• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسپین سے مسلمانوں کی تاریخ کا گہرا تعلق ہے۔ جس میں ایک طرف مسلمانوں کی شاندار فتوحات ہیں جو بذاتِ خود حیران کن ہیں اور دوسری طرف تقریباً ساڑھے سات سو سالہ اقتدار کے بعد اسپین سے مسلمانوں کے اقتدار کا ایسا خاتمہ ہے جو انتہائی عبرت ناک ہے کہ کسی ملک میں اس کے بعد مسلمانوں کا کوئی نام و نشان اور نام لیوا نہیں ملتا۔ ہسپانیہ کی مسلم تاریخ میں آج بھی ہمارے لئے کئی سبق موجود ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال میں کون سے عوامل انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اسپین کی اسی کشش نے مجھے وہاں جانے پر قائل کیاجہاں ہم نے کچھ دن بارسلونا، قرطبہ اور غرناطہ میں گزارے۔ یہاں پر یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی تاریخ میں کافی فرق ہے۔ اسلامی تاریخ، مذہب اسلام کے آغاز، تعلیمات حضورﷺ کی زندگی اور بعد میں تبلیغ و اشاعت کی تاریخ کا نام ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کی تاریخ میں مسلم بادشاہوں اور حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی ، فتوحات و شکست اور عروج و زوال کو بیان کیا گیا ہے جسے مذہبی حوالوں سے شرعی حکومتیں قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ 92ہجری(711عیسوی)کا زمانہ تھا۔جب افریقہ یعنی مراکش پر ولید بن عبدالمالک کے سپہ سالار موسیٰ بن نصیر کی حکومت تھی۔ اس زمانے میں اسپین بُری طرح خانہ جنگی کا شکار تھا۔ جس پر لرزیق نامی سردار حکمراں تھا جس نے پادریوں کی مدد سے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا اور پادری پوری طرح حکومت پر حاوی تھے۔ لرزیق کے ایک مخالف سردار کائونٹ جولین نے ہی موسی ٰ بن نصیر کو اسپین پر حملہ کرنے کی دعوت دی اس نے اپنے آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد کو اسپین اور پرتگال کو فتح کرنے کے لئے ایک مختصر سے بحری لشکر کے ساتھ روانہ کردیا۔ جس کے بارہ ہزار سپاہیوں نے شاہِ لرزیق کے ایک لاکھ کے لشکر کو اس کے اپنے ملک میں جا کر شکست سے دوچار کردیا۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں پورے پرُتگال ، ا سپین اور جنوبی فرانس پر قبضہ کر لیا جس میں اسپین کا باغی سردار کائونٹ جولین طارق بن زیاد کے ہمرکاب تھا۔ اسی زمانے میں محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کرکے اسے بھی تسخیر کرلیا تھا۔ موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد پورے یورپ کو تسخیر کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے لیکن ولید کی اچانک موت کے بعد اس کا بھائی سلیمان حکمراں بن گیا۔ جو ولید کے مایہ ناز جرنیلوں موسی ٰ بن نصیر ، طارق بن زیاد ، قتیبہ بن مسلمہ اور محمد بن قاسم کا جانی دشمن تھا کیوں کہ انہوں نے سلیمان کی ولی عہدی کی مخالفت اور ولید کے بیٹے کی جانشینی کی حمایت کی تھی۔ چنانچہ اس نے ان قابل جرنیلوں میں کچھ کو قتل کروادیا اور کچھ کو حراست میں لے لیا۔ اس وجہ سے یورپ میں مسلمانوں کی فاتحانہ پیش قدمی رک گئی۔بنی امیہ کے 91سالہ اقتدار کے بعد 132ہجری (750عیسوی ) میں بنو عباس برسرِاقتدار آگئے اور انہوں نے چن چن کر بنو امیہ کے خاندان اور حامیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ۔ بنو امیہ کے خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرّحمان بن معاویہ جسے عبدالرّحمان اوّل بھی کہا جاتا ہے ۔ کسی طرح جان بچا کر ا سپین جا پہنچا اور وہاں کے حاکم یوسف بن عبدالرّحمان کو شکست دے کر اسپین پر قابض ہوگیا۔ اب مسلمانوں کے دو بادشاہ ہو گئے۔ بغداد میں بنو عباس اور ا سپین میں بنی امیہ ، اسپین پر قبضہ کرنے کے لئے عباسیوں نے پورپ کے عیسائی بادشاہوں کے ساتھ ملکر عبدالرّحمان پر حملہ کردیا۔ اس طویل جنگ میں بنو عباس، عبدالرّحمان کی حکومت تو ختم نہ کر سکے البتّہ مسلمانوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے جنوبی فرانس ہمیشہ کے لئے ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ عبدالرّحمان کے بعد اس کے جانشین 754ء سے لے کر 1038ء تک یعنی تقریباً تین سو سال تک پورے اسپین پر حکومت کرتے رہے۔ اس کے بعد اسپین کی مرکزی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ا سپین کی مختلف ریاستوں میں مختلف مسلمان حکمرانوں نے اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔ جو ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہتی تھیں اور اپنی امداد کے لئے عیسائیوں کی حلیف بن جاتی تھیں۔ بالآخر غرناطہ میں مسلمانوں کی آخری حکومت نے 1492میں عیسائیوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے یوں ا سپین میں مسلمانوں کے تقریباََ ساڑھے سات سو سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔مسلم اسپین کی مرکزی حکومت کے زمانے میں قرطبہ وہاں کا دارالخلافہ تھا، مسلمانوں کا اسپین پر طویل اقتدار محض اس وجہ سے قائم رہا کہ اس زمانے میں عیسائی جدید علم و فنون کے سیکھنے کو بائبل کی تعلیمات کے خلاف سمجھتے تھے۔ اور انکی حکومتوں پر پادریوں کا غلبہ تھا۔ جو اقتدار کے حصول کے لئے مخالفین پر غیر عیسائی ہونے کے فتوے لگاتے رہتے تھے۔ لیکن مسلمان اس وقت جدید علم و فنون ، سائنس ، فلسفہ اور ریاضی میں ماہر تھے۔ اُن میں ابنِ رشد جیسے فلاسفر بھی شامل تھے وہ انتہائی کھلے دل کے اور ہر مذہب کا احترام کرنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حسنِ اخلاق سے عام عیسائی اور یہودی بھی ان سے محبت کرتے تھے۔ غرناطہ میں ہمیں یہودیوں کی وہ بستی دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا جسے یہودیوں کی بستی (Jew's Corridors)کہا جاتا ہے۔ تمام مذاہب کے لوگ آپس میں شادی بیاہ بھی کرتے تھے۔ عبدالرّحمان اوّل نے قرطبہ میں اُس عالیشان مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔ جو اپنے وقت کی دنیا کی بہترین عمارتوں میں شمار ہوتی تھی۔ اسی طرح اس نے اور اس کے جانشینوں نے اتنی خوبصورت عمارتیں بنوائیں اور رفاہ ِ عامہ کے ایسے ایسے کام کئے کہ جس وقت قرطبہ روشنیوں کا شہر تھا اور اس کے ہر گھر میں کتب خانہ تھا باقی کا پورا یورپ اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا۔ عبدالرّحمان اوّل اگر ا سپین کی خود مختار مسلم ریاست کا بانی تھا تو عبدالرّحمان ثالث اس کا معمار تھا۔ وہ اتنا عظیم بادشاہ تھا کہ یورپ کے عیسائی حکمراں اپنے باہمی تنازعات میں اسے ثالث مقرر کرتے تھے۔ اسی نے اپنی بیوی کے نام پر ’’مدینہ الزہرا‘‘ کے نام سے ایک شہر بسایا، جسے راقم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس کے اب صرف کچھ کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کے عروج کے دور میں اموی حکمرانوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مذہبی عناصر حکومت پر حاوی نہ ہو پائیں جس طرح عیسائی پادری عیسائی حکومتوں میں ’’ بادشاہ گر‘‘ بنے ہوئے تھے۔ لیکن ا سپین میں ایک عقیدے کے مذہبی پیشوا آہستہ آہستہ امورِ سلطنت میں دخیل ہونے لگے ۔ حکم بن ہشام نے ان کا زور توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن علماء نے اس کے خلاف بغاوت کردی ۔ علماء کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے غیر مسلموں اور نو مسلموں دونوں کو خوفزدہ کردیا۔ کیونکہ علماء اپنے مفادات کی خاطر اکثر نو مسلموں کے مذہب پر شک کرتے تھے۔ چنانچہ عیسائیوں اور مسلمانوں میں یگانت اور محبت کی بجائے مذہبی تصادم کا آغاز ہوگیا۔ جو بالآخر ا سپین سے مسلمانوں کے زوال کا باعث بنا ۔ راقم کو قرطبہ کی جامعہ مسجد اور غرناطہ کے الحمرا پیلس کے علاوہ اسپین کی متعدد خوبصورت عمارتوں کو دیکھنے کا موقع ملا جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی نشانیاں ہیں۔ جب مسلمان اسپین میں آئے تو وہ مذہبی تنگ نظری سے دور، رواداری اور محبت کے پیکر تھے۔ وہ علم و فنون میں ماہر تھے۔ وہ ہر لحاظ سے بہتر انسان اور حکمراں تھے۔ لیکن جب وہ مذہبی انتہا پسندی کی دلدل میں گر گئے تو انہوں نے علم و سائنس کو چھوڑ کر توہم پرستی اور باہمی نفاق کا راستہ اختیار کر لیا جبکہ عیسائیوں نے اُن علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا شروع کردی جس کا آغاز مسلمانوں نے کیا تھا۔ یہی وجہ ہےکہ بعد میں وہ مسلمانوں سے بہتر انسان اور حکمراں بن گئے اور انہوں نے اسپین سے مسلمانوں کو بیدخل کر کے ثابت کر دیا کہ دنیا میں حق حکمرانی کے صرف وہی حقدار ہوتے ہیں جو علم و فنون، سائنسی ایجادات اور معاملات جہانداری میں دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں۔


.
تازہ ترین