• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں، خضر صاحب جیسے۔ اُن سے پہلی ملاقات ایک چھوٹی سی لائبریری میں ہوئی تھی۔
کتابیں پڑھنے کی عادت ابّا نے بہت کم عمری میں ڈال دی تھی۔ اُس زمانے میں پاکستان میں چَھپنے والے، اور ہندوستان سے آنے والے کئی رسالے، ہر ماہ لا کر دیتے تھے۔ تعلیم و تربیت، نونہال، پھلواری، اور دہلی سے آنے والا کھلونا، بعد میں جنگ گروپ کا بھائی جان، اور دوسرے کئی رسالے باقاعدگی سے آتے تھے۔ مگر وہ سب مہینہ ختم ہونے سے پہلے پڑھ لئے جاتے تھے۔ ہیرآباد میں قیام کے دوران، گھر کے قریب ہی ایک لائبریری مل گئی تھی ، مطالعہ کی پیاس بجھانے کے لئے۔ وہاں سے بہت سی کتابیں ملیں۔ نام یاد نہیں رہے، کچھ کا مواد یاد رہا۔ بعد میں پتہ چلا وہ الف لیلیٰ تھی، اور داستانِ امیر حمزہ۔ اور پتہ نہیں کون کون سی کتابیں ان دنوں پڑھیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ مطالعہ کی عادت پختہ ہوتی گئی۔ ابا حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایم اے کے لئے بھی کتابیں وہ خود خرید کر لائے۔ ان کی خریدی ہوئی ڈکشنری اب تک موجود ہے، اور انگریزی کی وہ کتاب بھی جس سے انہوں نے میری تعلیم شروع کی تھی۔
کتابوں کی تلاش میں سڑکوں کی خاک چھانتے تھے۔ لائبریریاں ڈھونڈتے تھے۔ ایسی ہی ایک تلاش میں وہ مل گئے۔خضر صاحب سے تعلقات دن بدن بڑھتے رہے۔ رابطہ ان کے آخری وقت تک رہا۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ ایوب خان کے زمانے میں، بنیادی جمہوریت کے تحت ایک اچھا کام لائبریریوں کا قیام تھا۔ لطیف آباد نمبر سات میں جمہور لائبریری قائم کی گئی تھی۔ خضر صاحب ساری زندگی اسے سنبھال کر رکھتے رہے۔ ان کے جاتے ہی لائبریری تباہ و برباد ہو گئی۔ جب تک ان کے پاس رہی، وہ کتابوں کی ہی نہیں، کتاب پڑھنے والوں کی بھی دیکھ بھال کرتے رہے۔ کس عمر کے بچے کو کونسی کتاب پڑھنی چاہیئے، کس کتاب میں کیا ہے، وہ ان سب باتوں کا خیال رکھتے۔ لائبریری آنے والے طلبہ کی وہ اس حد تک مدد کرتے کہ ایم اے اور ایم فل کے مقالے لکھنے میں بھی معاونت کرتے۔ خضر صاحب کبھی کبھی کتابوں کا ڈھیر اپنی سائیکل کے کیریئر پر باندھے ہوئے بھی نظر آتے۔ یہ کتابیں کبھی تو وہ لوگوں کو ان کے گھروں پر فراہم کرنے کے لئے لے جاتے، اور کبھی ان لوگوں سے واپس لاتے جو کتابیں رکھ کر بیٹھ جاتے تھے۔ خضر صاحب کی کتاب کوئی لے کر نہیں جا سکتا تھا۔ وہ ان کی پہلی محبت تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد جمہور لائبریری ایک دوسری لائبریری میں ضم کر دی گئی۔ وہاں جگہ نہیں تھی۔ دو دکانوں میں ایک چھوٹی سی لائبریری تھی، اس کا ظرف بھی اس کے نگرانوں کی طرح تنگ تھا۔ کتابیں بوریوں میں بھر کر رکھ دی گئیں، اور وہیں پڑے پڑے خضر صاحب کی ، بڑی محنت اور محبت سے جمع کی ہوئی کتابیں ضائع ہو گئیں۔ کتابیں پڑھنے والے ایک شفیق اور مہربان شخص سے تو محروم ہو ہی گئے تھے، کتابوں کو بھی رو لئے۔ شہر میں کچھ بڑی لائبریریاں بھی تھیں۔ ہوم اسٹیڈ ہال میں ایک بہت بڑی اور بہت قیمتی لائبریری تھی۔ پاکستان بننے سے پہلے قائم کی گئی تھی۔ ایک بڑا ہال تھا، کتابوں سے بھرا ہوا۔ اس جگہ ایسی کتابیں بھی تھیں جو عرصہ ہوا چھپنا بند ہو گئی تھیں۔ یہ کتابیں زیادہ تر برطانیہ اور امریکہ میں چھپی تھیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے لائبریری کے قیام کے وقت خریدی گئی ہونگی۔ کسی کتاب کی تلاش کے لئے پبلشر کو جب بھی خط لکھا ، جواب یہی آیا کہ اب یہ کتاب شائع نہیں ہوتی۔ اس لائبریری پر بڑا برا وقت آیا۔ میونسپلٹی نے اپنا ایک دفتر اس عمارت میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں کیں، لائبریری میں آنے والوں کا وفد لے کر گئے۔ طوطی کی کسی نے سنی نہیں۔ آدھے سے زیادہ ہال پر بلدیہ کا دفتر بنادیا گیا۔ کتابوں کی الماریوں کو اِدھر اُدھر کھسکا دیا گیا، شیشے اگر ان کے ٹوٹ گئے تو کسے فکر تھی۔ کتابیں اگر ضائع ہونگی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک یہ ہال بلدیہ کے کسی دفتر کے قبضہ میں رہا۔ لائبریری کو کس کو دیکھنا تھا۔ کتابوں کی دیکھ بھال کون کرتا۔ اس پہ توجہ بلدیاتی اداروں کے قیام کے بعد دی گئی۔ کنور نوید کی نظامت کے دوران ا س لائبریری کو بحال کیا گیا، بلکہ تعمیر نو کی گئی۔بلدیہ کا دفتر وہاں سے منتقل کیا گیا۔ لائبریری کا نیا نام حسرت موہانی لائبریری رکھا گیا۔ کتابوں کی دیکھ بھال کی گئی، بچوں کا حصہ الگ کیا گیا، جہاں بچوں کے رسالے اور کتابیں با قاعدگی سے فراہم کی جاتی تھیں۔ بلدیہ کے دفتر کی یہاں موجودگی کے دوران اُن نادر قیمتی کتابوں کا کیا ہوا، کوئی اندازہ کسی کو شاید ہی ہو۔ لائبریری بہر حال بحال ہو گئی تھی، ضلعی حکومت کے فنڈ سے ۔ یوں ایک بہت اچھی لائبریری کا فیض ایک طویل عرصہ کے بعد جاری ہوگیا۔ اب بلدیاتی ادارے تو رہے نہیں۔ فنڈ بھی فراہم نہیں کئے جا رہے۔ فنڈکی قلت ہوگئی، اتنی کہ ملازمین کی تنخواہیں بھی نہیں دی جا رہیں۔ حالانکہ گزشتہ ماہ ہی لائبریری کو صوبائی محکمہ ثقافت کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ محکمہ ثقافت کی اپنی ثقافت ہے۔ اسے لائبریریوں، فنکاروں اور فنون لطیفہ سے کیا غرض۔
کتاب دشمنوں کی کمی نہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن قائم کئے گئےتھے۔یہ بعد میں پاکستان نیشنل سنٹر بنا دیئے گئے۔ ہرسینٹر میں ایک لائبریری ضرور ہوتی تھی۔ تلک چاڑی پر ایک بڑی عمارت میں بھی ایک سینٹر قائم ہو ا تھا۔ حمید آخوند اس کے ڈائریکٹر تھے۔وہ بعد میں اطلاعات کے اور ثقافت کے سیکریٹری رہے، کئی اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اور کراچی میں موہٹہ پیلیس کی بحالی میں بھی، حمید ہارون کے ساتھ ان کا بڑا اہم کردار رہا۔ اب بھی قومی ورثہ قرار دی گئی پرانی عمارتوں کی بحالی کے ادارے سے وابستہ ہیں اور کئی عمارتیں بحال کرواچکے ہیں۔ اس سینٹر میں جوہر حسین بھی ڈائریکٹر تھے۔ وہ پہلے کراچی میں بھی ایسے ہی سینٹر کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ پروفیسر کرار حسین مرحوم کے بڑے بیٹے تھے ۔ طلباء سیاست میں اس دور میں سرگرم رہے جب کراچی سے درجنوں طالب علم رہنمائوں کو شہر بدر کردیا گیا تھا۔ ان کا تعلق ایک معتبر علمی، اور اگران کے برادر خورد سینیٹر تاج حیدر کا حوالہ دیا جائے تو سیاسی ، خانوادے سے تھا۔ مجلسیں بپا رکھتے تھے ، دوستوں اور احباب کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ پورے ملک کی طرح حیدرآباد میں ایسے کئی سینٹر تھے ۔ ضیا ء الحق کے زمانے میں یہ سنٹر بند کردیئے گئے۔ یہاں موجود ہزاروں کتابیں ڈبوں میں بند کر کے اسلا م آباد بھیج دی گئیں۔ وہاں ان کا کیا ہوا، کون جانے۔ حیدرآباد تو ان کتابوں سے محروم ہوگیا۔اس سے پہلے شہر کچھ ایسے اداروں سے محروم ہو گیا تھا جہاں لوگ علم کی پیاس بجھانے جاتے تھے ۔ برٹش کونسل تھا اور امریکن سینٹر۔ برٹش کونسل میں انگریزی اد ب کی کتابیں بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ یونیورسٹی اور کالج کے انگریزی ادب کے طلبہ ان سے استفادہ کرتے تھے۔ اوروہ کیسے لوگ تھے جو ان اداروں میں تعینات تھے کہ علم وادب کی ترویج میں پیش پیش رہتے۔ کونسل کے انچارج بخاری صاحب تھے، گورے چٹّے اور مہربان۔ (ان کا پہلا نام یاد نہیں رہا)۔ کونسل آنیوالے سارے ہی طلبہ سے انکی دوستی تھی، اور وہ سب کا خیال رکھتے تھے، رہنمائی کرتے تھے۔ ایم اے کرتے وقت برٹش کونسل کی لائبریری سے بہت استفادہ کیا، سب ہی کرتے تھے۔ یونیورسٹی کی لائبریری کے بعد سب ہی یہاں آتے تھے۔ پھر پتہ نہیں کیوں برٹش کونسل بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بہت کوشش کی یہ فیصلہ تبدیل ہو جائے، ناکام رہے۔ برٹش کونسل بند کر دیا گیا۔ بخاری صاحب بھی کراچی آگئے۔ یہاں بھی ان سے ملاقات ہوتی رہی گو کم کم۔ کچھ عرصہ بعد امریکن سینٹر بھی بند ہو گیا جہاں نظام قریشی کتابوں کے متلاشیوں کی خدمت میں پیش پیش رہا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ زبیر اور محمود بھی ہوا کرتے تھے۔ بہر حال کتابوں کے رسیا ایک اور ادارے سے محروم ہوگئے۔ سٹی کالج تو آپ کو یاد ہو گا۔ دن میں کام کرنیوالے شام کو یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ قوم کا درد رکھنے والوں نے یہ کالج قائم کیا تھا۔ مرزا عابد عباس مرحوم نے جہاں نصابی سرگرمیوں پر توجہ دی وہاں غیر نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ایک خوبصورت لائبریری بھی قائم کی تھی۔ اس لائبریری میں ایس کے رحیم ہائی اسکول کے طلباء کو بھی بھیجا جاتا تھا تاکہ لائبریری استعمال کرنا سیکھ لیں۔ لائبریری بھی بہت بڑی تھی۔ ہر سال کتابیں خریدنے پر بھاری رقم خرچ کی جاتی تھی۔ پھر توجہ کم ہوتی گئی۔ کالج بھی اب بس برائے نام رہ گیا ہے۔ اور اس کی لائبریری کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ کوئی دیکھ بھال نہ ہو تو کتابوں کا جو حشر ہوتا ہے وہ ہو رہا ہے۔ مٹی جمی ہوئی ہے، کیڑے لگ گئے ہیں۔مگر کیا صرف نوحہ کافی ہے؟ کیا اس سے حالات بہتر ہو جائیں گے؟ ظاہر ہے نہیں۔ کچھ اقدامات کرنے ہونگے۔ جو ضائع ہو گیا اسے واپس حاصل کرنے کے لئے عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔ وہ جو شہر کے دعویدار ہیں ، جنہیں یہاں کے لوگ منتخب کرتے ہیں، انکی ذمہ داری یاد دلانا ہو گی۔ کچھ کریں۔ تعلیم پر توجہ دیں، اسی میں قوم کی بقا ہے اور اسی میں نجات۔
تازہ ترین