• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد پہلے روز سے ہی خطے کاا ہم ترین ملک رہا ہے ۔ایشیاء کے بیشتر ممالک جبکہ بھارت ، چین ، ایران کی سکیورٹی اور ترقی بھی پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ دنیا پر یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی سلامتی خطے کی سلامتی ہے۔پاکستان میں عدم تحفظ خطے کیلئے کسی طرح بہتر نہیں۔حالیہ چند برسوں میں مشرق وسطیٰ میں انتہا پسندی کی لہر جوآئی ہے اس تمام صورتحال سے پاکستان الگ نہیں رہ سکتا۔مشرق وسطیٰ کے ممالک میںیہ تشویش پائی جا رہی ہے کہ اس خطے میں جو تشدد کی نئی لہر چل رہی ہے اس کا مقصد وہاں فرقہ ورانہ عدم استحکام پیدا کرنا ہے جبکہ دیگر عرب ممالک اسے اپنے خلاف ایک بڑی سازش تصور کر رہے ہیں اورانہیں کہیں نہ کہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس تمام صورتحال کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی ممالک ہیں۔جن کی نظر مشرق وسطیٰ کے وسائل پر ہے ۔اس خطے کے ممالک امریکہ اور ایران کے تعلقات پر بھی گہری نظررکھے ہوئے ہیں۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی اہمیت ان کے نزدیک بڑھ گئی ہے۔ ان میں سے بیشتر ممالک اپنی سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان سے نہ صرف مشاورت بلکہ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کیلئے عملی اقدامات کرنے لگے۔بحرین کے امیر کا دورہ پاکستان کی بڑی وجہ ان کے ملک کی سکیورٹی کے معاملات کے حوالے سے نہ صرف پاکستان کی تبادلہ خیال کرنا تھابلکہ اس میں پاکستان سے مدد کی بھی درخواست کی گئی ۔یہاں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ نواز شریف جلا وطنی ختم کر کے جب پاکستان واپس آنے والے تھے تو شاہ عبداللہ نے ان سے ملاقات کے دوران واضح طور پر یہ کہا کہ کبھی امریکہ پر اعتبار نہ کرناجو یقینا انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں کہا ہو گا۔
ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ بحرین اپنے ہاں میں انسداد دہشت گردی فورس بھی بنا رہا ہے جس کے لئے وہ پاکستان سے تیکنیکی مدد لینے کا خواہاں ہے جبکہ انٹیلی جنس کے نیٹ ورک کے حوالے سے پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور عملی مدد کا بھی طلبگار ہے۔ اسی طرح ایک اہم براداراسلامی ملک جس کےپاکستان سے تعلقات ہمیشہ ایک جان دو قالب جیسے رہے ہیںاور اس نے ہمیشہ پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ بھرپور مدد بھی کی ہے جس کی ماضی میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔اپنے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان سے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔بالخصوص انٹیلی جنس کے نظام میں پاکستان سے بھرپور تعاون چاہتا ہے اس کے علاوہ اپنی سکیورٹی کے حوالے سے بھی پاکستان کی مدد کا خواہاں ہے اس تمام صورتحال سے پاکستان کیلئے ایک موقع بنتا جا رہاہے کہ پاکستان نہ صرف عرب خطے کے سکیورٹی کے حوالے سے مسائل حل کرنے میںاپنا کردار اداکرے اوراس کے بدلے عرب دنیا سے پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لئے تعاون کرے ۔ہم اس کو ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ عرب دنیا نے اپنی سکیورٹی کے حوالے سے امریکہ کے بعد پاکستان کو بھی اہمیت دینا شروع کر دی ہے ۔بحرین اپنی اینٹی ٹیرارزم فورس کے لئے افرادی قوت سمیت دیگر وسائل کے حصول کا بھی خواہشمند ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت مستحکم طریقے سے چل رہی تھی عسکری و سول اداروں کے درمیان کوئی اختلا ف نہ تھا تو پھر اچانک ہمارے ملک میں بحرانی کیفیت کیسے پیدا ہو گئی اور گزشتہ دو سے تین ماہ میں ہماری حکومت اچانک کمزور کیوں ہو گئی یہ سوال میں نے اسٹیبلشمنٹ کے ایک اعلیٰ افسر سے کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ دونوں شریف ایک پیچ پر ہیں جس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے لیکن مغرب یہ کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان خصوصاََ عرب اور بالعموم اسلامی دنیا میں اہم کردار ادا کرے جبکہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت بھی مغرب اور بھارت کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے ۔