• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب بھی اکتوبر آتا ہے مجھے طارق عزیزبہت یاد آتے ہیں اور خاص طور پر اکتوبر کی ایک شام کی ’’جمہوری بحث‘‘ تو بھولتی ہی نہیں۔ پرویزمشرف کے کالج فیلو،چوہدری ظہور الہی کے منہ بولے بیٹے اور مقابلے کے امتحان کے بعد انکم ٹیکس آفیسر کے طور پر اپنا کیرئیر شروع کرنے والے طارق عزیز سے مجھے اپنی پہلی ملاقات تو یاد نہیں ،مگر اتنا یاد ہے کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جب ان سے ملاقات نہ ہوتی،ٹیلی فون پر بات نہ ہوتی یا کم ازکم موبائل میسجنگ نہ ہوتی ہو ۔اکثر کہا کرتے ’’تمہاری وجہ سے مجھے بھی ایس ایم ایس کرنا آگیا‘‘ ۔مشرف دور میں پمز ہسپتال میں اسیر آصف زرداری سے راتوں کو ملاقاتیں ہوں ،اڈیالہ جیل میں قیدی یوسف رضا گیلانی سے رابطے ہوں،اس دور کی کوئی میٹنگ ،کوئی ڈیل ،کوئی فیصلہ یا کوئی پالیسی ایسی نہیں ملتی کہ جس میں طارق عزیزشامل نہ ہوں ۔وہ پاکستانی جمہوریت کو ذاتی طور پر بھی کچھ اس طرح بھگت چکے تھے کہ نہ صرف وقفے وقفے سے او ایس ڈی ہو کر کھڈے لائن لگے رہے ،معاشی تنگدستی کا شکار ہوئے ،روز روز کے سیاپوں کی وجہ سے انہیں نہ صرف اپنی والدہ کو لاہور شفٹ کرنا پڑا بلکہ آئے روز کی حکومتی کارروائیوں سے ذہنی طور پر انتہائی ڈری اور سہمی ہوئی اپنی بیٹیوں کے ساتھ ان کو ایک عرصے تک فرش پر بھی سونا پڑا۔لیکن اُس وقت جب اقتدار اور اختیار ان کے پاس تھا،انہوں نے کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیابلکہ ان دنوں جب ہر خرابی اور برائی نواز شریف کے کھاتے میں ڈال کر ن لیگ کو گالی دینا ایک فیشن بن چکا تھا، ان وقتوں میں بھی میں نے انہیں ’’میاں برادران ــ‘‘ کا نام عزت سے لیتے سنا اور دیکھا ۔گرمیوں کی ایک سہ پہر اسلام آباد کلب جاتے ہوئے طارق عزیز نے بتایا ’’مشرف نئے نئے آرمی چیف بنے تھے ۔میں پرویز مشرف اور ان کے دوبرطانیہ سے آئے ہوئے دوست آرمی ہاؤس میں ڈنر کے بعد کار پورچ میں کھڑے تھے کہ پرویز مشرف کا ایک دوست بولا ’’اب اللہ خیر کرے ‘‘۔ ہم سب نے حیران ہو کر اُسے دیکھا اور پھر مشرف نے حیرانگی سے پوچھا کہ کیا ہوا۔وہ بولا’’ڈر رہا ہوں کہ وزیراعظم صاحب نے کوئی نہ کوئی بونگی ماردینی ہے اور تم نے چھوڑنا نہیں،اس لئے دعا کر رہا ہوں کہ اللہ خیر کرے‘‘۔ اس پر ابھی ہم بمشکل مسکرا ہی پائے تھے کہ دوسرا دوست بول پڑا ’’شکر ہے میاں صاحب برطانیہ کے وزیراعظم نہیں ہیں ،ورنہ ہم تو مارشل لاء نہ لگنے کی دعائیں مانگ مانگ کرہی مر جاتے‘‘ ۔ایک قہقہہ لگا اور ہم سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔انکم ٹیکس ٹربیونل میں کھڈے لائن لگے آدھا دن اخبارات پڑھتے اور باقی آدھا دن کارڈز کھیلتے طارق عزیز کی زندگی میں اُس وقت 180ڈگری کا یوٹرن آیا جب 12اکتوبر 1999کے مارشل لاء کے بعد لاہور سے بذریعہ موٹروے اسلام آباد آتے ہوئے پرویز مشرف نے انہیں اپنے موبائل سے کال کی کہ ’’طارق کل میں اور صہبا(اہلیہ) ناشتہ تمہارے گھر کریںگے ۔اگلی صبح بیگم وپرویز مشرف طارق عزیز اور ان کی فیملی کے ساتھ ناشتے کی میز پر تھے۔