• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جلسہ عام بالآخر ہونے جا رہا ہے ، جو سات سال پہلے نہیں ہو سکا تھا ۔ سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں ہفتہ 18 اکتوبر کو بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے قریب منعقد ہونے والے اس جلسہ عام سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جگہ ان کے صاحبزادے اور پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ سات سال بعد منعقد ہونے والے اس جلسے کا کیا رنگ ہو گا اور پاکستان کی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
ویسے بھی یہ جلسہ کئی حوالوں سے منفرد نوعیت کا ہے ۔ ایک تو یہ جلسہ ایک ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جو پاکستان کیتاریخ کا بدترین سیاسی ماحول ہے ۔ اس ماحول میں پاکستان کے عوام اور ان کی نمائندہ سیاسی قوتوں کو ریاستی طاقت کی بجائے غیر ریاستی عناصر یعنی دہشت گردوں کے ذریعہ کچلنے کی کوشش کی گئی ہے اورمصنوعی سیاسی قیادت،مصنوعی عوامی طاقت کے مظاہروں، شعبدہ بازی اوردھوکے بازی سے لوگوں کویرغمال بنانے کی کوشش کی گئی ہے اورفاشزم کوسیاسی کلچرقراردے دیا گیاہے۔ اس جلسے سے لوگوں میں خوف ختم ہو گا اور ان میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ صرف وہ لوگ جلسہ نہیں کر سکتے جنہیں دہشت گردی کے ماحول میں کھلا سیاسی ماحول دے دیا گیا ہے بلکہ وہ لوگ بھی جلسہ کر سکتے ہیں ، جنہیں اب تک روکا گیا ہے ۔ بقول شخصے ’’ پستے رہے ہیں جو ظلم کی چکی میں ۔۔۔ کئی سالوں بعد وہی ابھرتے ہیں لوگ ۔ ‘‘ اس جلسے میں طویل عرصے بعد ان لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملے گا جو گذشتہ سات سال تک ہونے والے جلسوں میں نظر نہیں آئے ۔ مذہبی جماعتوں کے جلسے ہوئے ، جن میں بڑی تعداد میں مخصوص مذہبی اور فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی ۔ لسانی اور قوم پرست جماعتوں نے اپنی سیاسی طاقت کے بھرپور مظاہرے کیے ۔ مڈل کلاس کی مخصوص دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی بڑے بڑے جلسے منعقد کیے ۔ یہ سب مخصوص سیاسی سوچ اور نظریات کے حامل لوگوں کے جلسے تھے ، جن میں وہ رنگ کبھی نظر نہیں آیا ، جو حقیقی عوامی جلسوں کا ہوتا ہے ۔ چہروںپرمسکراہٹ سجائے پھٹے کپڑوں میں دھمال کھیلتے ہوئے لوگ بہت عرصے کے بعد نظر آئیں گے ۔ ان فقیر لوگوں سے انتہا پسندی ، آمریت نوازی ، جنونیت ، تعصب و تنگ نظری ، غلامی اور بے لچک روایت پرستی کی حامی قوتیں بہت گھبراتی ہیں اور جن کے ایک نعرہ مستانہ سے مصنوعی سیاست کا پورا ڈھانچہ تھر تھر کانپنے لگتا ہے ۔ ایسے جلسے میں وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو فکری بے راہ روی اور ذہنی انتشار سے بچے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا نظریہ تو ہوتا ہے لیکن کوئی مخصوص مفاد نہیں ہوتا ۔ محبت ، رواداری انصاف اور امن ان کے نظریہ کے بنیادی اصول ہوتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کا یہ موقف ہے کہ پیپلز پارٹی نے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی مخالف اور اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ سیاسی قوتوں کی شعبدہ بازیاں ، جارحانہ پروپیگنڈے اور بے رحمانہ سیاسی ہتھکنڈے وادی سندھ کے صوفیانہ آہنگ سے میل نہیں کھاتے ۔ ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں آنے والے لوگ پیپلز پارٹی کے ساتھ شعوری سیاسی وابستگی نہ رکھتے ہوں لیکن وہ لا شعوری طور پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے بے گانہ ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی ہر ’’ پروڈکٹ ‘‘ سے دور رہتے ہیں ۔ دوسری اہم بات بھٹو خاندان کی قربانیاں ہیں ۔ ہمارے صحافی اور دانشور دوست ظہور احمد دھریجہ کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’ بھٹو خاندان کا قصہ پرانی دیو مالائی لوک داستانوں کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی وادی سندھ کی کئی ہزار داستانوں میں کوئی ایسی کہانی کتابوں میں درج ہے ۔ مگر گڑھی خدا بخش کے بھٹو خاندان کی مزاحمتی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قربانیاں دینے والے انسانوں کی الم ناک داستانوں میں یہ داستان سرفہرست نظر آئے گی ۔ ۔۔ ایک لمحے کے لیے چشم تصور سے خیال کریں تو بھٹو خاندان کی قربانیاں کسی دیو مالائی قصے کا حصہ نظر آتی ہیں اور گمان ہوتا ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا ۔ مگر یہ سچ ہے کہ اور سو فیصد سچ ہے کہ بھٹو خاندان نے انتہائی بہادری سے موت کو گلے لگایا ہے ۔ ‘‘ ایک طرف تو پاکستان کی مقتدرہ کے مکارانہ ، ثقافت اور تہذیب دشمن ،نسل پرستانہ اور متعصبانہ رویے اور اعلیٰ سیاسی اقدار کو تباہ کرنے والے ان کے حاشیہ برداروں کی چالاکیوں سے پاکستان کے عوام مکمل طور پر بے گانگی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ بھٹو خاندان کے دیو مالائی مزاحمتی کردار سے جڑے ہوئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی کوتاہیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن پاکستان کے عوام اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے مابین گہرے رشتہ بے گانگی کی وجہ سے عوام اور پیپلز پارٹی کا رشتہ قائم ہے ۔ یہ صرف جلسہ نہیں ہو گا بلکہ اس میں پاکستان کی سیاست کا حقیقی عوامی رنگ ہو گا ، جسے مخصوص چشموں سے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ یہ وادی سندھ کا وہ رنگ ہو گا ، جس پر طویل عرصے سے مصنوعی رنگ چڑھانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ۔
بلاول بھٹو زرداری سے لوگوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں ۔ اس جلسہ سے انہیں نہ صرف اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنا ہے بلکہ انہیں پاکستان کے عوام کی پر امن مزاحمتی تحریک کے رکے ہوئے قافلے کو بھی لے کر آگے بڑھنا ہے ۔ انہیں اپنے خطاب میں نہ صرف لوگوں کو امید دینی ہے بلکہ ان مشکل حالات میں انہیں آگے راستہ بنا کر بھی دینا ہے ۔ اپنے خطاب میں انہیں ان کارکنوں کو بھی اپنے قریب کرنا ہے ، جو کسی بھی وجہ سے پارٹی قیادت کے ساتھ فاصلہ محسوس کرنے لگے تھے ۔ انہیں اپنی پارٹی کا وہ پروگرام بھی دینا ہے ، جو نئی نسل کی امنگوں تمناؤں سے ہم آہنگ ہو ۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے بہت پہلے نئی نسلوں کی امنگوں کا ادراک کر لیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ آج کل کے نوجوانوں کو انفرادی انسان کے وقار کی زیادہ فکر ہے اور وہ ضرورت سے زائد اختیار اور طاقت کی حد بندی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں ، جو اپنے شہریوں سے براہ راست اور دیانت داری کے ساتھ بات کرے ۔ ‘‘ عام سیاست دان اپنے خطاب میں جن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں ، بلاول بھٹو زرداری کے لیے وہ الفاظ کارگر نہیں ہوں گے ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ لوک دانش ہے اور عوام کے ساتھ لوک دانش میں ہی بات کرنا ہو گی ۔ بقول شاعر ’’ جو قتل ہوا ، اس کے قصے ہوئے ۔ ۔ ۔ ان قصوں کی اک رمز عجب ۔ ‘‘
تازہ ترین