• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملتان کے ضمنی انتخاب میں عامر ڈوگر 52 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے ۔ جاوید ہاشمی نے 38 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ جاوید ہاشمی نے ابتدائی نتائج دیکھ کر ہی متوقع کامیاب امیدوار کو کامیابی کی مبارکباد دے دی۔ جن حلقوں کو گزشتہ برس گیارہ مئی کی رات ساڑھے گیارہ بجے میاں نواز شریف کی وکٹری تقریر پر اعتراض رہا ہے، انہیں جاوید ہاشمی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ یہ ضمنی انتخاب جمہوریت کی جیت اور ہمارے سیاسی ارتقا میں بلوغت کی علامت ہے۔ ہمارے ہاں ضمنی انتخابات میں انتظامی ہتھکنڈوں کے استعمال سے برسراقتدار جماعت کی طاقت کے اظہار کی روایت رہی ہے۔ 1976ء میں لاہور کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار شیر محمد بھٹی نے مصطفی کھر کو شکست دے دی مگر اس دوران ایسے چھینٹے اڑائے گئے کہ بھٹو صاحب کے دامن پر دھاندلی کے ابتدائی دھبے ثبت ہو گئے۔ ملتان کے ضمنی انتخاب سے باور ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت جمہوری عمل پر اعتماد کرنا سیکھ رہی ہے۔ چند ہفتے قبل ہاشمی صاحب نے غیر معمولی جرأت سے کام لیتے ہوئے دھرنا سازش کا پردہ چاک کیا تھا۔ چنانچہ مجموعی سیاسی تناظر میں جاوید ہاشمی کے لئے ایک خاص طرح کی ہمدردی پائی جاتی تھی۔ اس ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نواز میدان میں تھی اور نہ تحریک انصاف نے انتخاب میں حصہ لیا۔ اس کے باوجود عام طور پر سمجھا جا رہا تھا کہ ملتان میں جمہوریت اور سازش کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے۔
جمہوریت کی خوبصورتی یہ ہے کہ تاثر سے قطع نظر ، حتمی نتیجہ یہ ہے کہ جمہوریت کامیاب ہوئی ہے۔ جدید جمہوری تاریخ کا ایک اہم واقعہ یاد کیجئے۔ مئی 1945ء میں دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی۔ اتحادیوں نے فسطائیت کو شکست دی۔ اس فتح میں جان و مال کی قربانی کے اعتبار سے روس نے سب سے زیادہ حصہ ڈالا۔ ہتھیاروں اور وسائل کے زاویے سے امریکہ کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ اس جنگ میں اتحادیوں کا سیاسی چہرہ برطانیہ کا وزیر اعظم ونسٹن چرچل تھا۔ برطانیہ کے پاس روس کی افرادی قوت اور لامتناہی زمین تھی اور نہ امریکہ جیسے عسکری وسائل لیکن یہ چرچل کی بصیرت اور سیاسی قامت کا کرشمہ تھا۔ جنگ کے فوراً بعد برطانیہ میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ 20 جولائی 1945ء کی صبح ریڈیو پر انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے۔ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں ناشتے کی میز پر چرچل نے نتائج سننا شروع کئے۔ جلد ہی واضح ہو گیا کہ چرچل کی جماعت کو شکست ہورہی تھی۔ اس حیران کن اور غیر متوقع نتیجے سے چرچل کی بیوی اور اس کے رفقا کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ 73 سالہ چرچل یہ صدمہ برداشت کر پائے گا یا نہیں۔ کچھ دیر بعد چرچل نے اعلان کیا کہ وہ باقی نتائج کا انتظار کئے بغیر کنگ جارج ششم کو استعفیٰ دینے جارہا ہے۔ گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے شدت جذبات سے وزیراعظم کا رنگ سرخ ہو رہا تھا اور وہ جیسے خواب کے عالم میں بڑبڑا رہا تھا ۔’’ یہی تو جمہوریت ہے۔ ہم نے اسی مقصد کے لئے چھ سال جنگ لڑی ہے۔ لوگوں نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ‘‘
ضمنی انتخاب میں لوگوں کی رائے لی جاتی ہے اس میں مقامی عوامل کو بھی دخل ہوتا ہے۔ امیدواروں کی شخصیت اور مقامی رسوخ بھی انتخابی فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ قومی سیاست کرنے والے نمائندے قابل فہم طور پر اپنے حلقے سے دور ہو جاتے ہیں ۔اسے ستم ظریفی کہنا چاہئے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان سے بلدیاتی سرگرمیوں کی توقع باندھی جاتی ہے۔ ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ شہری رائے عامہ عموماً حکومت مخالف ہوتی ہے۔ ہار جیت تو انتخابی عمل کا حصہ ہے۔ ہم نے اس ملک میں ایوب خان کے ہاتھوں فاطمہ جناح کی شکست کا صدمہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ انتخاب میں پہلے غیر حتمی نتیجہ سامنے آتا ہے ۔ پھر الیکشن کمیشن نتائج کا رسمی اعلان کرتا ہے اور پھر تاریخ اپنا نتیجہ سناتی ہے ۔ تاریخ کا فیصلہ حتمی اور انمٹ ہوتا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج عام انتخابات کا متبادل نہیں ہوتے البتہ رائے عامہ کا رخ سمجھنے میں مددگار ضرور ہوتے ہیں۔ جاننا چاہئے کہ رائے عامہ تحریک انصاف کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ بذات خود یہ تبدیلی جمہوریت کے لئے حوصلہ افزا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے رہنمائوں بالخصوص عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ قومی قیادت ہوا میں تصویریں تراشنے کا کام نہیں ہے۔ سیاست پہاڑی کا وعظ نہیں ہوتی۔ قومی رہنما کو اپنے ملک کے زمینی حقائق اور تمدنی روایت سے باخبر ہونا چاہئے۔ ذوالفقار علی بھٹو تو پاک ٹی ہائوس کے بیرے الٰہی بخش کو بھی نام لے کر بلاتے تھے۔ جمال عبدالناصر ام کلثوم کا گیت سننے کے لئے گھنٹوں اسٹوڈیو میں بیٹھے رہتے تھے۔
عمران خان نے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے پالیسی بیان کا ردعمل دیتے ہوئے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ انہیں زیب نہیں دیتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی تمدنی قامت اور فکری دیانت کے بارے میں کماحقہ آگہی نہیں رکھتے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کا نام لینا کبھی آسان نہیں تھا۔ سکیورٹی اسٹیٹ بدیہی طور پر انسانی حقوق کے بیانیے کی مخالف ہوتی ہے۔ جن ریاستوں میں اقتدار اور اختیار اخفا کے دھندلکے میں اوجھل ہوجائیں، وہاں انسانی حقوق کی آواز معروف سیاسی عمل کے شانہ بشانہ لوگوں کی امنگوں اور مفادات کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ آمریت کی دہشت ہو یا بادشاہت کا سناٹا۔ انسانی حقوق کی پکار اندھیرے اور روشنی میں امتیاز کا نشان بن جاتی ہے۔ کیا عمران خان جانتے ہیں کہ انسانی حقوق کمیشن کے بہت سے ارکان پچاس کی دہائی سے ہماری جمہوری جدوجہد کا حصہ رہے ہیں ۔ صحافت اور عدلیہ کی آزادی کے لئے لڑے ہیں۔ اقتدار کی جبروت کے سامنے کمزور کی آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔ جمہوریت کے لئے جیلیں کاٹی ہیں۔ دشنام سہا ہے۔ اصولوں کی پاسداری کو اپنی روزمرہ زندگی میں شامل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جمہوریت جلسہ عام میں اظہار پاتی ہے لیکن اس کی نشوونما ضمیر کی تنہائی میں کی جاتی ہے۔ عمران خان جمہوریت کا نام لیتے ہیں اور انصاف کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں ۔ یہ بہت خوش آئند ہے لیکن انہیں جاننا چاہئے کہ جمہوریت موبائل فون کا نیا ماڈل نہیں جسے کوئی پاکستان میں متعارف کرانا چاہے گا۔ یہ کوئی صدری نسخہ نہیں جو کسی مسیحا کی بیاض میں درج ہو۔ یہ کوئی اسم اعظم نہیں کہ کسی عارف عصر کے قلب پہ جاری ہو۔ اس ملک میں جمہوریت کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ جمہوریت میں معاشرے کے جملہ گروہوں اور طبقوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کسی ایک طبقے یا گروہ کو یکسر رد کرنے کی سیاست فسطائیت پر ختم ہوتی ہے۔ جمہوریت یک نکاتی ایجنڈا اور بے لچک نعرہ نہیں، تدبر اور رواداری کے ساتھ سیاسی عمل میں شریک ہونے کا نام ہے۔ ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد جاوید ہاشمی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کسی انتخابی کامیابی سے کہیں زیادہ قیمتی اجتماعی اثاثہ ہیں۔ جاوید ہاشمی نے شکست کو جمہوری رویے کے ساتھ قبول کیا ہے۔ انہوں نے ہمیں جمہوریت کے ایک قابل قدر امکان سے روشناس کرایا ہے۔ ملتان کا ضمنی انتخاب ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ آئیے، سعادت سعید کی ایک خوبصورت نظم پڑھتے ہیں۔
منزلیں دور نہیں
اڑتے پرندوں نے بشارت دی ہے
چشم در چشم پیالوں میں لہو بھرنا کیا
سامنے دشت ہے، ویرانی ہے ، پانی بھی نہیں
ایڑیاں اپنی سلامت ہوں تو پھر
سایہ نخل تمنا بھی ملے ،
چشمے بھی
ایسے معمورے بھی خوشحال خلقت جن کی!
گردبادوں کے اندھیروں میں نظر آتا ہے
جگنو جگنو کوئی انسان چمکنے والا
نغمگی نغمگی آوارہ صبا، آرزو آرزو اسرار کشا
روشنی نغمہ سرا !
راستہ راستہ بچھڑے ہوئے مل جائیں گے
قطرے شبنم کے ستاروں جیسے
آبجو آبجو دریائوں میں مل جائیں گے !
تازہ ترین