• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھرنوں کی چکا چوند اور جلسوں کی گہما گہمی میں کسی حکومت کے اچھے کام کی خبر کیا معنی رکھتی ہے؟ میڈیا کا کاروبار بھی منفی سنسنی ، زخموں اور لاشوں کے مناظر ، بے سرو پا تقریروں ، بے بنیادالزامات اور ایک دوسرے کے گریبانوں کی چیڑ پھاڑ سے چل رہا ہے۔ معلوم نہیں دانستہ یا نا دانستہ طور پر پاکستان کو ایک آئین و قانون رکھنے والے مہذب ملک کے بجائے جنگل کے طور پر کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی دھرنا زدہ "شاہراہ دستور" پاکستان کا چہرہ مسخ کر رہی ہے۔ اس کے بالکل پڑوس میں آباد دنیا بھر کے سفیر، ہر روز اپنی اپنی حکومت کو اس چہرے کی تصویریں بھیجتے ہیں۔ تبدیل شدہ انقلابی پاکستان کی یہ تصویریں ہمارے قومی تشخص کو بری طرح مسخ کر رہی ہیں جو پہلے ہی کوئی زیادہ قابل رشک نہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کا ہدف تو بظاہر وزیر اعظم نواز شریف ہیں لیکن نشانہ پاکستان بن رہا ہے ۔ تبدیلی اور انقلاب کے لئے استعمال کئے جانے والے ہتھیار ، نواز شریف کے قلعے کو نقصان پہنچائیں نہ پہنچائیں ، پاکستان کی بنیادوں کو پہلے ہی خاصا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ پورا ملک نفرت، عدم برداشت اور اشتعال کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور سر حدوں سے باہر بیٹھے ہمارے دشمن، اس تماشے کا مزا لے رہے ہیں۔
ان حالات میں یہ چھوٹی سی خبر دھرنوں اور جلسوں کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو گئی کہ وفاقی حکومت سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ان دفتروں کا رخ کرنے والے عوام کی فیڈ بیک کا وہ نظام جاری کر رہی ہے جو پنجاب میں پہلے ہی کام کررہا ہے۔ اس پروگرام کا نام ’’پنجاب سیٹزن فیڈ بیک مانیٹرنگ ‘‘ پروگرام ہے۔ اس پروگرام کا طریقہ کار یہ ہے کہ پنجاب کے کسی سرکاری محکمے میں جانے والے شخص کو ایک ٹیلی فون کال مو صول ہوتی ہے کہ اس کا تجربہ کیسا رہا ؟ وہ فرد اپنے تجربے کے مطابق فیڈ بیک دیتا ہے اور حکومت اس فیڈ بیک کی روشنی میں ضروری کارروائی کرتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب تک چار ہزار سے زائد اصلاحی اقدامات کئے جاچکے ہیں ۔ یکم اکتوبر کو وزیر اعظم نواز شریف نے ایک اجلاس میں بریفنگ لینے کے بعد اعلان کیا کہ وفاقی حکومت بھی اپنے ماتحت محکموں میں یہ نظام جاری کرے گی۔ ایک دوسری خبر کے مطابق خیبر پختونخوا کی حکومت بھی یہ طریقہ کار جاری کر رہی ہے۔ کچھ دن قبل ، امارات کے ایک معتبر اخبار ’’خلیج ٹائمز‘‘ کے صفحہ اول پرشہ سرخی کی صورت میں شائع ہونے والی ایک خبر میری نظر سے گزری۔ خبر میں بتایا گیاہے کہ دبئی کے حکمراں ، شیخ محمد بن راشد المکتوم نے سرکاری محکموں میں عوامی خدمت جانچنے کیلئے ایک نیا نظام جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس نظام کا نا مHAPPINESS AND SATISFACTION METERرکھا گیا ہے۔ یعنی وہ پیمانہ جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاسکے کہ لوگ سرکاری محکموں کی کارکردگی سے کس قدر خوش اور مطمئن ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہر سرکاری دفتر میں مشینی اہتمام کیا گیا ہے کہ وہاں جانے والا شخص اپنے تجربے کے مطابق اپنا تاثر رجسٹر کرائے۔
اخبار میں شائع تصویر کے مطابق ایک الیکٹرانک مشین پر تین چہرے بنے ہوئے ہیں ۔ ایک ہنستا مسکراتا، ایک سپاٹ اور ایک مایوس اور پژمردہ ۔ آپ کو اپنے تجربے کی روشنی میں بس ایک کو اپنی انگلی سے ٹچ کردینا ہے ۔شام تک اعلیٰ ترین سطح پر ریکارڈ مرتب ہو جائے گا کہ کس دفتر میں جانے والے کتنے لوگ خوش ہوئے ، کتنوں کا تجربہ واجبی سارہااور کتنے مایوسی کا شکار ہوئے ۔ ان افراد سے رابطے اور ان پر گزرنے والی کہانی کی تفصیلات کا کمپیوٹر ائز نظام بھی وضع کرلیا گیا ہے ۔ اس سے ملتا جلتا نظام پہلے بھی کام کر رہا تھا لیکن اب ’’ اسمارٹ دبئی‘‘ کے عنوان تلے نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے زیادہ موثر بنا دیا گیا ہے ۔
نظام کی تعارفی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دبئی کے حکمران، شیخ محمد نے کہا کہ ’’ سرکاری دفاتر میں عوام سے روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں سالانہ یا سہ ماہی رپورٹس حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے کافی نہیں۔ دنیا تیز ہو چکی ہے اور لوگوں کی توقعات بھی بہت بڑھ چکی ہیں۔ لہذا ضروری ہو گیا ہے کہ سر کاری محکموں کی کار کردگی کا روزانہ کی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔ ہم لوگوں کو خوش اور مطمئن دیکھنا چاہتے ہیں اوراسی لئے ’’ہیپی نیس میٹر ‘‘ کا نظام وضع کیا جارہا ہے"۔ اسی اخبار میں شائع ہونے والی ایک دوسری خبر کے مطابق دبئی کے سالانہ بجٹ کا 49 فی صد یعنی تقریباً نصف ، عوامی فلاح و بہبود کے لئے مختص کیا گیا ہے۔
دبئی اور پاکستان کا موازانہ کئی پہلوئوں سے درست نہیں لیکن کیا ہم اس اصول سے کوئی رہنمائی بھی حاصل نہیں کر سکتے کہ سرکاری محکموں میں عوام کیساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو بہتر بنانے کی کوئی حکمت عملی بنائی جائے؟ کسی بھی حکومت کے لئے کو نسا مشکل کام ہے کہ وہ درجن بھر ایسے اداروں کا تعین کرے جن سے عوام کو ہر روز واسطہ پڑتا ہے۔ مثلا پٹواری ، تھانہ ، کچہری ،پاسپورٹ آفس ، شناختی کارڈ دفتر ، اسپتال ، ڈرائیونگ لائسنس ، تعلیمی ادارے وغیرہ۔ حال ہی میں مجھے خود ایک سرکاری بنک میں اکاونٹ کھولنے کا انتہائی تلخ تجربہ ہوا جب تقریباً دو ماہ تک یہی کہا جاتا رہا کہ ہمارے پاس نئے کھاتے والے فارم نہیں ہیں۔ پاسپورٹ دفاتر کے گرد پیشہ ور ٹائوٹ ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ یہی حال شناختی کارڈ دفتر کا ہے۔لو گوں کے لئے موسموں کی شدت سے بچنے کا انتظام بھی ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔ پٹواری کی اجارہ داری آج بھی ختم نہیں کی جاسکی۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی حکمرانی اور مریضوں کی زبوں حالی کس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے؟ توقع تھی کہ نئے نوجوان ڈاکٹرز ایک مثبت کلچر لے کر آئیں گے لیکن انہوں نے بات بات پر ہڑتال کلچر اور مریضوں سے عدم ہمدردی کا افسوس ناک رحجان پروان چڑھایا ۔ سب سے زیادہ افسوس ناک حالت بوڑھے پنشنروں کی ہے جنہیں کئی کئی گھنٹے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا اور دفتروں کے دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ اور آپ کو آئے دن بجلی، گیس اور فون کے بل جمع کرانے والے لوگوں کی میلوں لمبی قطاریں نظر آتی ہیں ۔جنہیں سرکار کے خزانے میں پیسے جمع کرانے کے لئے بھی گھنٹوں خوار ہونا پڑتا ہے۔
بڑے بڑے ڈیمز، ہوائی اڈوں،بندرگاہوں، شاہراہوں اور بجلی گھروں کی تعمیر کیلئے یقیناً اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا عوام کو روزمرہ زندگی میں آسانیاں فراہم کرنے کے لئے بھی ہمیں اتنی ہی بڑی سرمایہ کاری درکار ہے؟ہرگز نہیں۔ یقیناً کچھ نہ کچھ مالی بوجھ ضرور پڑے گا لیکن عوام کو سہولتیں فراہم کرنا بھی تو حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کے لئے بنیادی ضرورت پیسہ نہیں ، پختہ عزم اور عوامی خدمت کا جذبہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے پہلے ادوار میں عوامی سہولت کے کافی کام کر چکے ہیں ۔ انہوں نے قدم قدم پر لگے چونگی ناکوں کا خاتمہ کیا۔ زرمبادلہ پر لگی پابندیوں کو ختم کیا۔ گرین چینل متعارف کرایا۔ اپنا گھر اسکیم دی۔ اب انہیں ایک بار پھر اپنی توجہ عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کے سستے نسخے کی طرف موڑنی چاہئے۔ انہیں اپنے وزراء کی ایک کمیٹی بنانی چاہئیے جو سرکاری محکموں کے حوالے سے عوام کے مسائل کا جائزہ لے اور انہیں آسانیاں فراہم کرنے کے لئے ٹھوس تجاویز دے۔ ہمیں ’’ ہیپی نیس میٹر ‘‘ وضع کرنے میں کچھ وقت تولگے گا لیکن سرکاری دفاتر میں دھکے کھاتے عوام کے غم و غصہ میں کمی کا کوئی طریقہ نکالا ہی جا سکتا ہے۔
تازہ ترین