کاشغر ، گوادر راہداری منصوبہ بھارت کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ اس کی تعمیر کے بعد ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کے نقل و حمل کےاخراجات میں تقریبا 5ہزار ڈالر فی کنٹینر کی کمی واقع ہو سکتی ہے جس سے چین کو درآمدات میں مزید فائدہ ہو گا جبکہ پاکستان کیلئے بھی یہ نہر سویز سے زیادہ مفید ثابت ہو گی ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان کے موجودہ عدم استحکام میں یہ محرکات کارفرما نہ ہوں۔اب تھوڑی بات کرتے ہیں لندن پلان کے حوالے سے طاہرالقادری کینڈین شہریت کے حامل ہیںاورعمران خان طاہر القادری کے بارے میں ماضی میں کچھ اچھی رائے نہیں رکھتے تھے ۔ان کا طاہر القادری کے ساتھ ملاقاتیں کرنااور ایک ساتھ چلنا سوالیہ نشان ہے ۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک میری عمران خان سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں وہ بہت پُر اعتماد تھے کہ سال کے آخر تک نئے الیکشن کا اعلان ہو جائے گا۔ جب ان سے یہ سوال کیا جاتا کہ یہ کیسے ممکن ہو گا تو وہ اس کے جواب میں مسکرا دیتے۔ 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور جنرل پاشا کے درمیان رابطوں کی بات اب پوشیدہ نہیں رہی جبکہ چند روز قبل عمران خان ایک انٹرویو میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان کی زندگی میں جنرل پاشا سے صرف تین یا چار ملاقاتیں ہوئیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز اور دوسرے درجے کی قیادت یہ بات نہیں سمجھ پار ہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف طاہر القادری کے ساتھ مل کر کیوں احتجاجی تحریک چلانا چاہتی ہے ۔ اس کا جواب یا تو مل چکا ہے یا جلد ہی ملنے والا ہے ۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ عمران خان کے واضح اہداف حکومت گرانا اور نئے انتخابات کے بعد حکومت حاصل کرنا تھا اور اگر کوئی بین الاقوامی ایجنڈا ہے یا تھا تووہ اس سے لا علم ہو سکتے ہیں لیکن اگر لندن پلان میں کوئی ایسی پوشیدہ منصوبہ بندی تھی تو عمران خان کے علاوہ ان کے دیگر کسی مرکزی عہدیدار کو اس کا علم ضرور ہو گا۔میرے اندازے کے مطابق کہانی ابھی باقی ہے اور حکومت اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ بحران ٹل گیا ہے تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔بحران کی شدت میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے ۔اگر کوئی کہانی کارہے وہ اس کہانی کے لئے مزید ایندھن اور مواد ضرور فراہم کر رہا ہو گا اور میںبرادر انصار عباسی کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ سینیٹ کے الیکشن سے قبل حکومت پر ایک بھرپور حملے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم اس میں ایک فرق نمایاں نظر آسکتا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کزن تو ر ہیں گے لیکن دھرنا ہمسائیگی ختم ہو جائیگی اور دونوں اپنی الگ الگ تحریک چلائیں گے ۔ عمران نے تو شہر شہر جلسے شروع کر دیئے ہیں جبکہ قادری صاحب بھی سیاست میں آنے اور انقلاب مارچ کو دھرنا تحریک میں بدلنے کا اعلان کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اب شہر شہر دھرنا ہو گا۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دھرنے والوں کے ستم کا شکاراسلام آباد آئندہ دنوں میں دوسرے شہروں کو بھی تکلیف میں دیکھے گا۔
تازہ ترین