• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقبوضہ کشمیر میں الائو کا دہکنا اس امر کی جانب واضح اشارہ کر رہا تھا کہ بھارت بری طرح کلبلا رہا ہے اور اپنی پریشانی کے ازالے کے واسطے وہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور اختیار کریگا۔ مجھے آج بھی کسی بھی پاکستانی پر را کا ایجنٹ ہونے کا حکم لگانے سے تامل ہے مگر دریدہ دہنی جب ہر حد سے ماوراہو جائے تو سوچ بہرحال کوئی بھی رخ متعین کرتی چلی جاتی ہے اور کوئی ذہنی دبائو دلیل نہیں قرار پا سکتا۔ مگر کیا صرف ریاست پاکستان کی اس نوع کی مخالفت ہی مخالفت قرار پائے گی۔ یا دوسرے سیاسی اشخاص کی بدزبانی بھی درحقیقت پاکستان سے بغاوت کے مترادف ہے۔ آئین کی بے حرمتی کا چاہے جانا غداری سے جدا کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں پے در پے آئین شکنی کی وارداتوں نے مجرمانہ ذہن کے سیاستدانوں کے اذہان میں یہ تصور راسخ کر دیا ہے کہ ان کا سیاسی بسترا کرو فر کے ساتھ صرف آمریت کی گود میں لگ سکتا ہے۔ پاکستان مشرف کی آمریت کے بعد تاہنوز ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ ماضی قریب کی آمریتوں کے سبب سے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی اور شب خون منتظر نہ ہو۔ آئین پر تسلسل سے عمل ہو رہا ہے۔ آئینی ادارے اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ مسلسل یہ تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ جمہوری خول صرف موجود ہے اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد ہر قیمت پر حکومت مخالف گروہ، صحافیوں اور سیاستدانوں نے یہ ڈفلی بجانا شروع کر دی کہ بس اب نام نہاد جمہوریت ہی رہ گئی ہے ورنہ معاملہ چوپٹ ہو گیا ہے۔ گویا کہ وہ اپنے مقاصد کے بر آنے کے واسطے سانحہ اے پی ایس جیسے کسی سانحہ کے منتظر ہیں۔ خدا خدا کر کے جمہوریت کی گاڑی بڑھ رہی ہے تو اب ان لوگوں نے فوج کو براہ راست سیاست میں گھسیٹنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا ہے۔ ذرا غور فرمائیں۔ سپاہ سالار اپنی باعزت روانگی کا اعلان کر چکے ہیں۔ فوج کے متعلقہ ذرائع اس کو الم نشرح کر چکے۔ اختیارات کا منبع وزارت عظمیٰ کا عہدہ اپنی جگہ پر فرائض سر انجام دے رہا ہے کہ تمام معاملات آئین کے تابع فرمان رہ کر ہو رہے ہیں۔ اب جب کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ اگلے 25 دنوں میں حکومت اور فوج کے معاملات کا فیصلہ ہو جائیگا۔ یا یہ کہ اختلاف صرف توسیع کے معاملات پر ہے۔ قانون کی رو سے۔ کیا مسلح افواج اور اس کے سربراہ کے حوالے سے ایسی باتیں کرنا ان پر ٹاک شو کرنا۔ فوج کے داخلی نظم و ضبط پر حملہ نہیں۔ کیا سپاہ سالار کو غیر آئینی خواہش سے جوڑنا فوج پر حملہ جو درحقیقت پاکستان پر حملہ ہے نہیں ہے۔ کیا مقتدر ادارے کے سربراہ کو حقیقت کچھ دکھاوا کچھ کا الزام دینا کسی قانون ضابطے میں جرم نہیں ہے۔ کیا یہ سب ذہنی دبائو کی طرح بے دلیل نہیں قرار پائے گا۔ بلا شبہ فوج، پولیس اور دیگر اداروں نے امن و امان کی خاطر بے مثل قربانیوں سے گلستان کو سینچا ہے مگر یہ لوگ سپاہ سالار سے وہ کچھ وابستہ کر رہے ہیں جو حقیقت کو گہنا دیگا۔ رابرٹ ایف کینیڈی امریکہ کے معرو ف سیاستدان تھے انہوں نے اپنی کتاب Just Friends and brave enemies میں تحریر کیا ہے کہ "ہنولولو میں کشتی رانی کے دوران ہماری کشتی الٹ گئی۔ جس کے بارے میں اتنی سرخیاں قائم ہوئیں جیسے کوئی بڑا بحری حادثہ ہو۔ بعد ازاں میں نے گلبرائتھ کی طرف سے ایک تار وصول کیا۔ تار کے الفاظ یہ تھے۔ یہاں پر آپ کی کشتی کا حادثہ بات چیت کا اہم موضوع ہے۔ کیا اس سے کسی قسم کی مدد حاصل ہو گی۔ اگر میں نے کہہ دیا ہو کہ آپ کو ایک روسی تباہ کن جہاز نے جو پرل ہاربر جا رہا تھاگر ادیا لیکن آپ نے اپنے تمام عملے کو بچا لیا" یہاں کے لوگ حقیقتاً ہی کسی خطرے کی بھینٹ چڑھا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پاکستان میں کمزور جمہوریت کے تصور سے زخم خوردہ ہو گئی۔ ہمیں اس بات کا احساس بھی رکھنا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بس اب آیا ہی چاہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں زخم چاٹتا بھارت بلوچستان کے حوالے سے ہرزہ سرائی ضرور کر سکتا ہے۔ کراچی کی صورتحال کو اس تناظر میں بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے ملک میں آئین کی بالا دستی اور جمہوری اقدار کی نشوونما پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے موقف کو مزید مضبوط کریگی۔ اس مضبوطی کو حاصل کرنے کی غرض سے محکمہ خارجہ کو بہت متحرک اور مستعد ہونا پڑے گا۔ وزیر اعظم کی شخصیت سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے ضروری ہے کہ جن معاملات کو زیر بحث لانے کے حوالے سے وزیر اعظم جنرل اسمبلی کی ڈائس پر موجود ہوں ان معاملات کے حوالے سے دنیا کے اہم دار الحکومتوں میں نہایت متحرک رہنا پڑے گا۔ تا کہ وہ ہماری بات مکمل سیاق و سباق کے ساتھ سنے اور سمجھ سکیں۔ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر بھی پہلے یا دوسرے دن ہو جانی چاہئے تا کہ زیادہ سے زیادہ مندو بین موجود ہوں۔ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ تقریرمضبوط جمہوریت اور دفتر خارجہ کی بہتر حکمت عملی کے سبب سے مضبوط پاکستان کی ترجمان ہو۔


.
تازہ ترین