دوگھنٹے پر محیط ادھر یہ ناشتہ ختم ہوا اور ادھر ایک لمبی بحث کے بعد راضی ہو جانے والے طارق عزیز پرنسپل سیکریٹری ٹو پرویز مشرف ہوگئے اور یوں ان کی زندگی کی دوسری اننگز کا آغاز ہوا۔پرنسپل سیکرٹری لگنے کے تھوڑے عرصے بعد ایک صبح میں ان کے نئے دفتر گیا تو ویٹنگ روم میں 3وفاقی وزراء اور چھ سات اعلیٰ حکومتی عہدیدار بیٹھے انتظار کر رہے تھے اور جب میں اندر گیا تو وہ صوفے پر ٹیک لگائے نیم دراز فائلیں چیک کرنے کے ساتھ ساتھ سگار پی رہے تھے ۔چائے سموسہ چلے گا ،مجھے دیکھتے ہی وہ بولے۔پہلے آپ اپنے مہمانوں کو تو فارغ کر لیں،میں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔میری اس بات پر اپنی کرسی کی طرف اشارہ کر کے بولے ’’یہ سب مہمان اس کرسی کو ملنے آئے ہیں۔جبکہ تم مجھے ملنے آئے ہو ،تمہیں مل کر کرسی پر بیٹھوں گا تو ان سے بھی مل لوں گا‘‘ ۔ایک بار ہم لاہور میں ہارس ریس کلب جارہے تھے (وہ کلب کے سیکریٹری بھی تھے ) رستے میں وقفے وقفے سے وزیراعظم شوکت عزیزکے ان کے موبائل پر 3فون آئے ۔جب تیسری مرتبہ بات کر کے فارغ ہوئے تو میں نے کہا کہ ’’سچی یاری لگتی ہے‘‘(مجھے پتا تھا کہ وہ شوکت عزیزکو وزیراعظم بنانے کے حق میں نہیں تھے ) قہقہہ مار کر بولے ’’بڑا میسنا ہے مروا دے گا ‘‘ اسی طرح ایک دن ابھی ہم ریس کلب پہنچے ہی تھے کہ آج اپنی خوردبینوں سے بلاول بھٹو زرداری میں سے ذوالفقار بھٹو تلاش کرتے منظور وٹو بھی آگئے ۔وہ رکوع کی حالت سے بھی چند انچ مزید جھک کر طارق عزیز سے گلے ملے ،کان میں کچھ کھسر پھسر کی اور اگلی ملاقات کا وقت لے کر چلتے بنے ۔اس طرح اتنا جھک کر ملنا تو سراسر شرک ہے۔منظور وٹو کے جاتے ہی میں نے طارق عزیز سے کہا ، کافی دیر تک ہنسنے کے بعد بولے ’’یہ پاکستانی سیاست ہے ‘‘ ایک پولیس آفیسر (جن کے آج بھی بڑے چرچے ہیں ) جب بھی ملنے کیلئے یونیفارم میں آتے تو کمرے میں داخل ہوتے ہی دوفٹ اوپر سے ٹانگ اٹھا کر اتنے زور سے پاؤں کو زمین پر مار کر سیلوٹ کرتے کہ میں نے دیکھا کہ ایک دومرتبہ طارق عزیز کے ہاتھ سے سگار گرتے گرتے بچا۔ انہیں ملنے کے بعد ہم دونوں اکثر دعا کرتے کہ اگلی مرتبہ وہ یونیفارم میں نہ آئیں ۔میڈیا سے ہمیشہ ایک فاصلے پر رہنے والے طارق عزیز کو ایک مرتبہ چھیڑتے ہوئے میں نے کہا کہ’’ مانا کہ آپ خوبصورت نہیں ہیں مگر پھر بھی اتنے قبول صورت تو ضرور ہیں کہ ٹی وی کیمرے میں برے نہیں لگیں گے اور اخبار میں آپ کی تصویر سے بچے بھی نہیں ڈریں گے تو پھر آپ میڈیا سے پرے پرے کیوں رہتے ہیں؟‘‘۔ اس پربتانے لگے کہ ’’ میں نے تو ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں صدر مشرف کو یہ تجویز دی ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے مسائل میں کمی ہو تو وزارت اطلاعات و نشریات ختم کر دیں‘‘ ۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔میں کہہ رہا تھا کہ جب بھی اکتوبر آتا ہے ،مجھے طارق عزیز بہت یاد آتے ہیں اور خاص طور پر اکتوبر کی شام کو ان سے کی گئی ایک ’’جمہوری بحث‘‘ تو بھولتی ہی نہیں ۔ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ ہم دونوں وفاقی دارالحکومت کے پوش سیکٹر میں پربت روڈ پر واقع ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔وقفے وقفے سے برستی بارش تھم چکی تھی اور سورج غروب ہو چکا تھا ۔شام کے گہرے ہوتے دھندلکوں میں طارق عزیزکچھ زیادہ ہی خاموش اور میں کچھ زیادہ ہی بول رہا تھا ۔میں نے کہا کہ لولی لنگڑی،گونگی بہری اور اندھی جمہوریت بھی بہترین مارشل لاء سے بہتر ہوتی ہے ۔پھر میں نے جمہوری ممالک کی ترقی بتائی ،پھر جمہوری معاشروں کی خوشحالی کی باتیں کیں اور پھر بنیادی انسانی حقوق کی ایک لمبی فہرست گنوانے کے بعد اچانک میں نے انہیں کہہ دیا کہ’’ آپ ہماری جمہوریت کے قاتل ہیں‘‘ ۔بڑے غور سے میری طرف دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے بولے :میں کیسے قاتل ہوا۔میں نے تو مارشل لاء نہیں لگایا۔مگر اس وقت بھی آپ موجودہ نظام کے 5اہم ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اسلئے آپ بھی اس قتل میں برابر کے شریک ہیں ،میں نے جواب دیا ۔تم نے کبھی اپنی جمہوریت کو دیکھا اور بھگتا ہے بالآخر وہ زچ ہوکر بولے ۔’’بالکل نہیں دیکھا اور دیکھتا بھی کیسے آپ نے جمہوریت رہنے ہی نہیں دی ‘‘۔میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔جس دن تم اپنی جمہوریت دیکھ اور بھگت لو گے اس دن اپنے اس قاتل کو دعائیں دو گے ۔طارق عزیز نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے بات مکمل کی اور پھر مسلسل بجنے والے موبائل پر کسی سے بات کرنے لگ گئے ۔ وقت بدلا،منظر بدلا اورپھر سب کچھ ہی بدل گیا۔ نواز شریف کی واپسی ہوئی، بینظیر بھٹو اگلی دنیا جاپہنچیں۔مشرف کو جانا پڑا اور دبئی میں بچوں کی پرورش پر مامور آصف علی زرداری صدرِپاکستان بن گئے ۔اوریوں مجھے بقائمی ہوش وحواس اپنی جمہوریت دیکھنے کا موقع مل گیا۔مگریقین مانئے پونے سات سال پی پی اور ن لیگ کا جمہوری مک مکا بھگتنے کے بعد بھی میں نے کبھی طارق عزیز کیلئے دعا نہیں کی۔
اپنی جمہوریت والوں کی ولائیتی پوشاکیں اوراپنی مخلوق کے ننگے جسم، ان کی مہنگی خوراکیں اور اپنی بھوکی خودکشیاں ،ان کی باہر موجیں کرتی اولادیں اور آئے روز بڑھتی جائیدادیں اور اپنے ناکے ،دھماکے اور فاقے بھی برداشت کر گیا ۔مگر میں نے طارق عزیز کیلئے کبھی ایک لفظ دعا کا ادا تک نہیں کیا ۔لیکن جس دن مشترکہ پارلیمنٹ نے مجھ جیسوں کو خانہ بدوش ،گھس بیٹھیا، دہشت گرد اور بدبو پھیلانے والاکہا تو نہ چاہتے ہوئے بھی میرے اندر سے طارق عزیز کیلئے پہلی مرتبہ دعا نکلی۔پھر جس دن میرا وزیراعظم مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو آم ،اُس کی ماں کو ساڑھی اور شالیں بھجوا کر اس کی تقریب حلف برداری میں دلی جا پہنچا۔ اُس دن سے میں نے اپنے قاتل طارق عزیز کیلئے روزانہ دعائیں مانگنا شروع کر دیں اور پھر کچھ دن پہلے جب میری جمہوریت نے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کی بندوق کو یہ اختیار دے دیا کہ اب وہ فیصلہ کرے کہ میرے ملک میں کون دہشت گرد ہے اور کون معصوم تو اُس دن سے تو میں طارق عزیز کی صحت اور زندگی کیلئے ہر لمحے ،ہر پل اور ہر گھڑی دعا گو ہوں ۔
تازہ ترین