• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس زمانے میں جب داعش، بوکوحرام اور شدت پسند اپنے عروج پر ہیں، عکسی مفتی کا پاکستانی ثقافت کے بارے میں سوال کہ ہماری ثقافت مکہ کے دائرے میں آتی ہے یا موہن جو داڑو کے، کیلاش کے رسم و رواج اور تھرپارکر کی ثقافت کی آئینہ دار ہے کہ میرے 80%دیہاتیوں کو کسی مولوی کا خطبہ سمجھ میں نہ بھی آتا ہو مگر اس کے ہاتھ چومنے کی روایت بہت عزیز ہے ہمارے ملک کے حج پر جانے والے عورتوںاور مردوں کو حج مرکز میں بنیادی اور ضروری آیتوں کو یاد کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ بلھےشاہ کے مزار پر جانے والوں ، شہباز قلندر کے مزار پر چادر چڑھانے والوں اور بابا فریدکی درگاہ کے دروازے سے گزرنے والوں کی بھیڑ میں ہڈیاں تڑوا بیٹھنے والوںکو یہ بھی نہیں معلوم کہ خواجہ غلام فرید یا بابا فرید، شخصیات میںکتنا فرق ہے اور ان کے کلام بلاغت نظام میں کیا کہا گیا ہے۔
انہی خطوط پر عکسی مفتی کو شاہ حسین سے لیکر وارث شاہ تک کی شاعری زبانی سنانے والوں اور حجرے میں بیٹھ کر روایتی قصوں کو بیان کرنے والوں سے عشق ہے۔ حالانکہ اب تو گائوں کے تنور یا علاقے کے بسوں کے اڈے پر بیٹھ کر علاقائی اور قومی سیاست پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ ہر علاقے میں کوئی پیر فقیر ہوتا ہے۔وہ دم کرکے پانی دے دیتا ہے یا بازو پر تعویذ باندھ دیتا ہے۔ آج بھی جن اتارنے کا کام خوش اسلوبی سے ادا ہوتا ہے۔ جہاں کہیں قبر کے اوپر ایک جھنڈا لگادیا جائے، وہاں چڑھاوے چڑھنے اور پھر سال بہ سال عرس شروع ہوجاتا ہے۔ واصف علی واصف کی شخصیت میں کیا ایسا وصف تھا کہ ہر سال ان کا عرس ہوتا ہے۔ اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب کی وہ کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں جن میں طرح طرح کے تعویذ لکھے ہوتے ہیں۔ اس طرح پڑھے لکھے لوگ پروفیسر رفیق اختر جیسے علم والوں کو سلام کرنے حاضر ہوتے ہیں۔ بابا یحییٰ کی طرح کالا کرتا پہن کر اور سرمہ لگاکر علم و آگہی کا سرچشمہ بنتے ہیں۔ہمارے افتخار عارف سے لیکر بہت سے سی ایس پی پروفیسر رفیق اختر کو سلام کرنے ہفتہ وار جایا کرتے ہیں۔کیا یہ مذہب کا حصہ ہے،عکسی مفتی کہتے ہیں لوک روایت ہماری زمین ہے۔ اسلام ہمارا نظریہ حیات ہے۔ معلوم ہے کہ آئین میں ہمارے قائداعظم کے انتقال کے بعد قرارداد مقاصد کو شامل کیا گیا تھا بالکل اسی طرح جیسے ضیاء الحق کے زمانے میں آٹھویں ترمیم ایسے پاس کی گئی کہ بینظیر اور آصف زرداری کے دور حکومت میںکسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس ترمیم کو یا پھر 62،63شق کو آئین سے نکال سکیں۔
