• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’اس دور کی سب سے بڑی قوت تیل اور دولت سونا ہے۔ یہ دونوں چیزیں مسلمان ملکوں میں 76 فیصد سے زائد ہے، لہٰذا وہ دن دور نہیں جب ہم ان بے پناہ ذخائر کے مالک ہوں گے۔ اس کے بعد پوری دنیا پر ہمارا قبضہ ہوگا۔‘‘ پروٹوکولز کی اس دستاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ سامراج اور اس کے پالیسی ساز ادارے عالم اسلام کو ایک منظم ایجنڈے کے تحت تقسیم درتقسیم کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اقلیتوں کو حقوق کا جھانسہ دے کر اور سبز باغ دکھاکر بغاوت پر اُکسارہے ہیں۔ اسی طرح سرد جنگ کے بعد امریکہ نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ متعارف کروایا۔ اس میں کہا گیا اب پوری دنیا پر بلاشرکت غیرے امریکہ کی حکمرانی ہوگی۔ جو بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، اسے صاف کردیا جائے گا۔ جو ملک، ادارہ یا شخص امریکہ کو للکارے گا، اسے عبرت کا نشانہ بنادیا جائے گا۔کسی بھی باصلاحیت رہنماء اور مسلمانوں کے ہیرو کو اپنے ایجنٹوں اور فری میسنری کے ذریعے بد نام یا مروا دیا جائے گا۔حقیقت ایسی ہی معلوم ہوتی ہے۔ دور نہ جائیے! صرف گزشتہ نصف صدی سے ہی جائزہ لے لیجیے۔ شاہ فیصل سعودی عرب کے پہلے بہادر اور دور اندیش حکمران تھے۔ امریکی و مغربی یلغار کو روکنے کے لئے شاہ فیصل نے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ محض اسی جرم کی پاداش میں شہید کروایا گیا تھا کہ انہوں نے ناپاک امریکیوں کا آلۂ کار بننے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اگر ہم نے محسوس کیا ہم تمہیں تیل کے ذخائر تک پہنچنے سے نہیں روک سکتے تو ہم ان کنوؤں کو آگ لگا دیں گے اور اپنے آباء واجداد کی کھجور اور دودھ والی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔‘‘ شاہ فیصل نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے ہوئے ان امریکیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔پاکستان کے جری، نڈر اور بہادر حکمران ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھئے! ان کے خلاف سازشیں 1971ء سے شروع ہوئیں۔ یہ سازشیں اس لئے کامیاب ہوئیں کہ ملک کے سیاست دان باہمی دست وگریبان تھے۔ بھٹو کی چند ایک خامیوں کے باوجود ان میں خوبیوں کی بھرمار تھی۔ انہوں نے 71ء کے المیے کے بعد پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بلواکر ایٹمی پروگرام شروع کروایا۔ پاکستان کو معاشی لحاظ سے مضبوط کرنے کے لئے اسٹیل مل بنائی۔ دفاعی اعتبار سے ملک کو توانا کرنے ٹیکسلا میں ٹینک بنانے والی واہ فیکٹری لگوائی۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد یہ سب ذوالفقار علی بھٹو کے وہ کارنامے تھے جو امریکہ ’’ہضم‘‘ نہیں کرسکتا تھا۔ امریکہ کی طرف سے بھٹو کو لالچ اور دھمکیاں ملنے لگیں۔ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے ہنری کسنجر کا وہ خط ہوا میں لہرا کر کہا تھا: ’’سفید ہاتھی ہمیں دھمکیاں دیتا ہے، لیکن ہم اس کے سامنے جھکنے والے نہیں۔‘‘ ایسے حکمران کو امریکہ کیسے برداشت کرسکتا تھا، چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو کا جو انجام ہوا، وہ سب نے دیکھ لیا۔
عراق کے صدام حسین کو بھی اس لئے ایسے انجام سے دوچار ہونا پڑا کہ انہوں نے سامراج کے سامنے مزید بچھ جانے سے انکار کردیا تھا۔ ایرانی انقلاب کو روکنے کے لئے امریکہ نے ’’ایران عراق جنگ‘‘ چھیڑی۔ امریکہ کا خیال تھا ایران عراق جنگ اور ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باعث ایرانی عوام کی قوتِ مزاحمت بہت جلد جواب دے جائے گی۔ ایران کمزور ہوجائے گا، اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ ایک بار پھر ایران پر حاوی ہوجائے گا، لیکن صدام حسین بہت جلد امریکی سازش کو بھانپ گیا اور امریکی خواہشات کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ صدام حسین کا یہی اعلان آگے چل کر ’’عراق امریکہ‘‘ اختلافات کا باعث بنا اور انہیں انجام سے دوچار کردیا گیا۔ لیبیا کے معمر قذافی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔ قذافی امریکہ کو تیل کی وجہ سے بلیک میل کرتے رہتے تھے۔لیبیا نے طویل عرصے تک پابندیوں کا سامنا کیا۔ امریکہ بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے قذافی کو سبق سکھانا چاہتا تھا، چنانچہ 2010ء میں شروع ہونے والی ’’عرب بہار‘‘ جو تاریخ کی بد ترین خزاں ثابت ہوئی، کے دوران 2011ء میں شہید کردیئے گئے۔ استعماری طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ہمیشہ ’’یو این او‘‘ کا سہارا لیتی ہیں۔ افغانستان پر حملہ بھی سلامتی کونسل کی منظوری سے ہوا تھا اور لیبیا کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت میں بھی سلامتی کونسل نے راتوں رات قرارداد پاس کرڈالی۔ اس کے بعد امریکہ اور اتحادیوں کے جنگی طیاروں نے لیبیا کی فضائی اور دفاعی تنصیبات پر حملے کئے۔ قذافی اخلاقی لحاظ سے خواہ جیسا بھی تھا، لیکن تھابہادر اور دلیر۔ اس نے امریکہ کی ناک میں ہمیشہ دم کئے رکھا۔ قذافی کوموت کے گھاٹ اتار کر یہ پیغام دیا کہ مسلم ممالک کے حکمران ہمارے تابع رہیں، ہماری پالیسیوں کے خلاف نہ کریں۔ اس وقت پاکستان پر جو قیامت بپا ہے، اس میں بھی استعماری قوتوں کا خفیہ ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔ امریکہ پاکستان کو اس بات کی سزا دیناچاہتا ہے کہ وہ کیوں امریکی کیمپ سے بتدریج نکلنے کی کوشش کررہا ہے ؟وہ کیوں اپنے گمبھیر مسائل پر قابو پا رہا ہے؟ایسا اقدامات کر رہا ہے جن سے پاکستان کی معیشت مضبوط ہورہی ہے۔ پاکستان کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کا عزم لے کر1990ء کو نواز شریف نے وزیراعظم حلف اُٹھایا۔ وہ اپنی 5سال کی مدت پوری نہ کر سکے۔ 1997ء میں دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے۔ اس دوران ، مختلف دوست ممالک اور اداروں کے تعاون سے ملکی صنعت کو مضبوط بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ غازی بروتھا، گوادر بندرگاہ جیسے منصوبے شروع کئے گئے۔ افغانستان کے بحران کو حل کرانے میں مدد دی گئی۔ ان کے دورِحکومت کی اہم کامیابی پریسلر ترمیم کے تحت نافذ کی گئیں امریکی پابندیوں کے باوجود معاشی ترقی کا حصول تھی۔ 28مئی 1998ء کو امریکہ اور یورپی ممالک کی برہنہ دھمکیوں اور شدید دباؤ کے باوجود بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 5کامیاب دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا تھاکہ اکتوبر 1999ء کا وہ سیاہ دن آگیا جب ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ ان پر طیارہ سازش کیس کا مقدمہ چلا۔ اسی دوران ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کئے۔ 23 اگست 2007ء کو عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو وطن واپسی کی اجازت دیدی۔ 2008ء میں انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی اور نواز شریف کی پارٹی حزب اختلاف ٹھہری۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ 2013ء میں الیکشن ہوئے۔ ن لیگ نے میدان مارلیا۔ نواز شریف نے وزیراعظم بنتے ہی امن و امان کی ابتر صورتحال، بگڑے ہوئے معاشرے اور تباہ حال ملک کی بہتری کے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا۔ نواز حکومت نے 13 شارٹ ٹرم اور کراچی ٹو لاہور موٹر وے، ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹ، میٹرو سروس اور وژن 2025ء جیسے 24 لانگ ٹرم منصونے ترتیب دئیے، جبکہ 50 کے قریب منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ ان کی تکمیل سے ملک کی حالت اور قوم کی قسمت بدل جائے گی، لیکن ڈیڑھ سال بعد ہی نواز حکومت کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عالمی اور بیرونی سازشیں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب اندر کے لوگ مل جائیں۔ حالات کی نزاکت اور وقت کا تقاضا ہے پوری قوم استعمار کی ہمہ جہت سازشوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو۔ اپنے سسٹم اور اپنے نظام کی خود حفاظت کریں۔
تازہ ترین