• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم ایک ایسے عہدِ آشوب میں سانس لے رہے ہیں جس میں آدمیوں کا ہجوم بڑھتا جاتا ہے اور انسان گھٹتے جا رہے ہیں۔ حضرتِ غالب نے کہا تھا ؎ آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا۔
آپ دھرنے دیکھئے ، آپ جلسے دیکھئے ، ہر سُو ہجوم ہی ہجوم ہے جو غربت میں پسا ہوا ہے اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم چلا آ رہا ہے۔ خطابت کے جادوگر اُنہیں شام و سحر ایک سے ایک نیا سبز باغ دکھاتے اور اُن کی توقعات کے غباروں میں ہوا بھرتے جا رہے ہیں۔ عہدِ حاضر کے بہت بڑے ادیب اور نثر نگار جناب مختار مسعود نے ایک انتہائی اثر آفریں انشائیہ ’’قحط الرجال‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا اور برصغیر کی پوری ادبی ، سیاسی اور سماجی تاریخ اِس میں سمیٹ لی تھی۔ کیا حُسن تھا اُن کی تحریر میں اور کس قدر گہرائی تھی اُن کی نگاہ میں! اِس انشائیے کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ ہر عہد میں قحط پڑتا ہے اور اِس کا اپنا رنگ ہوتا ہے۔ شیخ سعدی کے زمانے میں بغداد کے اندر قحط پڑا ، تو اُنہوں نے ایک مصرع میں انسان کی پوری فطرت اور قحط کے کرب کی عجب تصویر کشی کی تھی ؎
کہ یاراںفراموش کردند عشق
یعنی یار لوگ عشق کرنا بھول گئے تھے
یہ عشق بھی ہر عہد میں ایک نئی کیفیت کا مظہر ہوتا ہے اور عاشق اور محبوب کے درمیان رشتے کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ حضرتِ مومنؔ نے اِس رشتے کی لطافت جس شعر میں بیان کی تھی ، حضرتِ غالب نےؔ اِس کے عوض اپنا پورا دیوان دینے کی پیشکش کی تھی۔ یقیناً وہ شعر آپ نے پہلے کئی بار سنا ہو گا ، لیکن ایک بار اور سن لیجیے اور حضرتِ مومنؔ کی رعنائی خیال کا لطف اُٹھائیے ؎
وہ میرے پاس ہوتے ہیں گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ہمارے عہد کے عظیم شاعر جناب فیض احمد فیضؔ نے محبت کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا ہے ؎
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
مجھ کو تجھ سے تو کوئی پیار نہیں
غالباً ہمارے سیاست دان، ہمارے حکمران اور ہمارے اربابِ علم و دانش بھی تکمیل کے مراحل سے گزرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اِس دوران تیراندازی عوام پر ہو رہی ہے۔ ہمیں آزاد ہوئے 67سال بیت گئے ہیں۔ اِس عرصے میں سرداروں ، سرمایہ داروں اور نوکر شاہی کے ہاتھوں جو زخم لگتے آئے ہیں ، اُن سے ٹیسیں اُٹھ رہی ہیں۔ اِس دلفگار صورت سے متاثر ہو کر میں نے کہا تھا ؎
اب آ کے رنگ دینے لگے ہیں کسی کے زخم
کچھ آگہی کے زخم ہیں اور کچھ بے خودی کے زخم
اِسی غزل کا یہ شعر بھی حسب ِحال ہے ؎
زندہ تھا جب ضمیر تو ہر سُو تھی روشنی
اندھیر کر گئے ہیں نئی روشنی کے زخم
ایسا لگتا ہے کہ ’’نئی روشنی‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ اِس وقت ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں۔ حکمران خود فریبی کے زخم لگا رہے ہیں جبکہ مفتیانِ سیاست ودین آگہی کے نام پر اخلاقی بے راہروی کے زخم لگانے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنی خودپسندی کی تیغِ آبدار سے اپنے بے بس پیروکاروں کو لخت لخت کیے جاتے ہیں۔ ہمارے بعض بزرجمہر سیاست گر یہ عجب اور بے محل بات کرتے رہتے ہیں کہ دھرنے دینا، جلسے کرنا اور آئے روز ریلیاں نکالنا ہر سیاسی جماعت کا حق اور جمہوریت کا حُسن ہے۔ اِس امر پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا دارالحکومت کو تاراج کر دینے ، ہجوم کا پارلیمنٹ ہاؤس کے مرکزی راستوں پر قبضہ کر لینے ، غلیلوں کے ساتھ پی ٹی وی کی عمارت میں گھس کر قیمتی اشیاء کو اُٹھا لے جانے اور وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بول دینے کو کسی طور جمہوریت کا حُسن قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلاضرورت جلسے انتظامیہ کو اُلجھائے رکھتے جبکہ حکومت کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ملتان کے جلسۂ عام کے اندر جو بھگڈر مچی ، جس میں سات حاضرین موت کی آغوش میں چلے گئے اور تین درجن کے قریب زخمی ہوئے ، اُس نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ یہ جلسے وبالِ جان بنتے جا رہے ہیں اور سیاسی تربیت کا باعث بننے کے بجائے ہیجان انگیزی، افراتفری اور سیاسی عداوتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ اُن کی سیکورٹی پر لاکھوں نہیں کروڑوں خرچ ہو رہے ہیں اور ملک سے باہر ایک غیر یقینی صورتِ حال کا پیغام جا رہا ہے۔ چند گھسی پٹی باتوںکی تکرار سے شدید اُکتاہٹ محسوس ہونے لگی ہے اور یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ قوم کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔
دوسری طرف حکمران طبقے خوابِ غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اُنہیں احساس ہی نہیں کہ عوام کتنے بڑے عذاب سے دوچار ہیں۔ عمران اور قادری کے جلسوں میں زیادہ تر وہی لوگ آتے ہیں جو بجلی کے ہوشربا بلوں اور بیروزگاری کے ڈسے ہوئے ہیں۔ اِن حالات میں حکومت کو اِس وقت سب سے زیادہ توجہ توانائی اور بیروزگاری کے بحران سے نمٹنے پر دینی چاہیے اور عوام تک پہنچنے کے لیے سیاسی قوتوں کو فعال بنانا ہو گا۔ ہماری بیوروکریسی فقط عیش کرنے ، دفتروں میں بیٹھے رہنے اور ہوائی جہازوں میں اُڑنے کے لیے بنی ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں کو جھنجوڑ تو نہیں سکتے کیونکہ اُن کی کھال بہت موٹی ہو گئی ہے ، البتہ یہ ہمتِ التجا تو کی جا سکتی ہے کہ فوری طور پر اُن اداروں کی تشکیلِ نو اور افرادی اور مالی وسائل کی فراہمی کے خصوصی انتظامات کریں جو آج کے ماحول میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اِس وقت الیکٹرانک میڈیا ذہن سازی اور صورت گری میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ بعض ٹی وی چینلز کے غیر متوازن رویوں نے بڑے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اُن کی ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا جسے نگران کی حیثیت حاصل ہے ، وہ مستقل چیئرمین سے محروم چلا آ رہا ہے۔ اِس کے بیشتر ارکان اہلیت سے محروم ہیں۔ اُن کی جو تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ، اُن سے معلوم ہوا کہ داغدار کردار کے لوگ بھی اِس اہم ادارے کے ارکان ہیں۔ کوئی سابق گورنر کی اہلیہ ہیں جن کو الیکٹرانک میڈیا کے معاملات کا ذرا بھی ادراک نہیں۔ آزاد کشمیر سے بھی ایک صاحب ممبر بنائے گئے ہیں جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ سب سے پہلے ایک اچھی قابلیت اور شہرت کی حامل شخصیت کو اِس کا چیئرمین مقرر کیا جائے اور وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید کو اِس کی تشکیل میں پوری سرگرمی دکھانا ہو گی۔ بعض ٹی وی چینلز پر یہ جو بارہ بارہ گھنٹے دھرنوں کے پروگرام دکھائے گئے اور دشنام طرازی کی انتہا کر دی گئی اور حکومت کے ختم ہو جانے کا تاثر پھیلایا گیا ، اِن سرگرمیوں پر کڑی نگرانی ملکی استحکام کیلئے ازبس ضروری ہے۔
اِسی طرح ذہنی آبیاری کے ساتھ ساتھ اندرونی سلامتی کا مسئلہ غیر معمولی توجہ کا متقاضی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اِس فورس کے کمانڈنٹ عبدالمجید خاں نے سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کے روبرو بیان دیا ہے کہ 26ہزار اہلکاروں کے پاس صرف دس ہزار کلاشنکوف ہیں اور تین ہزار اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اُنہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اہل کاروں کو سال میں تین کے بجائے محض ایک وردی ملتی ہے ، ایک مدت سے کوئی نیا اسلحہ نہیں خریدا گیا اور سپاہیوں کے سونے کے لیے مناسب تعداد میں چارپائیاں بھی دستیاب نہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر طلحہ زبیر نے اِس صورتِ حال کو بہت افسوس ناک قرار دیا۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو طویل تقریروں اور دعوں کے بجائے اُن بنیادی ایشوز کو اوّلین اہمیت دینی چاہیے۔ یہ عجب صورتِ حال ہے کہ اَن گنت اہم ادارے مستقل سربراہوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ نوازشریف صاحب اِس قدر سہل انگار کیوں ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ ماضی میں وہ بڑی جاندارحکومت چلاتے رہے ہیں۔ مسائل کی یلغار بڑی خوفناک ہوتی جا رہی ہے ۔ آج ایبولا وائرس پاکستان پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ ایسے میں ایک اسمارٹ حکومت اور اچھی حکمرانی کی برکات عام آدمی کو نظر آنی چاہئیں۔ اﷲ کا شکر ہے کہ ہماری قوم بڑی پُرعزم اور سخت جان ہے اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تازہ ترین