• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھرنوں اور جلسوں کے اس موسم میں پاکستان پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعت کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ اپنی عوامی طاقت اور تشخص کے اظہار سے گریزاں رہتی ۔ کراچی میں مزار قائد پر ایک بڑا سیاسی اجتماع منعقد کیا گیا جس میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک پرجوش تقریر سے اپنے حامیوں کے دل گرمانے کی کوشش کی۔اس جلسے کی تاریخ اور مقام کے انتخاب میں سانحہ کار ساز سے مناسبت کا اہتمام کیا گیا تھا کیونکہ 18اکتوبر 2007ء کو اس مقام پر ہونے والے دہشت گردحملے سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی خاص جذباتی وابستگی ہے۔ بلاول بھٹو کے خطاب کے بارے میں ہمدردانہ اور مخالف ردعمل قابل فہم ہے۔ ایک اہم نتیجہ تو ایم کیو ایم کی سندھ حکومت سے علیحدگی کی صورت میں فوراً سامنے آگیا ہے۔ یہ پیش رفت جمہوری استحکام کے لئے خوش آئند نہیں۔ ایم کیو ایم شہری سندھ میں واضح عوامی تائید کی روایت رکھتی ہے اور سندھ کے لسانی توازن کے پیش نظر ایم کیو ایم اور دوسری سیاسی قوتوں میں مفاہمت ہی تدبر کا راستہ ہے۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم کا اقدام غیر متوقع نہیں تھا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم نعرے، احتجاج اور انہدام کی حالیہ لہر میں کشش محسوس کرنے کے باوجود اپنے اظہار کے لئے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی۔ پیپلز پارٹی کا جلسہ ایک اچھا موڑ ثابت ہوا۔ بلاول کی تقریر پس منظر میں چلی گئی اور سندھ میں ممکنہ بحران پر توجہ مرکوز ہو گئی۔ تاہم پیپلز پارٹی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی قوت ہے اور اس جماعت نے مقتدر قوتوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود اس ملک میں ہونے والے دس عام انتخابات میں سے پانچ میں کامیابی حاصل کی۔ انتخابی عمل میں سیاسی جماعتوں کی ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی 1997ء میں قومی اسمبلی کی صرف 17نشستیں جیت پائی تھی۔ سندھ کی صوبائی حکومت بھی پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ اس کے باوجود 2002ء میں مشرف آمریت کی بھرپور ریشہ دوانیوں کے علی الرّغم پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ چنانچہ مناسب ہوگا کہ پاکستان کے جمہوری سفر میں پیپلز پارٹی کے احیا کی موجودہ کوشش پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
پیپلز پارٹی کے جلسے میں کراچی کے شہریوں کی بجائے بیرون شہر سے آنے والے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اہل کراچی کے دل جیتنے میں تا حال کامیاب نہیں ہو سکی۔ جلسے کے شرکا کی تعداد مناسب تھی، حیرت انگیز نہیں۔ حالیہ عرصے میں ابھرنے والی سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں تعلیم یافتہ، کھاتے پیتے اور نوجوان افراد کی زیادہ تعداد نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے جلسے میں شریک ہونے والوں کی بڑی تعدادغریب لوگوں پر مشتمل تھی اور ان کی اوسط عمر بھی زیادہ معلوم ہوئی۔ آج کے پاکستان میں چودہ کروڑ شہری 1988ء کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے ضیاالحق کے بدترین استبداد کا براہ راست تجربہ نہیں کیا۔ ان نوجوانوں کی ذہنی تربیت تلقین پر مبنی نصاب تعلیم کے ذریعے ہوئی ہے۔ماضی میں قدامت پسندی ، تنگ نظر قوم پرستی اور جمہور دشمنی کے رجحانات کی پرورش کی جاتی رہی ہے۔ان نوجوانوں نے غیر مستحکم جمہوری حکومتیں دیکھی ہیں جو عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے سے قاصر رہی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے اقوام عالم میں پاکستان کے کم ہوتے ہوئے وقار کا مشاہدہ کیا ہے ہم انہیں اس زوال کے حقیقی اسباب سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان شہریوں کو اپنے سیاسی شعور کی روشنی میں اپنے فیصلے کرنے کا پورا حق ہے ۔ ہم انہیں برگر اور ناچ گانے کے طعنے دے کر کوئی سیاسی دلیل نہیں دے رہے۔ اس ملک میں جمہوریت کے لئے ہماری قربانیوں کا حتمی مقصد یہی تھا کہ ہماری آئندہ نسلیں زندگی کی خوشیوں سے بہرہ ور ہو سکیں ۔ہم اپنے بچوں کے لئے کتاب ،گیت اور رقص کا خواب دیکھتے رہے ہیں، ہمیں کسی کو گیت اور رقص پر طعنہ دینا زیب نہیں دیتا۔