ونگاں چڑھا لو کڑیو! میرے داتا دے دربار دیاں یا دمادم مست قلندر کہ جو عابدہ پروین بھی گاتی ہیں۔ ایم کیو ایم بھی کہتی ہے اور طاہر القادری بھی نعرہ بلند کرتے ہیں۔ قلندر سرکار، قلندر سرکار، مطلب یہ کہ لال دوپٹہ اٹھائے، ڈھول بجاتے عورتیں اور مرد، اکھٹے دربار پہ چڑھاوا چڑھانے جاتے ہیں۔ یہ منظر چاہے سندھ ہو کہ پنجاب ہر کونے میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا اس کو لوک ریت کہتے ہیں۔ صوبہ سرحد میں رحمٰن بابا کا مزار ہو کہ خوشحال خان خٹک کا، صرف مرد، چڑھاوا چڑھانے آتے ہیں، آگے آیئے میرے دفتر کے ساتھ موتمر عالم اسلامی کی مسجد ہے۔ نماز کا وقت ہوجائے تو مرد مسجد میں چلے جاتے ہیں۔ خواتین گاڑی میں بیٹھی بیٹھی نماز ادا کرتی ہیں۔ اگر میرے نبیﷺ کے زمانے میں عورتیں ساتھ نماز ادا کرتی تھیں تو ایٹم بم بنانے والے ملک میں کونسی پابندی ہے کہ عورتیں مسجد میں نماز ادا نہیں کرسکتی ہیں۔
عکسی مفتی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پاکستان مختلف طبقات کا مجموعہ ہے۔ ہم لوگ سری لنکا گئے، بلوچی اپنی واسکٹ اور ٹوپی پہنے آئے، سندھی اجرک اوڑھے ہوئے سارے مرد اور عورتیں تھیں۔ پشتون لال ٹوپی اور واسکٹ پہنے تھے۔ پنجابیوں کا اپنا کوئی کلچر نظر نہیں آرہا تھا۔ البتہ جب کہا گیا کہ سب مل کر ترانا گائیں تو ہر علاقے کے لوگوں نے اپنی زبان میں ترانہ پیش کرنے کو کہا۔ بڑی مشکل سے علاقائی ترانوں کےبعدسوھنی دھرتی گایا گیا۔اب بتائیں آپ پاکستانی ثقافت کس پنچھی کا نام ہے۔ مذہبی طور پر عید بقرعید، محرم، شب برات، رجب کے کونڈے، یہ سب تقریبات شہری کلچر میں نظر آتی ہیں۔ لوک ریت میں موت کے موقع پر کبھی دس دن یا کبھی چالیس دن لوگ اکھٹے رہتے اور سارا گائوں کھانا کھاتا ہے۔ ایک دفعہ بقرعید کے موقع پر میںشنگریلا میں تھی۔ اوپر جاکر لیک کچورا ہے۔ ہم سب نے کہا چلو آج گائوں میں چل کر بقرعید مناتے ہیں مگر وہاں تو معمول کی زندگی تھی، وہی پٹھے کاٹنے، دودھ دوھنا، گھر کی عورتوں کا کھانا بنانے میں مشغول ہونا،کسی نے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے، البتہ وہ زمیندار لوگ یا افسران جو اپنی زمینوں پر جاکر تہوار مناتے ہیں، ان کا دیکھا دیکھی خوشحال لوگ بھی کچھ نہیں تو مرغی پکالیتے ہیں ورنہ اب بھی مہمانوں کےآنےپر مرغی پکا کرتی ہے۔لوک روایت میں تو اسلام اس حد تک ہے کہ آج بھی گائوں کی مسجد میں لوگ کھانا بھیج دیتے ہیں، مدرسوں میں کھانا بھیج دیتے ہیں اور شہروں کی مساجد میں محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کی جانب سے گریڈز تنخواہیں اورگاڑیاںبھی دی جاتی ہیں۔دیہات میں آج بھی دو افراد آمنے سامنے بیٹھ کر ایک پلیٹ میں نمکین اور میٹھے چاول کھاتے ہیں۔
اسلام عالمگیر ہے اور لوک ریت مقامی، اس لوک ریت میں ہمارے سارے صوبوں کی روایتیں شامل ہوتی ہیں، ہم جب کسی بھی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو جس بغض اور ہتک کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، ہمیں خیال ہوتا ہے ہم مسلم شودر تو نہیں کہ اتنی بے فیضی برتی جارہی ہے۔ سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی مسلم ممالک کے افسروں کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔ ان سارےاحوال کا سبب خود عکسیی مفتی نے ہی بتادیا ہے اور سوال بھی خود ہی سے کیا ہے ’’ــکیا ہم جاگیردارانہ نظام اور اقدار پر قائم رہنا چاہتے ہیںن اور پھر شرمناک حد تک کونسے عیب ہیں جن کے باعث دنیا ہمیں عزت نہیں دیتی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںسے لیکر غیرت کے نام پر قتل، جنس کی بنیاد پر تعصب، انتہا پسندی، بنیاد پرستی، چائلڈ لیبر، غربت اور ناخواندگی کے علاوہ اور بہت سے ناانصافی کے مسائل ہیں۔ ہرچند ڈاکٹر جمیل جالبی نے پاکستان کی ثقافت پر بڑی بسیط کتاب لکھی ہے مگر ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ ثقافت بقول سید سبط حسن سات ہزار سال پرانی وہ تہذیب ہے جسے ہم نےغربت کی دیوار میں چن دیا ہے اور اب تو چاند میں بھی روٹیاںہی نظر آتی ہیں۔ عکسی مفتی کی خوبی یہ ہے کہ انہوںنے اپنی کتاب میں ہماری ثقافت، لوک ریت اور مذہبی روایتوں کا بیک وقت محاسبہ کیا ہے۔کمال مطالعہ تویہ ہے کہ افغان قوم دنیا کی دوسری بڑی منشیات کی پیداوار دنیا کو فراہم کرتی ہے مگر خود نشے کی عادی نہیں ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ چاہے غریب ہوں کہ امیر، تماش بین قوم ہیں۔ ہمارے افسر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیںکہ میں نے زندگی میں کبھی کوئی ڈانس، میوزک یا ڈرامہ، اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے نہیں دیکھا ہے۔یہ صحیح لکھا ہے عکسی نے حکومتی سطح پر سب سے زیادہ بے عزت، بے وقعت یا یوںکہیے کہ بدنام سیکٹر ہے یہی سرکاریات ہے جو ہر سیکٹر پر قابض ہے۔
میڈیا کے پھیلائو نے ہمیں توقیر نہیں دلائی ہے۔جس عورت کو اس کے سسرالیوں نے اینٹیں مار مار کر قتل کیا تھا، وہ اسٹوری ساری دنیا میں وڈیو اور آڈیو کےذریعہ پھیل گئی تھی۔ اس طرح ملالہ ہو کہ بی بی مختاراں مائی سب کہانیاں کتابوں کی شکل میں آپ کو ہر ایئرپورٹ پر مل جائیں گی۔
شرمین کی بنائی ہوئی فلم بتاتی ہے کہ ہمارے مرد،تیزاب پھینک کر کیسے مردانگی دکھاتے ہیں، میںبالکل مغرب کی تلقین کرنے کی جرأت نہیں کروں گی مگر یہ بھی نہیں دیکھ سکتی کہ سارے ادبی اور ثقافتی اداروں کو تحریراً تنبیہ کردی گئی کہ آپ کوئی ادبی پروگرام نہیں کریںگے۔ آپ کو یاد دلائوں کہ نظریہ پاکستان، جنرل شیر علی کی دریافت تھی۔ یہ پاکستان کے آئین کا حصہ نہیں ہے۔ پھر بھی سارے وزیر حلف اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں، میں نظریہ پاکستان کی پاسداری کروںگا۔ ایسے غلط مفروضوں کو دور کرنے کی ذمہ داری تحقیق کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ ورنہ گمراہی پھیلانے کیلئے ہمارے پاس خودساختہ شارحین کم نہیں ہیں کہ لڑکیوں کی مرضی کی شادی نہ ہونے دینے کیلئے ضلع جعفر آباد میں سات لڑکیوں کو زندہ درگو کردیتے ہیں اور وزرا کہہ دیتے ہیں ’’یہ ہمارے روایت ہے‘‘۔
تازہ ترین