• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی نے طویل عرصے کے بعد میدان سیاست میں ہلچل مچا دی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی نے کراچی میں پہلا بڑا جلسہ عام منعقد کیاجو انتہائی کامیاب رہا ہے ۔ اس جلسہ سے نہ صرف پیپلز پارٹی نے اپنا وجود ثابت کیا ہے بلکہ اس کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی سفر کا بھی آغاز ہوا ہے ۔ بلاول بھٹو نے پہلی دفعہ قوم کے سامنے اپنی پچھلی حکومت کا دفاع کیا۔ اپنی سیاسی پالیسیاں واضح کیں اور اپنے سیاسی وژن کا اظہار کیا اور تقریبًا تمام قومی امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر اور بڑی جامع تقریر کی۔ یہ جلسہ اس سیاست کی کڑی ہے ، جو ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر شروع کی تھی ۔ یہ سیاست محترمہ بے نظیر بھٹو سے ہوتی ہوئی بلاول بھٹو زرداری تک پہنچی ہے ۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس ملک کی نہ صرف سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے بلکہ اس کے کارکن اور ہمدرد پاکستان کے ہر شہر ، قصبے اور گاؤں میں موجود ہیں ۔ ہر زبان ، مذہب ، فرقے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سے وابستہ ہیں ۔ 18 اکتوبر 2014ء کو ہونے والے جلسے سے جمہوریت کا وہ قافلہ چل پڑا ہے، جسے سات سال پہلے یعنی 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی کی شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر دہشت گردی کے ذریعہ روکا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے قیام سے آج تک پاکستان کی سیاست میں ’’ پرو بھٹو ‘‘ اور ’’ اینٹی بھٹو ‘‘ سیاست ہوتی رہی ہے ۔ بھٹو ملکی سیاست کا ایک انتہائی لازمی اور متعلقہ عامل رہا ہے ۔ ملک میں جب بھی عام انتخابات ہوئے ہیں ، اسی بنیاد پر پولرائزیشن ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کئی بار پیپلز پارٹی مخالف سیاسی اتحاد بنائے لیکن وہ مستقل طور پر نہ چل سکے ۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو ملک میں ’’ پرو بھٹو ‘‘ اور ’’ اینٹی بھٹو ‘‘ سیاست ہو رہی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ دہشت گردی اور سیاسی ہتھکنڈوں سے پیپلز پارٹی کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ وہ بظاہر سندھ تک محدود ہو گئی ہے ۔پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو انتخابات میں شکست ہو گئی ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ملنے والی کامیابی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے موجودہ قائدین کی کوششوں کا ثمر ہے بلکہ سندھ میں پیپز پارٹی کو شہید بھٹو اور شہید رانی کی وجہ سے ووٹ پڑے تھے۔سندھ میں یہ بھٹو خاندان کی قربانیوں کا ووٹ ہے ۔
اگرچہ دیگر صوبوں کے عوام میں بھی بھٹو خاندان کی قربانیوں کے بارے میں وہی احساس پایا جاتا ہے ، جو سندھ میں ہے لیکن وہاں کے لوگوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان اس جذباتی رشتے میں بہت سی چیزیں حائل ہو گئی ہیں ۔ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ شہداء کی پارٹی ہے ۔ یہ ان لاکھوں کارکنوں کی پارٹی ہے ، جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کوڑے کھائے ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ’’ منزل انہیں ملی ، جو شریک سفر نہ تھے ۔ ‘‘ آج پیپلز پارٹی میں سوائے چند کے بیشتر لوگ وہ ہیں ، جو اس کارواں میں نہ تو کبھی شریک تھے بلکہ ان میں بے شمار مخالف صفوں میں تھے ۔ ان کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور اس کے کارکنوں و ہمدردوں کے مابین فاصلہ پیدا ہوا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کراچی سے خیبر تک اور بولان سے روہی تک ملک کے طول و عرض میں پیپلز پارٹی کے چاہنے والے موجود ہیں ، 18 اکتوبر کے جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ لوگوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی نسبت سے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ وابستگی موجود ہے ۔ بلاول بھٹو کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پاکستان بھر کے لاکھوں کارکنوں کے ساتھ اپنے اور اپنی پارٹی کے رشتے کی تجدید کریں اور انہیں یہ یقین دلائیں کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست اور رابطوں کا احیاء کرینگے ۔ پنجابیوں ، سندھیوں ، بلوچوں ، پختونوں ، سرائیکیوں اور اردو بولنے والوں کیساتھ ساتھ پاکستان کی تمام زبانیں بولنے والوں کیساتھ ان کا اپنائیت کا رشتہ ہے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ اس رشتے کو بحال کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔
بلاول بھٹو کے لئے دوسرا بڑا چیلنج پارٹی کی تنظیم نو ہے ۔ ان کے ارد گردجو لوگ نظر آتے ہیں ، وہ زیادہ تر وہی لوگ ہیں ، جو 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تک پارٹی میں نہیں تھے اور نہ ہی جدوجہد اور قربانیوں میں ان کا کوئی حصہ تھا ۔ مجھے یہ بات کہنے دیجئے کہ اگر پارٹی کی تنظیم کو ان لوگوں کے بلبوتے پر چلایا جائے گا تو خاکم بدہن بلاول بھٹو کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی ۔ کسی بھی سیاسی لیڈر میں وژن تب پیدا ہوتا ہے ، جب اس کا اپنی مٹی اور خاک سے گہرا تعلق قائم ہوتا ہے ۔ خاک سے تعلق خاک نشینوں کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری ان خاک نشینوں سے اپنا رابطہ بڑھائیں ۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں کوئی ’’ تھنک ٹینک ‘‘ نہیں ہے حالات پر گہری نظر رکھنے والے اور سیاست ، تاریخ اور فلسفہ کا عمیق مطالعہ کرنے والے لوگوں کا فقدان ہے ۔ لوک دانش کے حامل لوگوں ، فنکاروں ، شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ پارٹی کا پہلے والا رشتہ نہیں رہا ہے ۔ اس رشتے کی وجہ سے پیپلز پارٹی ایک سیاسی تحریک کے ساتھ ساتھ ثقافتی تحریک بھی تھی ۔ بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے اندر اور باہر تھنک ٹینکس قائم کرنے کے چاہئیں ۔ یہ تھنک ٹینکس ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھی ہوں ۔ان کی مشاورت سے وسیع تر تناظر میں فیصلے کئے جائیں ۔ فیصلے کا اختیار بالآخر بلاول بھٹو کو ہی ہے لیکن ان کے پاس مشاورت اور فیڈ بیک ہو گا تو فیصلے بھی آسانی سے ہو سکیں گے ۔ پیپلز پارٹی کی ثقافتی تحریک کو بھی دوبارہ شروع کرنا ہو گا ۔ یوسف رضا گیلانی‘ اعتزاز احسن اور رضا ربانی نے کھل کر کہا کہ ہمیں اپنی پچھلی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے اور احتساب بھی اور پارٹی کے لئے ایک نیا چارٹر بنانا چاہئے جس میں آج کے بدلے ہوئے حالات میں ایک قابل عمل عورتوں ، نوجوانوں کے حقوق کا تعین کرنا چاہئے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج سب سے اہم بات انسانی وسائل کو ترقی دینے کی ضرورت ہے ۔ آج سب سے بڑا investment اسی Human Resources میں ہونا چاہئے جسکی ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لوکل باڈیز کا قیام ملک میں مردم شماری اور Decentralization جو آج کی دنیا کی ضرورت ہے ۔ اسکے بغیر مستقبل کا روشن پاکستان نہیں بن سکے گا۔ آج کی دنیا نعروں کی نہیں عملیت پسندی کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تاریخ کے چند بڑے لوگوں کی مثالوں کوبھی سامنے رکھیں ، جنہوں نے مشاورت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ۔ امریکہ کے جان ایف کینیڈی نے جب صدارتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ،توانہوں نے چند دوستوں کو بتایا کہ میں نے صدارتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
ان کے دوستوں نے کہا کہ اگر آپ کامیاب صدربننا چاہتے ہیں تو تنہائی میں اپنی کمزوریوں کا احاطہ کریں اور پھر ان کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی انتہائی قابل آدمی کو تلاش کر کے اسے اپنا مشیر بنادیں ۔ عراق ایران جنگ چھڑی تو ایک صبح مہاتیر محمد خود گاڑی چلا کر کوالالمپور کی یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے شعبہ کے سربراہ کے پاس پہنچ گئے اور اس جنگ کے محرکات اور اثرات پر گفتگو کی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے اپنی امنگوں اور خواہشوں کی تکمیل کے لئے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے استبدادی اور استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی ۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان سربراہ کو یہ بات خاص طور پر ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے ۔ غربت کا خاتمہ کئے بغیر جمہوری عمل کو پائیدار بنیادوں پر آگے نہیں بڑھایا جا سکتا ۔ اس موقع پر مجھے ذوالفقار علی بھٹو کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ جو چند روز قبل ٹی وی اینکر منو بھائی کے حوالے سے سنا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ 1970ء میں بھٹو صاحب لاہور کے مال روڈ پر گاڑی میں جا رہے تھے ۔ شاید ملک غلام مصطفی کھر گاڑی چلا رہے تھے اور مرحوم حنیف رامے بھی گاڑی میں موجود تھے ۔ گاڑی کو ہجوم نے گھیر لیا ۔ بھٹو صاحب نے گاڑی سے باہر نکل کر لوگوں سے خطاب کیا اور دوبارہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے حنیف رامے سے مخاطب ہوئے اور کہا ’’ رامے صاحب ! ہم چاہیں نہ چاہیں ، یہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ۔ ‘‘ آج بھی یہی صورت حال ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنا چاہتے ہیں ۔ اس کام کے لئے وقت نے بلاول بھٹو زرداری کو ایک موقع فراہم کیا ہے اور پیپلز پارٹی کو آخری۔
آخر میں بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کو میں شاندار جلسے کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے الفاظ میں ایک مشورہ بھی پیش کرتا ہوں۔ اپنی کتاب مفاہمت میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں ۔ ’’ جمہوریت کے معاملے میں ہمیں حقیقت پسند اور عملی رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ جان ایف کینیڈی نے ایک مرتبہ خود کو ’’ توہمات سے پاک مثالیت پسند ‘‘ قرار دیا تھا ۔ جب میں اپنے ملک کے آمریت کے شکنجے سے نکل کر جمہوریت کی تہذیب کی طرف بڑھنے کا سوچتی ہوں تو میرے نزدیک اس بیان میں افادیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ جب آمریت سے سامنا ہو تو انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ رکاوٹوں سے سیدھا جا ٹکرائے جبکہ عملیت پسندی امکانی اور پر امن راستوں کو آزما لینے کا تقاضا کرتی ہے ۔ شعور اور تجربے کے لحاظ سے پختگی حاصل کرنے کے بعد اس مقصد سے میری وابستگی پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہو گئی ہے ۔ مگر اہداف کے پر امن حصول کے راستے تلاش کرنے میں ، میں پہلے سے زیادہ صابر ہو گئی ہوں ۔ ‘‘
تازہ ترین