھٹو خاندان کو، عالمی طاقتوں سے مل کر صرف اس لئے پھانسیاں دی گئیں ،گولیاں ماری گئیں تاکہ پاکستان کے عوام اور ملک کبھی مضبوط نہ ہوسکیں!
آج اگر ہم یہ بات سوچتے ہیں کہ چین اتنی بڑی طاقت کیسے بنا تو جناب ان کے لیڈروں نے اور عوام نے کبھی کسی دوسرے ملک کی طرف نہیں دیکھا کہ ہماری مدد کریں۔ جہاں ان لیڈروں نے محنت کی وہاں عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا مگر پاکستان میں تو ہر دوسرا سیاستدان عقل کل ہے اور کسی دوسرے کی بات بھی نہیں سنتا۔ آج اگر پاکستان مضبوط ہے تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کے قائد اعظم کے ساتھ سچے وعدے کا نتیجہ ہے جس نے جان دے کر وطن عزیز کو ایٹمی طاقت بنانے کا ناقابل فراموش فریضہ سرانجام دیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کرنی ہے تو وہ قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو یاد رکھے۔ آصف علی زرداری نے گزشتہ پانچ برس کے دورانئے میں مشکل حالات کا مقابلہ کرکے حکومت کی ، اپنی بیگم بینظیر بھٹو تک کی قربانی کا غم سہا ،والد کا تجربہ بلاول بھٹو کے کام آئے گا، اسے مگر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اب بھی عوام کی طاقت بھٹو خاندان کے ساتھ ہے، عوام کا رشتہ موجود ہے۔ عوام نے اگر ہر دفعہ بھٹو خاندان کا ساتھ دیا تو بھٹو خاندان نے بھی عوام کو نہیں چھوڑا ، اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ بتائو کسی اور لیڈر یا خاندان نے اتنی قربانیاں دیں؟ پھر بھی بھٹو خاندان نے عوام سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔
اگرآج بلاول بھٹو زرداری نے عوام سے معافی مانگی ہے تو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ خدا بلاول بھٹو زرداری کو ایک بار پھر کامیاب کرے گا۔ عوام کے ووٹ سے بلاول بھٹو زرداری ثابت کردے گا کہ بھٹو خاندان کا چراغ اب بھی موجود ہے۔ قائد پاکستان اورقائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی طرح بھٹو خاندان کو صرف یہ سوچنا ہوگا کہ اب صرف عوام کے حقیقی نمائندے ہی قابل قبول ہونگے۔ صرف عوام کے خدمت گزار ہی بلاول بھٹو زرداری کی فہرست میں ہونے چاہئیں، اسے ہر اس آدمی کو پارٹی سے فارغ کرنا ہوگا جس کی وجہ سے یا جن کی وجہ سے عوام بھٹو خاندان اور پارٹی سے مایوس ہوتے جارہے ہیں؟
ارشاد احمد، ایک عام پاکستانی کا خط کیا ہے؟ اس کی سوچوں کی تصویر، اس کے لاشعوری حسین خوابوں کا ایک جہاں جس کی عملی تعبیر دیکھنے کی آرزو، اس نے اس روز پالی جس روز اسے سندھ کی وادیوں سے یہ صدائے حق سنائی دی تھی ’’عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ ‘‘وہ کوئی دانشور نہیں مگراس کے حسین خوابوں کے چکنا چور ہونے کے اسباب تک اس کا قدرتی ادراک بالکل صحیح سفرکرتا ہے، آپ اس خط میں ذکر کئے گئے تما م کرداروں کے ناموں پر غور کریں، قائداعظم، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاالحق، امریکہ یا انگریز، مرزا اسلم بیگ، بے نظیر بھٹو شہید، غلام اسحاق خان، نوازشریف یا آئی جے آئی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری، گویا جن کرداروں نے اس کے سپنوں کو شکل دی وہ بھی اس عام پاکستانی کو یاد ہیں، جنہوں نے اس کے ان سپنوں کا تار و پود بکھیر دیا وہ بھی ایک لمحے کو اس کی نظروں سے اوجھل نہیں، ابھی تک بھٹو خاندان کے ساتھ بندھی اس کی ڈوری ٹوٹی نہیں، وہ بلاول سے مخاطب ہو کے اپنی بات یہاں ختم کرتا ہے ’’ذرا آواز دے کے تو دیکھ‘‘۔ یعنی عوام سے اپنے اس رشتے کو حق سچ کے ساتھ یاد کرو جن کے بارے میں تمہارے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے تمہاری والدہ شہید سے کہا تھا ’’پیاری بیٹی، میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں، یہ پیغام آنے والے دنوں کا پیغام ہے اورتاریخ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پہ یقین کرو، ان کی نجات اور مساوات کے لئے کام کرو۔ جس طرح اللہ کی جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے، اسی طرح سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے‘‘۔
میں اپنی کسی قیاس آرائی کا حوالہ دے کر ارشاد احمد کی آس کا تار توڑنا نہیں چاہتا، اس سمیت عوام کو بلاول کی وہ تصویر دیکھنے کا مشورہ دینے کا البتہ خواہاں ہوں جس میں وہ سیلاب کے پانی میں اترتا ہے، غربت اور محرومیوں کے پہاڑوں جیسی بوڑھی عورتوں میں سے ایک اس کی بلائیں لیتی اس کے سرخ و سفید رخسار پر اپنا ہاتھ پھیرتی ہے، ابھی اس ہاتھ کے پیار کے دائرے کی قوس کا باطن مکمل نہیں ہو پاتا جب بلاول ایک زبردستی کی دھیرج کے ساتھ اس کے ہاتھ کو اپنی ایک دبائو آمیز گرفت کے ذریعے بھٹو خاندان پر اس یقین کے ٹپکے ہوئے قطرے سے اپنی جان چھڑالیتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی احیائے نو، نشاۃ ثانیہ یا بحالی؟
بلاول بھٹو زرداری کی معافی سے اس امید کی کونپل پھوٹی، ’’صدر‘‘آصف علی زرداری نے پنجاب آکے، پارٹی ورکروں سے تعلق کی عظمت منوانے کا اہتمام کیا، اس اہتمام کے دوران میں پارٹی ورکروں میں سے ایک نے جب گزشتہ دور میں ایوان صدر میں موجود رخسانہ بنگش کے رویے پر اپنی احتجاجی چیخیں ذرا زیادہ زور سے بلند کیں، تب وہ رخسانہ بنگش کی طرف دیکھ کے مسکرائے، گویا پارٹی کے اس ورکر یا پاکستان کے ایک عام آدمی کو’’ صدر‘‘ کی اس ’’مہربانی‘‘ کو اپنی زندگی کی متاع عزیز سمجھ کے ’’آخرت‘‘ کی تیاری کرنا چاہئے، شاید وہاں نعوذ باللہ یہ بھی پوچھا جائے میاں وہ تمہاری احتجاجی چیخوں پر متوجہ ہو کے مسکرائے تو تھے اب اور کیا چاہتے ہو؟ ’’صدر‘‘نے ٹھیک کہا ’’کوئی اسپتال بنانے سے سیاستدان نہیں بن جاتا‘‘۔ مگر ’’صدر‘‘ سے کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ عوام کی جنت کسی کا دان نہیں، طاقت کا سرچشمہ ہے، جسے درکار ہے وہ لوگوں کے سامنےدو زانو ہو کے گھٹنے ٹیک کے، سر تسلیم خم کر کے حاضر ہو، یقین کر لے کہ سیاسی شطرنج کے چہروں کی دنیا آباد کر کے بھٹو خاندان کے عوامی رشتے کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ارشاد احمد کا خط ختم ہوا، پاکستانی پیپلز پارٹی اور عوام کے معاملے پر ہمیں جو کہنا ہے وہ انشا اللہ پھر کہیں گے۔
تازہ ترین