بلاول بھٹو پاکستان کے نوجوان شہری ہیں۔ سیاست اعلیٰ ترین انسانی ذہانت کا تقاضا کرتی ہے۔ سیاست سیاسی عمل میں شریک ہو کر سیکھی جاتی ہے۔ بلاول کو بچہ کہنا غیر سیاسی سوچ ہے۔ پاکستان کا ہر وہ شہری جو ووٹ دینے اور انتخاب لڑنے کی عمر کو پہنچ گیا ہے، سیاست میں حصہ لینے کا مساوی حق رکھتا ہے۔ بے نظیر بھٹو 1977ء میں سیاست میں داخل ہوئیں تو ان کی عمر چوبیس برس تھی۔ بلاول کو موروثیت کا طعنہ دینا بھی مناسب نہیں۔ سیاسی جماعت میں رہنمائی کا حق کارکنوں کی تائید سے حاصل کیا جاتا ہے۔ بلاول کو وصیت کے نتیجے میں پارٹی کا رہنما چنا گیا یا کسی کی نصیحت بروئے کار آئی، یہ پیپلز پارٹی کا داخلی مسئلہ ہے۔ دنیا کا کوئی قانون کسی شہری کو اس بنا پر سیاست میں حصہ لینے سے منع نہیں کرتا کہ اس کے باپ دادا سیاست دان تھے۔ سیاست ایک اجتماعی ذمہ داری ہے ،مفادات بٹورنے کا ذریعہ نہیں کہ اس میں حصہ لینا مراعات میں شمار کیا جائے۔ بلاول کی وراثت اقتدار نہیں، اس کے بزرگوں کی قربانیاں ہیں۔ تسلیم کہ قربانی سے اقتدار کا حق نہیں مل جاتا۔لیکن بلاول بھٹو تو سیاسی جدوجہد میں شریک ہونے کا حق مانگتا ہے ۔اس نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بھٹو خاندان کی شہادتوں کے عوض اسے وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ یہاں تو لوگ خوابوں کا معاوضہ مانگتے ہیں ۔
بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں آمریت کے مقابلے میں بھٹو ازم کا نعرہ دیا ہے ۔بھٹو ازم ایک مخصوص تاریخی صورت حال میں آمریت اور جمہوریت میں کشمکش کا اظہار تھا۔ آج کے پاکستان میں بھٹو ازم کا نعرہ پہلی سی معنویت اختیار نہیں کر پائے گا۔ دیکھئے ، ذوالفقار علی بھٹو کی ذات کا ایک رخ ان کا جاگیر دارانہ پس منظر تھا تو ان کی ذات کا ایک حصہ حقیقی غریب دوستی تھا۔ بے نظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت غالباً بھٹو صاحب سے بھی بڑھ کر تھی لیکن غریب عوام کے ساتھ ان کی سانجھ جذباتی کیفیت نہیں رکھتی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی سیاست آمریت کے خلاف کشمکش سے عبارت تھی۔ معاشی انصاف ان کے لئے وجودی سوال نہیں تھا۔ بھٹو صاحب نے اس قوم کو متفقہ آئین کا تحفہ دیا تو سیاسی مفاہمت کا اصول بے نظیر بھٹو کی دین ہے۔ جس کا بہترین اظہار میثاق جمہوریت کی صورت میں سامنے آیا۔ ابھی بلاول بھٹو کی سیاسی سوچ ان کی شخصیت کا حصہ نہیں بنی۔ پاکستان میں اب صرف آمریت کی مخالفت کے بل پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف معاشی سوچ بھی بھٹو صاحب کے زمانے سے بہت آگے نکل آئی ہے۔ آج جمہوریت کو عوام کے معاشی مفاد سے جوڑنا پڑے گا۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے ترقیاتی کاموں کی تضحیک کرنا بلاول بھٹو کے لئے مناسب نہیں۔ انہیں اپنا سیاسی بیانیہ مرتب کرنا ہے۔ ان کے لئے سیاسی چیلنج ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے ۔ پاکستان میں جمہوری قوتوں کو نہ صرف فیصلہ سازی میں اپنااختیار حاصل کرنا ہے بلکہ یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ اس اختیار کو کس رخ پر استعمال کرنا چاہئے ۔
مذہبی انتہا پسندی صرف فوجی کارروائی سے ختم نہیں کی جا سکتی۔ مذہبی انتہا پسندی کے تانے بانے ہماری ریاست اور شہری کے باہم رشتے کی نوعیت میں پیوست ہیں۔ گویا ہمیں ریاستی اور سیاسی سطح پر اپنی ترجیحات از سر نو مرتب کرنا ہیں۔ امن عامہ کا سوال معیشت سے جڑا ہے۔ ان میں سے کسی ایک معاملے کو دوسرے نکتے کا اسیر نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ معاشرتی سطح پر کن قوتوں کی مدد سے سماج میں انصاف ،آزادی اور ترقی کے چشمے رواں ہو سکیں گے۔ محنت کشوں، عورتوں، مذہبی اقلیتوں اور نوجوانوں کے لئے سماج میں زیادہ جگہ پیدا کئے بغیر ان معاشرتی قوتوں کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔ معیشت میں پاکستان کے وسائل محدودہیں۔ ان وسائل میں زراعت اور صنعت کا پہیہ بھی چلانا ہے اور معاشی ترقی میں انصاف کا پہلو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ محض سرمایہ داری کا پتلا جلانے سے معاشی انصاف کا راستہ ہموار نہیں ہو گا۔ پیپلز پارٹی کو جمہوری منظر پر اپنی جگہ جیتنا ہے تو اس کے لئے مفاہمت کی پالیسی سے مفر نہیں۔ہم میثاق جمہوریت سے بھی آگے نکل آئے ہیں۔ ہمیں ایک وسیع ترسیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس مکالمے میں میثاق جمہوریت میں شامل جماعتوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں موجود قوتیں بھی شریک ہوں اور ایسی تمام سیاسی قوتوں کو بھی شامل کیا جائے جو آئین پاکستان کی پاسداری پر متفق ہیں اور عوام کی تائید کے ذریعے پاکستان کو ترقی دینے کا عزم رکھتی ہیں۔یہ دائو پیچ کا معاملہ نہیں، سیاسی تدبر کا سوال ہے۔ بھٹو کی روایت بلاول بھٹو کا سرمایہ ہے لیکن اب اس روایت کو ہمارے قومی سرمائے میں بدلنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین